تحریر: فوزیہ رانی، ملتان کینٹ
کوئی نئی با ت نہیں
آج سے پانچ بر س پہلے کی با ت ہے ایک گھر میں چوری کی واردات ہوئی۔ اگلے
روز اخبار میں چھوٹی سے خبر آئی ۔ ہفتہ دس دن پو لیس نے تفتیش کے بہانے گھر
والو ں سے کھا نا کھایا اور بس.... ختم کہا نی ہو گئی ۔ ایسی کہانیا ں اسی
طر ح ختم ہو جایا کر تی ہیں لیکن چوری کی اس کہانی کے بعد ایک کہا نی اور
شروع ہوتی ہے جو جلدی ختم نہیں ہو سکتی یا ہو سکتا ہے کبھی ختم نہ ہو ۔
یہ گھرانہ جس میں چوری ہوئی، میا ں، بیوی، ایک بیٹے اور بیٹی پر مشتمل ہے ۔
میاں ایک ادنیٰ درجے کا ملاز م تھا۔ یہ لو گ ان لو گو ں میں سے ہیں جو شاید
بیٹی کی پیدا ئش کے ساتھ ہی جہیز بنانا شرو ع کر دیتے ہیں۔ ان لو گو ں نے
بھی اسی طر ح بیٹی کے لیے جہیز بنایا تھا ۔ شادی کے لیے قرضہ بھی لیا اور
شادی کی تاریخ بھی مقرر ہو گئی تھی ۔
ایک رات ان کا بیٹا کمرے میں بیٹھا پڑھ رہا تھا ۔ کمرے کا ایک دروازہ گلی
کی طرف کھلتا تھا جو اس وقت کھلا ہوا تھا ۔ ماں نے لڑکے کو کسی کا م سے آوا
ز دی ۔ وہ صحن میں گیا اور واپس آگیا ۔ اس کے بعد وہ بیٹھا پڑھتارہا۔ رات
زیا دہ ہو ئی تو اس نے دروازہ اندر سے بند کر لیا ۔ را ت کے دو بجے کے قریب
اس کمرے کے صوفے کے پیچھے سے ایک آدمی ہا تھ میں پستول لئے ہوئے نکلا اور
لڑکے کو دروازہ کھولنے کے لیے کہا۔ لڑکے کا دہشت سے براحال تھا ۔ اس نے
کانپتے ہاتھوں سے دروازہ کھو لا اور تین چور اور اندر آگئے ۔ انہو ں نے سب
گھر والو ں کو جگا یا اور ایک جگہ اکٹھا کر لیا۔ لڑکے کی ماںسے چابیا ں لیں
اور سار ا جہیز مع گھر کے قیمتی سامان ، زیور اور پیسے کے،ساتھ لے گئے ۔
اس کے بعد لڑکے وا لو ں نے شادی یہ کہہ کر ملتوی کر دی کہ آپ کا سامان مل
جائے تو شا دی کی تا ریخ پھر رکھ لی جائے گی۔ آج پانچ سال گذر گئے ہیں نہ
سامان ملا ،نہ شادی ہوئی اورنہ ہی پھر سامان بن سکا۔ لڑکے والو ں نے کہیں
اورلڑکا بیا ہ لیا او رجہیز حاصل کر لیا ۔ لڑکی کا با پ ریٹائرڈ ہو گیا اور
بھائی (بی۔ اے) کر کے نو کری کی تلاش کرنے کا کام کر رہا ہے ۔
اس ساری کہا نی میں کوئی نئی با ت نہیں ۔ سوائے ایک با ت کے کہ ان چا ر
افرا د کی بر با دی کے ذمہ دار وہ چور نہیں بلکہ وہ باعزت لٹیرے بھی ہیں جو
جہیز کے نا م پر ان کو لوٹنا چاہتے تھے اور جب ان سے پہلے دوسرے چور یہ
جہیز لوٹ کر لے گئے ، تو وہ بھی دوڑ گئے ۔ قانو ن نہ ان چوروں کو پکڑ سکا
جو خون پسینے کی کما ئی سے بنایا ہو ا جہیز لے گئے تھے ، نہ قانون ان حریص
لوگوں کا کچھ بگاڑ سکتا ہے جو جہیز کے بغیر کسی کی بیٹی کو قبول نہیں کر تے
۔
عبقری سے اقتباس |