لاہور:یہ منظر بہار ہے یہاں لہو وہاں لہو

آج پھر میرا وطن لہو رو رہا ہے،ابھی ہم نے جمرود میں نماز جمعہ کے دوران دھماکہ میں شہید ہونے والے اپنے بھائیوں کا سوگ بھی نہیں منایا تھا کہ ایک بار پھر میرے وطن پر دہشت کا راج ہوگیا۔اس دفعہ ان دہشت گردون کا نشانہ وہ نو جوان وہ نو عمر تھے جو کہ اس ملک کی خدمت کا جذبہ لیکر، معاشرے کے ناسوروں سے جہاد کا جذبہ لیکر پولیس میں بھرتی ہوئے تھے۔ وہ جیالے نوجوان ان کا نشانہ بنے ہیں۔ میں نے جب ٹی وی میں یہ منظر دیکھا کہ تو بے اختیار میری آنکھیں بھر آئیں جب ہسپتال میں ایک خاتون اپنے پیارے کو ڈھونڈتے ہوئے سب سے ایک ہی سوال ہی پوچھ رہی تھی کہ “ او کتھے اے مینو دسو او کتھے اے“ اسی طرح ایک نوجوان خاتون شاید اپنے بھائی کا ماتم کرتے ہوئے غم سے نڈھال تھی اور اپنا سر پیٹ رہی تھی۔اور وہ نوجوان جو بتا رہا تھا کہ شہید ہونے والا میرا چھوٹا بھائی تھا۔ایک پچیس چھبیس سال کا نوجوان جب یہ بات کہہ رہا تھا تو وہ بھی غم سے نڈھال تھا۔ان مناظر نے طبیعت مکدر کردی۔کیا یہ سب کرنے والے، بے گناہوں کا خون بہانے والے، دہشت گردی کرنے والے کیا یہ لوگ انسان کہلانے کےلائق ہیں، یہ لوگ تو انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں، دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ صرف دہشت گرد ہوتا ہے، مجرم اور صرف مجرم ہوتا ہے،انسانیت کا مجرم

اطلاعات کے مطابق مناواں پولیس ٹریننگ سینٹر میں زیر تربیت پولیس اہلکار پیریڈ میں مصروف تھے کہ آٹھ سے دس دہشت گرد اسکول کی ایک جانب کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے اور انہوں نے داخل ہونے ساتھ ہی ہینڈ گرنیڈ سے حملہ کردیا اور فائرنگ شروع کردی جس سے گراؤنڈ میں موجود نفری میں بھگڈر مچ گئی اور اہلکار اپنی بیرکس کی طرف اور دیواریں کود کر باہر بھاگنے لگے،دہشت گرد بھاگ کر عمارت کی بالائی منزل پر چلے گئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی، دہشت گردی کی یہ واردات تقریباً آٹھ گھنٹے جاری رہی بالاخر آرمی اور رینجرز کی مدد سے ان دہشت گردوں پر قابو پالیا گیا اس دوران چار دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب کہ تین دہشت گردوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر پہنچا دیا گیا ۔

سوچنے کی بات ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو اس طرح سر عام وارداتیں کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں یا ان کے اندر اتنی ہمت کیسے پیدا ہوئی کہ وہ اسطرح دیدہ سے یہ وارداتیں کرتے ہیں۔شمالی علاقہ جات میں تو یہ آگ پہلے ہی لگی ہوئی تھی اب اس آگ کا دئرہ دوسرے شہروں تک پہنچ رہا ہے۔لاہور میں ابھی حال ہی میں سری لنکن ٹیم پر حملے کی واردات ہوئی تھی اس کے بعد یہ حملہ دراصل بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔اس کا جائزہ لینا چاہیے

یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب امریکی صدر بارک اوبامہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نئی حکمت عملی کے تحت عراق کے بجائے افغانستان اور پاکستان پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کا مرکز پاکستان میں ہے۔اس کے فوراً بعد ہی اس طرح کی واردات دراصل اس معاملے میں غیر ملکی قوتوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔اس طرف دھیان دینے ضرورت ہے۔کیوں کہ پاکستان کے دشمن پاکستان کو غیر مستحکم اور ناکام ریاست ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کا مقصد پاکستان پر دباؤ بڑھانا اور پاکستان کےایٹمی پروگرام پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔پاکستان اس وقت عالمی سیاست کا مرکز ہے۔ایک طرف افغانستان میں امریکہ کی موجودگی ،دوسری طرف بھارت جیسا کینہ پرور ہمسائیہ ملک۔تیسری طرف ایران اور چین کا پڑوسی ہونے اور ان کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات کے باعث عالمی سامراجی طاقتوں کی نظر میں کھٹکتا ہے،یہ سب عوامل ہیں ایک طرف تو یہ سب عوامل ہیں۔دوسری طرف ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کی نااہلی کے باعث یہ واقعات پیش آتے ہیں۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ مشیر داخلہ پریس کانفرنس میں کہتے ہیں کہ ہمیں تو پہلے ہی اس کی اطلاع تھی اور ہم نے صوبائی حکومت کو مطلع کردیا تھا۔(یہی صورتحال سری لنکن ٹیم پر حملے کے وقت بھی تھی) اب غور کریں کہ جن کا کام ان وارداتوں کی روک تھام کرنا ہے وہ اگر صرف نشاندہی کر کے اور اطلاع دے کر بری الذمہ ہوجائیں تو پھر عوام کے جان و مال کا تحفظ کون کرے گا۔ میں ایک واقعہ سنا کر اپنی بات ختم کروں گا کہ شیر شاہ سوری کے دور میں ایک شخص کا قتل ہوگیا تحقیقات کی گئیں تو اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا جب کہ شواہد بتاتے تھے کہ قاتل قتل کر کے ایک قریبی گاؤں میں داخل ہوا ہے جب یہ معاملہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچا تو ایک دن شیر شاہ سوری اس گاؤں کے ساتھ واقع جنگل میں کلہاڑی سے درخت کاٹنے لگا ( بعض روایات میں ہے کہ خود نہیں بلکہ اپنے ایک امیر کو اس کام کے لیے روانہ کیا ) تو فوراً ہی کوتوال آ ٹپکا ور اس نے شیر شاہ کو گرفتار کرلیا کہ تمہیں پتہ نہیں یہ سرکاری درخت ہیں ان کا کاٹنا جرم ہے۔اب بادشاہ شیر شاہ سوری نے اپنا تعارف کرایا اور اس کوتوال سے یہ تاریخی جملہ کہا کہ “ اس جنگل میں درخت کے کٹنے کی تو تمہیں خبر ہے لیکن اس جگہ ایک زندہ انسان کو کاٹ دیا گیا اور تمہیں خبر نہ ہوئی “ اس کے بعد شیر شاہ سوری نے اس کو کہا کہ مجھے فوراً اس قاتل کی گرفتاری چاہیئے ورنہ اس قتل کی ذمہ داری تم پر عائد ہوتی ہے اور پھر یہ واقعہ بھی ہوا کہ اس کوتوال نے وہ قاتل گرفتار کرلیا وہ اسی گاؤں میں روپوش تھا۔ بالکل اسی طرح ہماری ایجنسیاں بھی چاہیں تو سب کام کرسکتی ہیں لیکن وہ اپنے فرائض اد اکرنے کو تیار نہیں ہیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔میری دعا ہے کہ اللہ ان تمام شہدا کو جو یہاں شہید ہوئے ہیں اور جو کہ اب تک تمام دہشت گردی کی وارداتوں میں شہید ہوئے ہیں ان سب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔اور میری آپ تمام بہن بھائیوں سے یہ بھی گزارش ہے کہ اللہ سے استغفار کریں ہم سب اپنے گناہوں کی معافی مانگیں کہ اسی طرح اللہ کی رحمت نازل ہوگی۔ان شاء اللہ

اور ایک شعر ان تمام شہداء کی نذر یہ منظر بہار ہے یہاں لہو وہاں لہو-یہ منظر بہار ہے یہاں لہو وہاں لہو ۔گرے گا جس بھی خاک پر قیامتیں اٹھائے گا -یہ گرم گرم سرخ سرخ تازہ نوجواں لہو
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1454264 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More