پڑھے لکھے جاہل

معاشرہ افراد کے ایک ایسے گروہ کا نام ہے جن کی ضرورتیں ،مفادات ،تہذیب و تمدن میں موافقت ہو۔اس میںبوڑھے بچے ،جوان ،مرد و عورت سبھی شامل ہیںاور ہرفرد کی اپنی ایک اہمیت ہے ۔اس معاشرہ کا ایک اہم اور کارآمد پرزہ اہل علم و دانش ہیں۔جن کی وجہ سے اس معاشرے کا حسن اور اس معاشرے کی بقاء و ارتقاء وابستہ ہوتی ہے ۔یہ طبقہ متحرک ،معاملہ فہم اور وقت شناس ہوتاہے اس کی فکر و بالغ نظری کی بدولت معاشرے ترقی کے زینے چڑھتے ہیں ۔اسلام انہی باشعور اور قابل تقلید افراد کو علماء کے نام سے موسوم کرتاہے ۔

محترم قارئین :میںدیکھ رہا ہوں کہ کتب تو عام ہوگئی لیکن کتب کے نقوش کی تاثیر و علم کی روح سے ہم بے بہرہ ہوتے چلے گئے۔نتیجہ کیا نکلا کہ ایک نئی اصطلاح ایجاد ہوگئی ۔''پڑھے لکھے جاہل''۔مادیت پرستی کی وجہ علم کی قدریں مسمار ہونے لگی ہیں ۔چنانچہ کتب و اہل کتب سے محبت سے وفا شعاری کو اپنی ذمہ داری جانتے ہوئے کچھ علمی نکات آپ کے ذوق مطالعہ کی نظر کرتاہوں ۔کیامعلوم کسی کہ دل پر کوئی کام کی بات اثر کرگئی اور وہ راہ ہدایت پر گامزن ہوگیا تو میری بگڑی سنور جائیگی ۔

محترم قارئین :
حضرتِ سَیِّدُنا زِرّ بِنْ حُبَیْش رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ میںحضرتِ سَیِّدُناصَفوَان بِن عَسَّال رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس موزو ں پر مَس:ح کا حکم پوچھنے کے لئے حاضر ہوا تو انہوں نے پوچھا :اے زِر کیسے آنا ہوا؟ میں نے عرض کی :علم کی تلاش میں ، فرمایا ،فرشتے طالبِ علم کے مقصد پر رِضا مندی کی وجہ سے اُس کے لئے اپنے پَر بچھاتے ہیں۔میں نے عرض کی، پاخانہ اورپیشاب کرنے کے بعد موزوں پر مَس:ح کرنے کے بارے میں میرے دل میںشُبہ پڑگیا ہے، آپ صحابی رسول ہیں ،اِس لئے میں آپ سے معلوم کرنے آیا ہوںکہ کیا آپ نے حضورِپاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس کے مُتَعَلِّق کچھ سنا ہے؟ فرمایا:''ہا ں!نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیں فرمایا کرتے تھے کہ''جب ہم حالتِ سفر میں ہوں تو جَنابَت کے علاوہ تین دن رات تک پیشاب،پاخانے یا نیند کی وجہ سے موزے نہ اتاریں۔''میں نے پوچھا: کیا آپ نے مَحَبَّت کے بارے میں بھی نبیِّ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے کچھ سنا ہے؟ فرمایا:ہاں!ہم ایک سفر میںحضور ِاکرم، نورِ مُجِسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہمراہ تھے ۔ایک اَعرابی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوبلند آواز سے پکارا،یَامُحَمَّد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)! تورسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اتنی ہی بلند آواز سے جواب دیا کہ ـ''میں یہاں ہوں''ہم نے اُس اَعرابی سے کہا:تجھ پر افسوس ہے!اپنی آواز پَست کر، کیونکہ تو نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس ہے اور تجھے اِس (بُلند آواز)سے منع کیا جاچکاہے۔اُس نے کہا: خدا کی قسم!میں اپنی آواز پَس:ت نہیں کروں گا۔پھراس اَعرابی نے نبیِّ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کی: یَا رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!ایک آدَمی کسی قوم سے مَحَبَّت کرتا ہے اور ابھی تک وہ اس سے ملا نہیں؟اَعرابی کی یہ بات سن کر حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:'' قِیامت کے دن ہر شخص اپنے محبوب کے ساتھ ہوگا۔''

علامہ بَدْرُ الدِّیْنعَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْغَنِی عمدۃُ القاری میںفرماتے ہیں علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام، انبیائے کرام لَیْھِمُ السَّلَام کے وارث ہیں ۔ حضرتِ سَیِّدُنا ابو درداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ جو علم حاصل کرنے کے لئے چلا اَللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے لئے جنت کے راستے آسان فرما دیتاہے اور ملائکہ طالبِ علم کے لئے اپنے پَر بچھا دیتے ہیں اور زمین و آسمان میں موجود ہر شئے اس کے لئے اِسْتِغْفَار کرتی ہے یہاں تک کہ سمندر میں مچھلیاں ۔ ایک عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ۔ نیز علمائے کرام رَحِمَھُمُ اللّٰہُ السَّلَام انبیائے کرام عَلَیْھِمُ السَّلَام کے وارث ہیں اور انبیاء عَلَیْھِمُ السَّلَام دِر:ہَم و دینار کا وارث نہیں بناتے بلکہ وہ علم کا وارث بناتے ہیں ۔(عمدۃ القاری، کتاب العلم، باب العلم قبل القول والعمل، ٢/٥٥، تحت الباب)

محترم قارئین :علم حاصل کریں اور اہل علم کی تعظیم و توقیر کو اپنا شعار بنائیں ۔حضرتِ سَیِّدُنا مُعَاذ بن جَبَل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ اَللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ''علم حاصل کرو کیونکہ اَللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضاکے لیے علم سیکھنا خَشِیَّت، اسے تلاش کرناعبادت ، اس کی تکرارکرناتسبیح اوراس کی جستجو کرنا جہاد ہے اور لاعلم کو علم سکھانا صَدَقہ ہے اور اسے اَہل پہ خرچ کرنا قُربت یعنی نیکی ہے کیونکہ علم حلال و حرام کی پہچان کا ذریعہ ہے اور اہلِ جنت کے راستے کا نشان ہے اور وَحشت میں باعثِ تَسکین ہے اور سفر میں ہم نشین ہے اور تنہائی کا ساتھی ہے اور تنگدستی وخوشحالی میں راہنما ہے، دشمنوں کے مقابلے میں ہتھیار ہے اور دوستوں کے نزدیک زِینت ہے ، اَللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے ذریعے سے قوموں کوبُلندی وبَرتَری عطا فرماکربھلائی کے مُعاملہ میں قائد اور اِمام بنادیتاہے پھر اُن کے نشانات اور اَفعال کی پَیرَوِی کی جاتی ہے اور اُن کی رائے کو حرفِ آخِر سمجھا جاتاہے اور ملائکہ اُن کی دوستی میں رَغبت کرتے ہیں اوران کو اپنے پرَوںسے چھوتے ہیں اور اُن کے لئے ہر خشک و تر چیز اور سمندر کی مچھلیاں اور جاندار اور خشکی کے دَرِندے اور چوپائے اِس:تِغ:فَار کرتے ہیں کیونکہ علم جہالت کے مقابلہ میں دلوں کی زندگی ہے اور تاریکیوں کے مقابلہ میں آنکھوں کا نور ہے، علم کے ذریعے بندہ اَخیار یعنی اولیا کی مَنازِل کو پالیتا ہے اور دنیا و آخرت میں بلند مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے اور علم میںغور وفکرکرنا روزوں کے برابر ہے اور اسے سیکھنا سکھانانماز کے برابر ہے ،اسی کے ذریعہ صِلہ رحمی کی جاتی ہے اور اسی سے حلال وحرام کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور یہ عمل کا اِمام ہے اور عمل اِس کے تابع ہے اور خوش بختوں کو علم کا اِلہام کیا جاتا ہے جبکہ بد بختوں کو اس سے محروم کردیاجاتا ہے ۔'' (جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر، باب جامع فی فضل العلم، ص٧٧، حدیث:٢٤٠)
حضرتِ سَیِّدُناابو الدرداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ''قیامت کے دن عُلَمَا کی سیاہی اور شُہدا کے خون کو تولا جائے گا۔ '' (جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر، باب جامع فی فضل العلم، ص٤٨، حدیث:١٣٩) ایک روایت میں ہے کہ '' علما کی سیاہی شہدا کے خون پر غالب آجائے گی۔ '' (تاریخ بغداد، محمد بن الحسن، ٢/١٩٠، حدیث:٦١٨)

حضرتِ سَیِّدُنا ابواُمَامَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَر:وَر، دو جہاں کے تاج:وَرصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :'' قیامت کے دن عالِم اور عبادت گزار کواٹھایا جائے گا تو عابد سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجاؤ جبکہ عالِم سے کہا جائے گا کہ جب تک لوگوں کی شفاعت نہ کرلو ٹھہرے رہو۔'' (شعب الایمان، باب فی طلب العلم، ٢/٢٦٨، حدیث:١٧١٧)

محترم قارئین :خوب خوب علم حاصل کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس علم کا وقار آپ پیشانی سے عیاں ہو۔آپ کا کردار اس کا امین ہو۔آپ کا کلام اس کا آئینہ دار ہو۔اس میں دنیا و آخرت کی بھلائیاں ہیں ۔اس کہ برعکس کہیں ایسا نہ ہو کہ کردار ،گفتار دیکھ کر کوئی یہ کہہ دے۔اُو!!! پڑھے لکھے جاہل''
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 594117 views i am scholar.serve the humainbeing... View More