بندرڈاکٹری پڑھ کر آیا تو اس نے
جنگل میں ایک ہسپتال قائم کرلیا۔جہاں وہ تمام جانوروں کا علاج کرنے لگا۔
لومڑی خالہ نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعدایک اسکول کھول لیا تھا۔جس
میں تمام جانوروں کے بچے پڑھنے آتے تھے۔ جنگل میں ٹوٹو اورپے ٹو خرگوش مل
کر لذیذ کھانوں کاایک ہوٹل چلارہے تھے اور بھالو میاں کا بہت بڑا جنرل
اسٹور تھا۔ اسی طرح سب جانوروں نے مختلف کاموں میں لگے رہتے تھے ۔سب نے مل
جل کر جنگل کے ماحول کو بہت خوبصورت بنا دیا تھا۔شیرو اس جنگل کا بادشاہ
تھا۔تمام جانور اس سے بہت ڈرتے تھے لیکن وہ کسی پر ظلم نہ کرتا اور نہ ہی
کسی جانور کو تکلیف میں دیکھ سکتا تھا۔جنگل کی زندگی یونہی پر سکون انداز
میں گذر رہی تھی کہ ایک دن دوسرے جنگل سے چند لومڑیاں شیرو بادشاہ سے ملنے
آئیں۔انہوں نے اپنے بادشاہ کی طرف سے شیرو بادشاہ کو بہت سے تحائف پیش کئے
اور دوستی کا پیغام بھی بھیجا۔ لومڑیوں کے آنے کی خبر پورے جنگل میں تیزی
سے پھیل گئی۔ شیرو بادشاہ نے لومڑیوں کی خوب مہمان نوازی کی اور ان کوجنگل
کا مکمل دورہ کرایا۔ جنگل کا ماحول اور جانوروں کا آپس میں سلوک و اتفاق
دیکھ کروہ دل ہی دل میں حسد کرنے لگیں ۔ چند روز گذارنے کے بعد لومڑیاں
واپس اپنے جنگل میں چلی گئیں۔ایک ہفتہ گذرجانے کے بعد وفد میں سے دو
لومڑیاں اسی جنگل میں واپس آئیں اور شیرو بادشاہ سے یہاں مستقل رہنے کی
درخواست کی ۔ لومڑیوں نے شیرو بادشاہ کی خوشامد کرتے ہوئے اپنے جنگل کے
بادشاہ کی برائیاں کرنا شروع کردیں۔انہوں نے شیرو بادشاہ کی ہمدردیاں لینے
کے لئے اپنے جنگل کے بادشاہ کے ظلم و ستم کے بارے میں بتانا شروع کردیا۔
لومڑیوں کی ساری باتیں سن کر شیرو بادشاہ نے انہیں اپنے جنگل میں مستقل
طورپر رہنے کی اجازت دے دی۔ ڈاکٹر بندر اور ہشیار کتے کو جب اس بات کا علم
ہوا تو انہیں ان لومڑیوں سے خطرے کی بو محسوس ہوئی۔
ڈاکٹر بندر نے ہشیار کتے کو ان دونوںلومڑیوں کے پیچھے لگا دیا اور کہا : ان
کے تعاقب میں رہو اوردوبارہ جنگل میں آمد کا مقصد پتا کرنے کی ذمہ داری
لگاتے ہوئے کہا: " مجھے اپنے جنگل سے بہت پیار ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ یہ
دونوں لومڑیاں ہمارے جنگل کا سکون تباہ کرنے کے مشن پر آئی ہیں۔"
بس پھر کیا تھا۔ ہوشیار کتے نے اپنی پوزیشن سنبھال لی اور لومڑیوں کے شب و
روز پہ نظر رکھنے لگا۔ ابتداءمیں کچھ دن تو اُسے کوئی غیر مشکوک حرکت نظر
نہ آئی کیوں کہ لومڑیاں جنگل کے تمام جانوروں کے ساتھ اپنے مراسم بڑھا رہی
تھیں اور ہر جانور کو تحفے تحائف دے کر اپنا گرویدہ بنائی جارہی تھیں۔۔
چونکہ شیرو بادشاہ کا جنگل اپنے امن اور بھائی چارے کی وجہ سے مشہور تھا ہی
ساتھ ہی اِس جنگل کی ایک اور خوبی تھی اور وہ یہ کہ آس پڑوس کے جنگلوں کے
مقابلے میں یہاں پھلوں کے درخت اور رس والے پھلوں کی بیلیں سب سے زیادہ
تھیں۔ تو پڑوس سے آئی لومڑیوں نے ہوشیار کتے کو تحفتاً ایک خوبصورت چھڑی دی
تاکہ کُتا پھل با آسانی توڑ سکے۔ یوں ہوشیار کتا بھی اُن لومڑیوں کی طرف سے
بے فکر ہو گیا کہ وہ تو بہت اچھی اور ملنسار ہیں۔ یوں ایک دن ہوشیار کتے نے
بندر ڈاکٹر سے لومڑیوں کی خوب تعریف کی اور اُسے کہا:"ڈاکٹر بندر صاحب آپ
بلا وجہ فکر کر رہے تھے۔ ہمارے پڑوسی تو بہت ہی اچھے ہیں۔"
ابھی کُتا اور بندر گفتگو میں مصروف ہی تھے کہ جھاڑیوں کے پیچھے کسی باتیں
کرنے کی آواز آئی۔دونوں بغیر کچھ کہے اُس سرگوشیوں کی طرف لپکے اور چھپکے
سے جھاڑیاں ہٹا کر دیکھا تو اُنھیں یقین نہ آیا کہ پڑوسی لومڑیاں اپنے جنگل
کے بادشاہ کو قہقہے لگا کر جنگل کا احوال بتا رہی تھیںاور اپنے کسی مشن کے
تکمیل ہونے کی عنقریب خوشخبری بھی دے رہی تھیں۔ ہوشیار کتے نے بندر کے کان
میں کہا: "آخر یہ کس مشن کی بات کر رہی ہیں۔" بندر نے ہوشیار کتے کو جواب
دیا:"تم خاموشی سے اُن کی باتیں سنو پر مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ پڑوس کا
بادشاہ ہمارے جنگل میں اتنی رات کو چھپ کر کیوں آیا ہے۔"
بس پھر کیا تھادونوں کی تشویش مزید بڑھ گئی ۔ ایک لومڑی جو بڑی تھی گرمجوشی
سے اپنے بادشاہ سے کہنے لگی :"سردار ہم نے تمام جانوروںکو اپنا گرویدہ بنا
لیا ہے اب ہر کوئی ہم پر اندھا اعتماد کرتا ہے۔ اب ہم اِن میں پھوٹ ڈلوائیں
گے اور یہ کام ہم نے آج ہی سے شروع کر دیا ہے۔" اور دو سری لومڑی کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے بولی:"بتا چھوٹی اپنا کارنامہ۔"
چھوٹی لومڑی جو کہ ناک میں سے آواز نکال کر بولتی تھی اپنے مخصوص انداز میں
کہنے لگی:"سردار آج ہم نے ٹو ٹو کو کہا کہ پے ٹو کھانا اچھا نہیں پکاتا۔
اورتمھارے کھانے کی تو بات ہی اور ہے ۔ پھر ہم نے پے ٹو خرگوش کے ڈھابے کے
کچن میں جاکر چائے میں چھپکے سے نمک ملا دیااور خاموشی سے ٹیبل پر جا کر
بیٹھ گئیں۔ اتنے میں پے ٹو خرگوش ٹو ٹو کے لئے چائے لے کر آیا۔ چائے منہ کو
لگا تے ہی ٹو ٹو خرگوش غصے میں لال پیلا ہو گیا اور پے ٹو خرگوش سے لڑنے
لگا ساتھ ہی ہوٹل الگ کرنے کی بھی بات کہہ دی۔یہی تو ہم چاہتی تھیں۔ اسی
طرح جنگل کا ہر جانور دوسرے کا دشمن بن جائے اور سب ایک دوسرے کو نوچ
کھائیں تاکہ آپ اِس جنگل کے بادشاہ بنیں اور یہ مزیدار پھلوں اور خوبصورت
بیلوں والا جنگل ہمارا ہو صرف ہمارا اور پتہ ہے سردار اِس جنگل میں تو بہتہ
جھرنہ بھی ہے۔ ہمارے جنگل کا پانی ایسا کہاں۔ خوب مزہ آئیگا جب یہ جنگل صرف
اور صرف ہمارا ہوگا۔"
پڑوس کے جنگل کا بادشاہ جو کالی چادر اوڑھے اب تک خاموش بیٹھا تھا آہستہ سے
دھاڑتے ہوئے بولا:"ہا۔۔ہا۔۔ہا میں تم دونوں لومڑیوں سے بہت خوش ہوا۔ جنگل
ہاتھ لگتے ہی میں تمھیں اِس جنگل کا سب سے اچھا اور عالیشان غار دونگا۔ رہی
بات شیرو کی تو اُسے ختم کرنا میری ذمہ داری کیوں کہ جب وہ اکیلا ہوگا اور
سب جانور لڑ مر رہے ہونگے تو اُس پر وار کرنا مشکل نہیں، بس تم اپنا کام
جاری رکھو۔"
یہ کہہ کر پڑوسی جنگل کا بادشاہ اپنے جنگل کا رُخ کر کے چل پڑا۔ اب ڈاکٹر
بندر اور ہوشیار کتے کی تو یہ حالت تھی کہ کاٹو تو خون نہیں۔ اُن پر جیسے
سکتہ طاری ہوگیا۔ اتنی بڑی چال۔ لیکن دونوں نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ
ہم ایسا ہر گز نہیں ہونے دیں گے۔ اور دونوں اپنے اپنے گھر کی طرف رونہ ہو
گئے۔ صبح اُٹھ کر دونوں ایک دوسرے کے گھر کی طرف آرہے تھے کہ مل کر معاملے
کی گھتی کو سلجھایا جائے کہ راستے میں عجب عجب منظر دیکھے۔ کہیں میاں بھالو
دکان کے باہر اپنے گاہک سے لڑ رہے ہیں ، کہیں لمبو زرافہ اور ہاتھی بحث کر
رہے ہیں اور ایک جگہ تو دو ہرن ہاتھا پائی تک اتر آئے ہیں۔ اب ڈاکٹر
بندراور ہوشیار کتا جب آمنے سامنے ہوئے تو دونوں ہی جنگل کے حالات سے
رنجیدہ تھے۔ لیکن اُنہیں پتہ تھا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ اُن دونوں نے شیرو
بادشاہ کے غار کا رُخ کیا اور شیرو بادشاہ کو رات کے واقعے اور لومڑیوں کے
مشن کے بارے میں بتا دیا۔ شیرو بادشاہ کو تو بہت غصّہ آیا اُس نے غصّے سے
دھاڑتے ہوئے کہا:"ابھی ان کمبخت لومڑیوں کو جنگل سے باہر پھینک دیتا ہوں۔"
پر ڈاکٹر بندر جو کافی ہوشیار تھا بولا:"تحمل سے کام لیجےے شیرو بادشاہ۔ ہم
لومڑیوں کو ایسا سبق دینگے کہ آئیندہ وہ ہمارے جنگل کی طرف آنکھ اُٹھا کر
نہ دیکھ سکیں۔ آپ اپنے جنگل کے جانوروں پر بھروسہ رکھیے۔" یو ں شیرو بادشاہ
خاموش ہو گیا۔
اب ڈاکٹر بندر اور ہوشیار کتے نے اپنے منصوبے پر عمل کیا ور وہ جنگل کے
تمام جانوروں کے پاس ایک ایک کر کے گئے اور پڑوسیوں کی سازش کے بارے میں
بتایا۔ یوں ٹوٹو نے بھی سب کچھ جان کر پے ٹو سے معافی مانگی۔ رفتہ رفتہ
تمام جانور ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے۔ اگلی صبح ماجرہ ہی اور تھا۔ لومڑیاں
جہاں پھوٹ ڈلوانے جاتیں وہ جانور دوسرے سے اور ملنے لگتا اور اس کی
اچھائیاں بیان کرتا۔ دو دنوں میں تو لومڑیوں کو یقین ہو گیا کہ اِس جنگل
میں پھوٹ ڈال کر اس پر قبضہ کرنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ
تمام ہی ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔ یوں لومڑیوں کو ناکامی ہوئی اور
وہ کسی کو الوداع کہے بغیر ہی جنگل سے چلی گئیں۔ یوں تمام جانوروں نے سکھ
کا سانس لیا اور جنگل کی زندگی میں وہی رونق واپس لوٹ آئی۔
یقینا ایک انگلی دشمن کا بال بھی بیکاں نہیں کر سکتی لیکن پانچ انگلیاں مل
کر دشمن کا منہ توڑ سکتیں ہیں۔ اِن جانوروں نے اتفاق اور بھائی چارے سے
اپنے جنگل کی حفاظت کی اور دشمن کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ |