السلام علیکم
میں جب بھی اپنے پاپا کو کوئی آرٹیکل یا پوئٹری لکھتا دیکھتی ہوں۔ تو میرے
دِل میں بھی یہ خیال شدت سے آتا ھے کہ میں بھی اپنے پاپا کی طرح کچھ لکھوں
۔ لیکن تعلیمی مصروفیات مجھے ہمیشہ اِس خُواہش سے محروم کردیتی ہیں۔ اب
چونکہ میرے امتحانات قریب آرہے ہیں۔ اور میری اسکول لائف ختم ہونے کو ہے۔
تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں اپنی اسکول لائف کی کچھ یادوں کو سمیٹ کر
انہیں محفوظ کرلوں۔ لہذا میں نے اُن تمام یادوں کو سمیٹ کر اپنی پہلی نظم
لکھی ہے ۔ اُمید کرتی ہوں کہ آپ سب کو پسند آئے گی ۔
|
|
چلو آؤ سُناتے ہیں تُم کو ۔پھر اپنی کہانی دِل بھر کے
ہر پل جینا سیکھو ہم سے ۔ہم تتلی سے بے پرواہ تھے
اَمِّی کا اُٹھانا بستر سے۔ ہم آنکھیں ملتے رہتے تھے
جیسے تیسے ،کیسے!کیسے!ہم بستہ تھام نِکلتے تھے
اِسکول پُہنچ کر آنکھوں میں جُگنو سے چمکنے لگتے تھے
اِسکول اسمبلی کی لائن میں۔ ساتھی جب سب مِلتے تھے
سِیٹوں کیلئے لڑتے رِہنا۔ اَپنوں کو اپنے سنگ رکھنا
شانوں پر رَکھ کر سَر سُونا۔ اِک دُوجوں کو ہم تکتے تھے
چُھپ چُھپ کر کاغذ پر لکھنا۔ پھر اُس کو آگے کردینا
وُہ نظروں میں باتیں کرنا جب ٹیچر بُورڈ پہ لکھتے تھے
وُہ وقفے کی گھنٹی بجنا۔ اُور چیزیں دُوڑ کے لے آنا
رُوٹھوں کو مَنانا کچھ دے کر۔ پھر مِل جُل کر سب کھاتے تھے
سِہلاتے ہُوئے اپنے گیسو۔گھنٹوں شیشہ تکتے رِہنا
جب یاد آنا ٹیچر کا سبق۔ تب کھول کے بستہ پڑھتے تھے
آئیں گے وُہ دِن اب یاد بُہت۔ میمونہ تُمہیں ہر شام و سحر
اسکول کے وُہ دِن جِن میں تُم کبھی ہنستے تھے کبھی رُوتے تھے |