نشان حیدر جیسے ڈراموں کو دیکھنے
کا رواج اب نہیں رہا . وطن کی عظمت کی باتیں کرنا اور وطن سے محبت کا اظہار
وہ جرم ہے جس کی پاداش میں ایک عام پاکستانی امن کی آشا کا تماشہ بنتا جا
رہا ہے . آسمانوں کو چھوتے سنگلاخ پہاڑوں پہ جس انداز میں ایک سپاہی اپنی
جان جان آفرین کی نظر کرتا ہے اس کا بیان وہی کر سکتا ہے جس نے اس منظر کی
ایک جھلک دیکھی ہو . آج میں نے سالوں بعد لانس نائک محفوظ شہید کی شہادت
اور زندگی پہ فلمایا گیا ڈرامہ دیکھا تو اس میں کئی سالوں پہلے فلمائے گئے
اس ڈرامے کے ایک سین نے آج کے پاکستان کے حالات کو ایک جملے میں کچھ بیان
کر دیا . ١٥ پنجاب کے افسر سیز فائیر کے بعد افسر فیلڈ میس میں کھانا کھا
رہے ہوتے ہیں ، میس میں خاموشی ہے اور کوئی کچھ نہیں کہہ رہا . ٹو آئی سی
ایک لطیفہ سناتا ہے تو کوئی نہیں ہنستا . افسر مایوس نظر آتے ہیں . ایک
افسر کہتا ہے کاش میں گھر چھٹی چلا جاتا . ٹو آئی سی کہتا ہے ، فکر نہ کرو
ایمرجینسی اٹھتے ہی چھٹی چلے جانا . اسی دوران ایک اور افسر اٹھتا ہے اور
کہتا ہے" اب پاکستان سے ایمرجینسی کبھی نہیں اٹھے گی "..... کتنی سچی پشین
گوئی تھی اس افسر کی یا پھر سکریپٹ رایٹر کی .......... افسوس اور کاش کہ
آج پاکستان پر چاروں جانب سے حملہ نہ ہو رہا ہوتا . پہلا حملہ زرداری اینڈ
کمپنی کا ، دوسرا افغان سرحدوں سے ، تیسرا انڈیا کا اور اب طاہری اور
الطافی اسکول آف ٹھاٹ کا ... اللہ محفوظ رکھے پاکستان کو ( آمین ) . میری
ایک حالیہ تحریر کو پڑھ کر ایک دوست بلکہ پاکستان دوست صحافی جناب عامر
کیانی صاحب نے مجھے ایک لائین لکھ کر ارسال کی جو آج کی تحریر کا عنوان ہے
. عامر کیانی لکھتے ہیں " کیا کبھی کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے ؟" . میں
کافی دیر تک ان الفاظ کو بار بار پڑھتا رہا اور سوچتا رہا کہ شائد آج قائد
اعظم کی روح بھی پاکستان سے اور پاکستانیوں سے کچھ ایسے ہی سوالات کر رہی
ہو گی .
کتنا عظیم ہے وہ ملک کہ جو اتنے حملوں اور اسقدر سفاک حکمرانوں ،
سیاستدانوں اور پاکستان دشمن پاکستانیوں کے تمام حملوں کے باوجود قائم ہے .
پاکستان کا کیا کمال ہے کہ وہ ابھی تک ان سب خارجی طاقتوں اور مضبوط دشمنوں
سے لڑ رہا ہے جو کبھی تو بمب بندوق سے اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور کبھی وہ
ٹی وی کی اسکرینوں پر اس کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں . مجھے عامر شاہد
کیانی صاحب کی بات بہت اچھی لگی مگر میں نے سچا کیوں نہ یہ سوال آج تاریخ
سے پوچھا جائے کہ کیا کبھی دعاؤں سے کوئی ملک بچا ہے . نیچے کی سطور ایک
مجاہد کی ڈائری کا احوال ہے جو میں نے سن 2004 میں دو سالوں کی محنت کہ بعد
مرتب کی اور پھر یہ چھپی بھی مگر نشان حیدر جیسے ڈراموں کی طرح اس طرح کی
کتب اب دستیاب نہیں ہیں کیونکہ ان میں نہ تو کہیں ہندوستان کو اپنا پسندیدہ
ملک کہنے والے حکمرانوں کا ذکر ہے اور نہ ہی اس کا دیپاچہ کسی امن کی آشا
اور بھارت یاتری پاکستانی صحافی نے لکھا ہے . یہ کرنل حق مرزا کی وہ ڈائری
ہے کہ جسکی اشاعت کی بعد سے اب تک ممکن ہے اسے کچھ سو لوگوں نے پڑھا ہو .
خیر ہم کتاب کی رنگینی اور اس جیسی اور کتابوں کے ساتھ زیادتی کی بات نہیں
کر رہے تھے . سوال تھا کہ کیا کبھی کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے ؟. میرے
خیال سے اس کا جواب 1947 میں کرنل حق مرزا نے لکھا اور آج میں اپنے پڑھنے
والوں تک پہنچا رہا ہوں . کرنل حق مرزا کشمیر میں 47 کی جنگ کا احوال بیان
کرتے ہوۓ لکھتے ہیں " ہماری مشین گن نے دشمن کے بنکر پر (جو دراصل دشمن کی
مشین گن کا مورچہ تھا) چند برسٹ ہی فائر کئے ہونگے کہ اُس بنکر سے جوابی
فائر آگیا۔ دشمن کی گولیوں کا برسٹ میرے پاؤں کے ارگرد گرا حتیٰ کہ میری
پتلون چند جگہوں سے زخمی ہو گئی۔ میں فوراً پچھلی ڈھلوان پر لڑھک گیا۔ جہاں
میرے دیگر ساتھی کھڑے تھے۔ جمعدار طالب حسین (سابقہ نائیک انڈین آرمی کے
پاس ایک فیلڈ پٹی تھی) اس نے فوراً فیلڈ پٹی نکال کر اور یہ کہتا ہوا میری
طرف لپکا۔ اوہو صاحب زخمی ہو گیا۔ میں نے گرج کر جواب دیا۔ میں زخمی نہیں
ہوا۔
ان میں سے کسی گولی پر میرا نام نہیں لکھا تھا( ان چند برسٹوں کے بعد دشمن
کی مشین گن سے کوئی فائر نہ آیا۔ حالانکہ میں پھر سکائی لائن پر ظاہر ہوا۔
اور اپنے مشین گنر کو حوصلے سے دشمن کی پوزیشن پر فائر جاری رکھنے کے لئے
کہا۔ حتیٰ کہ اس کے دونوں ایمونیشن بکس ختم ہو گئے۔ نتائج آگے چل کر معلوم
ہونگے۔
حملے میں جانے والی سب نفری اس تماشہ سے خوب لطف اندوز ہوئی اور اب ہمیں
بڑھ کر دشمن پر حملہ کرنے کا خیال آیا۔ ،میں پہلے بتا چکا ہوں کہ کیپٹن
سکندر کے حملے کے ساتھ لگاؤ رکھ کر اپنی کاروائی شروع کرنے کا خیال ہم سب
کے ذہنوں سے محو ہو چکا تھا۔ اس وقت تقریباً دن کے 12بجنے والے تھے۔ میری
یلغار کرنے کی تدبیر فائر اور حرکت تھی۔ سپانوالہ پڑ اور دشمن کی پوزیشن کے
درمیان مالہی پر ی کے بعد دیگرے تقریباً یکساں فاصلوں پر دو ٹیکریاں تھیں ،یعنی
چاروں مقامات تقریباً 500, 500گز کے فاصلے پر تھے، بیس والی دونوں پلاٹون
کی مدد سے میں نے کرامت پلاٹون کو بڑھ کر پہلی ٹیکری پر پوزیشن اختیار کرنے
کو کہا۔ جب وہ پوزیشن اختیار کر چکی تو اُس کی طاقت پر میں بقیہ دو پلاٹون
کو لے کر آگے بڑھا۔ تدبیر کے مطابق حفیظ پلاٹون بھی کھوڑی ناڑ سے بڑھ کر
دشمن کے عقب میں پہنچ گئی۔ اس وقت بادل دھند کی شکل میں مست ہاتھیوں کی طرح
گہری وادیوں سے اُٹھ کر چوٹیوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے۔ میں سپانوالے
پڑ سے چند منٹ ہی آگے بڑھا تھا کہ دھند سخت اور گہری ہو گئی اور ساتھ والا
آدمی بھی نظر آنا مشکل ہو گیا۔ دشمن نے یقیناًہمیں یلغار کرنے کے لئے آگے
بڑھتا دیکھ لیا تھا لیکن تمام خطے پر دھند کے چھا جانے کے بعد نہ تو دشمن
اندازہ کر سکتا تھا کہ ہم کہاں پہنچے ہیں اور نہ ہی ہمیں کوئی سدھ بدھ رہی
کہ ہم کدھر جا رہے ہیں۔ مقصود تو کافی آگے تھا۔ ہمارے لئے کرامت پلاٹون تک
پہنچنا بھی مشکل ہو گیا۔ (ایسے ہوتے میں جنگ میں غیرمتوقعہ عناصر جن عناصر
کے بارے میں کمانڈر اندازہ کر سکے ان سے نپٹنے کے لئے تو وہ کوئی ردعمل سوچ
لیتا ہے لیکن بعض اوقات ایسے غیرمتوقعہ حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ ان کا
فوری مناسب ردعمل سجھائی نہیں دیتا)۔ یہاں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت پیدا ہو
گئی۔ دشمن کے مورچوں کے قریب پہنچ کر یلغار کرنے کی ترتیب بنائی جاتی ہے۔
اس سے پہلے پہنچ کی ترتیب ہوتی ہے جب کچھ نظر ہی نہ آئے تو آپ کیسے تعین
کریں گے کہ پہنچ کی کاروائی کہاں ختم ہوتی ہے اور یلغار کہاں سے شروع ہو۔
پھر اس عالم میں اپنے دستوں کو آپس میں مڈ بھیڑ ہو جانے کا بھی سخت خطرہ
ہوتا ہے ۔ میں حسب معمول اپنے دونوں پلاٹون کمانڈروں کو ساتھ رکھ کر یلغار
کرنے والی نفری کے آگے آگے چل رہا تھا۔ ہم چلتے رہے چلتے رہے اس توقع پر کہ
شاید دھند چھٹ جائے اور کچھ نظر آئے۔ ہم کافی آگے نکل گئے۔ لیکن کرامت
پلاٹون سے ملاپ نہ ہو سکا۔ ایسے محسوس ہوا کہ شاید ہم کرامت پلاٹون کی
پوزیشن سے آگے نکل کر دشمن کے قریب پہنچ چکے ہیں ہم جہاں تھے وہاں ہی چُپکے
سے رُک گئے۔ دل میں پھر اللہ تعالیٰ کی قدرتی طاقتوں کے خلاف شکوہ شدید
شکوہ پیدا ہوا کہ اب جو حملے کا وقت آیا ہے تو دھند کے لشکر بھیج کر اندھا
ہی کر دیا ہے اور ہماری یلغار ناممکن بنا دی ہے۔
دن بھر دھند کے لشکروں نے ہمیں عضو معطل بنا کر رکھ دیا۔ شام پڑ گئی اور ہم
جہاں جہاں رُکے پڑے تھے۔ وہیں پڑے رہے۔ شام کے قریب دھند چھٹنے لگی اور
کہیں کہیں شام کی روشنی میں زمین کے خدوخال دکھائی دینے لگے۔ ہم بڑے ہی
صبرآزما دور سے گزر رہے تھے۔ آدھی رات 7/8 اگست 1948 ء کو فضا دھند سے صاف
ہو گئی جو ساتھ ہی نشیبی وادیوں میں روئی کے بوجھل پہاڑوں کی صورت لپٹ گئی۔
ہم نے نوٹ کیا کہ ہم واقعی کرامت پلاٹون کے پہلو سے گزر کر درمیان والی
دوسری ٹیکری کے پہلو میں ڈھلوان پر دشمن کی پوزیشن سے 3/4 سو گز پر پڑے
ہوئے تھے۔ نہایت خاموشی اور آہستگی سے تھوڑا پیچھے اور بائیں بازو لپک کر
دشمن پر یلغار کرنے سے پہلے آخری ٹیکری (جو خالی پڑی تھی) اُس پر قدم جمائے۔
دیگر نفری روک کراس کے پیچھے محفوظ کر کے دشمن کی حرکات و سکنات کا جائزہ
لینا شروع کیا۔ اب ہم دشمن کی پوزیشن سے اتنے دور تھے کہ بات چیت کی آواز
سن سکتے تھے۔ لیکن کوئی آواز نہ آئی۔ چند جوانوں کو دشمن کی پوزیشن کے
بالکل نزدیک بلکہ اُس کی خاردار تار کے قریب تک پہنچاکر دشمن کی خبر حاصل
کرنے کی کوشش کی لیکن دشمن کے قلعہ کی مانند مضبوط پوزیشن میں ہو کا عالم
تھا۔
فیصلہ کیا کہ صبح کا سٹینڈ ٹو (جس کا وقت قریب آرہا تھا) دیکھاجائے جونہی
دشمن سٹینڈ ڈاؤن کر کے مورچوں سے پیچھے ہٹے اُس وقت یلغار کر دی جائے۔صبح
کاذب گزر گئی صبح صادق آگئی دشمن نے کوئی سٹینڈ ٹو نہ کیا۔ یا خُدا کیا
ماجرا ہے؟؟ دشمن کو کیا ہوا۔ کہیں پوزیشن خالی کر کے بھاگ تو نہیں گیا؟؟ ۔
میں خود جمعدار طالب حسین کی پلاٹون کو ساتھ رکھ کر (اور باقی دو پلاٹون کو
تھوڑا پیچھے فاصلے پر رکھ کر ضرورت پڑنے پر مناسب کاروائی کے لئے کچھ تو
محفوظ ہو) مالہی کے ساتھ ساتھ جو دشمن کی مشین گن کی فکس لائن تھی آگے بڑھا۔
حتیٰ کہ سو گز آگے چلنے والے دونوں سکاؤٹ چھلانگ لگا کر دشمن کے اس بنکر پر
چڑھ گئے جس کے اندر مشین گن نصب تھی۔ ایک گرنیڈ بنکر کے اندر پھٹا (جو ایک
سکاؤٹ نے پھینکا تھا) او ر پھر خاموشی ۔ اسی اثناء میں ہم دوڑ کر دشمن کی
پوزیشن میں داخل ہو کر کرالنگ ٹرنچ میں کود گئے۔ یاد رہے کہ دشمن کی خاردار
تار کو کاٹنے اور اُس کے ساتھ لگے ہوئے بوبی ٹریپز کو غیر مسلح کرنے کا
ہمارے پاس کوئی انتظام نہ تھا۔ دشمن نے پیٹرولیں وغیرہ نکالنے کیلئے جو گیپ
چھوڑے تھے وہ مشین گن کے ڈائریکٹ فکس لائن فائر کی زد میں رکھ کر محفوظ کئے
ہوئے تھے۔ ہم جہاں سے دشمن کی پوزیشن کے اندر داخل ہوئے۔ وہ بھی ایک ایسا
ہی گیپ تھا۔ جس میں سے بیک وقت زیادہ سے زیادہ دو یا تین جوان گزر سکتے تھے۔
یلغار کرنا اس پوزیشن پر خاردار تاریں کاٹنے کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ لیکن
دشمن کی مشین گن کو کیا ہو گیا تھا۔ میں فوراً ہی کرالنگ ٹرنچ سے اوپر نکل
کر دشمن کی مشین گن بنکر کی طرف بڑھا۔دیکھا کہ دشمن کی گن میں گولیوں کا
پٹہ چڑھا ہوا ہے اور دشمن کے دو جوان گولیوں سے چھلنی پاس ڈھیر ہوئے پڑے
ہیں۔ اُن کے چہروں پر کم از کم پانچ پانچ چھ چھ گولیوں کے نشانات تھے۔ جن
سے خون بہہ کر جم چکا تھا۔ اتنے میں میری تینوں پلاٹونیں دشمن کی پوزیشن
میں داخل ہو کر پھیل چکی تھیں۔ ایک گولی فائر نہ ہوا۔ میرا ایک جوان بھی
زخمی یا شہید نہ ہوا۔ دشمن کی کئی نعشیں پوزیشن کے اندر بکھری پڑی تھیں کچھ
نعشیں کرالنگ ٹرنچ میں پھینک کر دفنائی گئی تھیں۔ اور بقیہ دشمن پوزیشن
خالی کر کے بھاگ چکا تھا۔ حیرت ہوئی تھی کہ اس قدر محفوظ پوزیشن دشمن لڑائی
کیے بغیر کیوں خالی کرگیا۔ کون کہتا ہے کہ معجزات نہیں ہوتے (پیر پنجال پر
حملے کی کمان اللہ کریم نے خود سنبھال رکھی تھی.
ہوا کیا تھا؟
خدائے برتر و جبار نے بیرم گلہ کے خطاب کے روز اپنے گناہگار بندوں کے ،جو
آج سربکف مجاہدین اسلام بن کر خدائی حکمِ جہاد پر خلوص دل سے لبیک کہہ کر
اس کی خوشنودی کیلئے ننگے بھوکے ، بیابان مرغزاروں میں اپنی جانوں کا
نذرانہ لے کر نکلے تھے،جذبہ شہادت یا فتح کو قبول فرمالیا تھا۔ اور اپنی
غیبی طاقتیں ہمارے ساتھ کر دی تھیں۔
عطا پلاٹون کی موثر کاروائی سے دشمن کی رسدی لائن اور ٹیلیفون کٹ چکی تھی۔
دشمن پیچھے سے رابطہ منقطع ہونے کے بعد سخت بددل ہو چکا تھا۔
حملے کے روز 3" مارٹر اور مشین گن کے فائر نے معجزانہ طور پر دشمن کی
پوزیشن پر وہ تباہی مچا دی جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔ بقول ڈاکٹر اقبالؒ وہ
بات ہو گئی تھی۔
لڑا دے ممولے کو شاہباز سے
میرا ایمان ہے کہ فرشتوں نے ہماری 3" مارٹر کا پہلا بم خود پکڑ کر اس خیمے
پر پھینکا جہاں دشمن کا کمپنی کمانڈر بمعہ جونیئر کمانڈروں کے کانفرنس میں
بیٹھا تھا۔ اس طرح دشمن کے کمانڈروں کا صفایا ہو جانے کے بعد دشمن کے اندر
اپنی مضبوط دفاعی پوزیشن میں ڈٹے رہنا محال ہو گیا۔ ہماری 3" مارٹر کے سارے
گولے ٹھیک ٹھیک دشمن کی پوزیشن کے اندر گرے تھے۔ جابجا گہری لائنیں گولوں
کے ٹکڑوں نے کھودی ہوئی تھیں اوردشمن کی پوزیشن میں قیامت مچ گئی تھی۔
رہی سہی کسر ہماری مشین گن کے فائر نے پوری کر دی تھی جس نے چند برسٹ فائر
کے بعد دشمن کی مشین گن کو مضبوط بنکر کے اندر خاموش کر دیا تھا۔ یہ گولیاں
بھی خداوند کریم کے فرشتوں نے دشمن کے فائر ہول سے گزار کر دشمن کے مشین گن
نمبروں کو واصل جہنم کیا تھا۔ مشین گن فائر نے دشمن کو ایسے دبایا کہ وہ
مورچوں سے سر باہر نہ نکال سکتے تھے۔
ہماری یلغار کرنے کی حرکت دشمن کو دکھا کر اُس ذات کبریا نے دھند کے لشکر
ہماری مدد کو بھیج دیئے جس غیبی امداد کو ہم اپنی کوتاہ اندیشی کے باعث اس
وقت نہ سمجھ سکتے تھے۔ ان خدائی لشکروں کو ایک طرف تو ہمیں محفوظ کر کے
دشمن کے وار سے بچالیا اور ہمیں یلغار کرنے کی زحمت نہ کرنے دی۔ مبادا دشمن
کی کھڑی کی ہوئی خاردار تار اور بوبی ٹریپز کی رکاوٹوں میں پھنس کر تباہ نہ
ہو جائیں اور دوسری طرف دشمن پر ایک عجیب ہیبت طاری کر دی ان کے بچے کھچے
جوان جن کے اعلیٰ کمانڈر ختم ہو چکے تھے۔ دھند کی تاریکی میں اپنے بے شمار
ساز و سامان اور مردوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے جو راستہ میں عطا پلاٹون کی
گھات میں پھنس کر ختم ہو گئے۔ دشمن کی 36نعشیں اس پوزیشن سے ہمیں ملیں۔ جن
کو دفن کر دیا گیا۔
جو چند بھگوڑے عطا پلاٹون نے قیدی بنائے وہ مردگی کے عالم میں سہمے پوچھتے
تھے کہ وہ سبز کپڑوں میں حبشی نما فوج جنہوں نے ہمیں تباہ کر دیا اُن سے
بچاؤ۔
یہ سب کیا تھا؟ میری سپاہ میں سے کسی کو بھی شک نہیں کہ جب اللہ کے ساتھ
عہد کر کے سچے دل سے اُس کے راستہ میں قربان ہونے کے لئے مسلمان مجاہد
نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ خوش ہو کر اپنی غیبی افواج (فرشتوں) سے ان کی مدد
فرماتا ہے اور اُن کو بظاہر کمزور ہونے کے باوجود بڑے سے بڑے دشمن پر فتح
عطا فرماتا ہے۔ یہ معجزات مسلمانوں کی گذشتہ تاریخ میں بھی ہوئے ہیں۔ کشمیر
کی جنگ آزادی میں بھی ہوئے ہیں۔ اور انشاء اللہ آیندہ بھی ہوتے رہیں گے
بشرطیکہ مسلمان مجاہد آزمائش کی گھڑی میں سچے دل سے بے خوف ہو کر اللہ کی
خوشنودی حاصل کرنے کے لئے دشمن سے ٹکرانے کا تہیہ کر لیں۔
پیر پنجال کے حملے میں گنہگار نے اللہ تعالیٰ کی غیرت کو اس طرح سے للکارا
تھا کہ اُس نے تمام تدبیر اپنے ہاتھ میں لے کر وہ کچھ کر دکھایا جو صرف
اُسی کی ذات پاک سے ممکن ہے۔اس خاص کاروائی میں البتہ اُس ذات کبریا نے سب
کو فاتح اور غازی بنادیا۔ اُس ذات پاک کا شکرانہ ادا کرنے کے لئے میرے پاس
کوئی ہمت نہیں۔
آج پورے تین دن گھاس پر گزران کرنے کے بعد دشمن کے چھوڑے ہوئے راشن سے رزق
نصیب ہوا۔"
یہ سب لکھتے ہوۓ میں بہت جذباتی ہو رہا ہوں ، دل رنجیدہ اور آنکھ نم ہے مگر
پھر مجھے وہ تمام لوگ بھی یاد آ رہے ہیں جو پچھلے اٹھتالیس گھنٹوں میں
پاکستان کی سڑکوں پہ شہید ہوۓ ، مجھے وہ تین سپاہی بھی یاد آ رہے ہیں جو
پاکستانی سیاست دانوں کے پسندیدہ ملک نے اپنی جارحیت کا مظاہرہ کر کہ شہید
کر دیے اور مجھے میرے وطن کشمیر کے وہ لاکھوں احباب بھی اپنے سامنے نظر آتے
ہیں جو پچھلی آدھ صدی میں آزادی کی مانگ میں قربان ہو گئے . میں پھر بھی
مایوسس نہیں اور میں روز یہی دعا کرات ہوں کہ " اے میرے رب تو ں ہی نصرت
دینے والا ہے تجھ سے ہی کرم کی امید ہے ، توں جمیل کل ہے اور کائنات تیرے
جمال کا حصہ ہے ، اے میرے رب توں ان شہیدوں کی قربانیوں والے دیس کو بچا لے
" . بہت سے ایسے دوست جو آج مایوس ہیں اور سوشل میڈیا اور امن کی آشا کے
تنخواہ دار اور پیروکار صحافیوں کی زہریلی باتوں سے گھبرا گئے ہیں یہ یاد
رکھیں کہ دعا ہر بلا کو ٹال دیتی ہے بس ایمان کی مضبوطی لازم ہے . اللہ
میرے گھر کو سلامت رکھے ( آمین ) |