مارچ ہوگا،
مارچ ہوگا،
مارچ ہوگا۔
جنوری14کو لانگ مارچ کر کے اسلام آباد پہنچنے کا حتمی فیصلہ ڈاکٹر طاہر
القادری صاحب نے اپنی پریس کانفریس میں کر ڈالا ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنی
و کارکنوں کی خدانخواستہ جانوں کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچنے کی ذمہ داری
کے لئے اشخاص کو بھی نامزد کر دیا ہے کہ وہ اس تمامترنقصان کے براہ راست
ذمہ دارہونگا۔جبکہ دوسری طرف کوئٹہ میں ہونے والے بم دھماکوں میں لگ بھگ سو
سے زائد افراد اپنی قیمتی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اور اس المناک
واقعے نے کوئٹہ بلکہ بلوچستان بھر میں صورتحال کو ایک بار پھرکشیدہ کر دیا
ہے۔جبکہ دوسری طرف گورنر بلوچستان بھی موجودہ صورتحال کو پوری طرح سے
سنبھالنے میں ناکام نظر آئے ہیں۔86شہدا کی مییتں علمدار روڈ پر رکھ کر انکے
ورثا اس سطور کے لکھنے تک کوئٹہ کی سخت سردی میں کل شام سے سراپا احتجاج
بنے ہوئے ہیں مگر ابھی تک کوئی سیاست دان یا انکا نمائندہ ان کی داد رسی کے
لئے اپنا قیمتی وقت نکال کرنہیں جاپایا ہے؟یہ بھی ابھی تک کوئٹہ کی تاریخ
کا انوکھا واقعہ ہے کہ اس طرح سے احتجاج کر کے عوام اپنے غم وغصے کا اظہار
کر رہی ہے؟ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کو جس طرح سے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا
رہاہے اور کوئٹہ کو جس طرح لہو لہان کیا جا رہاہے اس کی ماضی میں مثال نہیں
ملتی ہے؟ شہدا کے ورثا کا احتجاج ظاہر کر رہا ہے کہ عوام بیدار ہو رہی ہے
اسے ایک مسیحا کا انتظارہے جو آئے اور انکے چہروںپر خوشیاں اور امن وسلامتی
کا بول بالا کرے۔ڈاکٹر طاہر القادری عوام کے لئے کلمہ حق کہنے کی جرات کے
ساتھ اٹھ کھڑے تو ہوئے ہیں اور لانگ مارچ اسلام آباد کی جانب کرنے کا فیصلہ
کر چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بے شمار مسائل میں گھری عوام 23دسمبر کی تاریخ
کو دہراتی ہے اور کوئی انقلاب رونما ہوتا ہے یا پھر لانگ مارچ کی منسوخی کے
ساتھ حکمران جماعت و دیگر ناقدین اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں یا پھر پاکستان
کی سیاست 14جنوری کو کوئی نیا رخ اختیار کرتی ہے جو عوام اور اس ملک کے
حالات بدلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے؟
ایم کیوایم کی جماعت جس نے تیئس دسمبر کو عوام کے حقوق دلوانے کی خاطر جس
مہم کا آغاز جناب طاہرالقادری صاحب کے ساتھ کیا تھا، نے ایک بار پھر اپنی
کہی گئی بات سے پھرنے کی روایت کوسیاسی لحاظ سے مفاد کی خاطر یا یوں کہہ
لیجئے کہ عوام کو بھاری بھرکم نقصان جانی و مالی سے بچانے کی خاطر 14جنوری
کے لانگ مارچ میں شرکت کرنے نہ کرنے سے سے معذرت کرکے برقراررکھاہے ۔محض
چند گھنٹوں قبل تک الطاف حسین بھائی نے مارچ میں شرکت کا عناددیا تھا اور
تیاری کا کارکناں کو کہہ بھی دیا تھا ۔اسی بات نے بہت سے حلقوں میں بے چینی
کی لہر پیدا کر دی ہے کہ اس سے قبل الطاف حسین بھائی نے اپنی تقریر میں
قائداعظم کے حوالے سے کچھ باتیں کر کے بہت سے لوگوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچا
دی ہے جو کہ آسانی سے اب جب الیکشن کا وقت قریب تر آرہا ہے ایم کیو ایم کے
لئے کسی قدرمشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔لیکن الطاف حسین نے اپنی
جماعت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے انکا ووٹ بنک
بہت کم ہی متاثرہو پایا ہے مگر جب عوام نے حکمران جماعت کااتحادی ہوکر کوئی
خاطر خواہ فائدہ نہ پایا ہو اور انقلاب کی راہ ہموار ہو رہی ہو تو کچھ بھی
ہو سکتا ہے۔
جہاں تک کچھ ہو جانے کی بات ہے تو قارئین آپ بخوبی واقف ہیں کہ پچھلے پانچ
سالوں سے ابھی تک کیا کچھ ہو چکا ہے اور کیا ہوسکتا ہے؟امن وامان کی
صورتحال اگر پہلے ہی ٹھیک نہیں ہے تو کون ذمہ دارہے؟ حکومت تو اپنی کوئی
بھی غلطی تسلیم کرنے کو تیاری نہیں ہے بلکہ اُلٹا ڈاکٹر طاہر القادری صاحب
کو بھی مشیرداخلہ رحمن ملک کہہ چکے ہیں کہ انکی جان کو خطرہ ہے؟ بھئی ابھی
تک جب سے موجودہ جمہوری حکومت آئی ہے تو تو عوام بھی تو خطرات کا سامنا کر
رہے ہیں؟آئے روز ملک بھر میں خودکش حملے ہو رہے ہیں تو ابھی تک اسکا کوئی
مضبوط حل کیوںنہیں تلاش کیا جا سکا ہے محض مختلف گروپس پر الزامات لگا دینے
سے مسائل حل نہیں ہو سکتے ہیں؟ یہاں ابھی تک بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا
نہیں دی جا سکی ہے؟ بے گناہ شاہ زیب کا خون تو ابھی تازہ ہے اس کا بھی
مرکزی مجرم فرار ہے؟بلوچستان کے حالات کافی سالوں سے خراب سے خراب تر ہو
رہے ہیں؟آپ عوام کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے لانگ مارج کی اجازت اس وجہ
سے نہیں دے رہے ہو کہ اسطرح سے بڑے پیمانے پر جانوں کا ضیاع ہوگا؟ کوئی
ہمارے ان ناخداﺅں سے پوچھے بھئی ہمارے سکیورٹی ادارے کہاں سوئے ہوئے ہیں؟
ہماری داخلی تحفظ کی ذمہ دار ایجنسیاں کہاں ہیں؟ان دہشت گردوں سے عوام کو
محفوظ رکھنے کی ضامن ہیں؟کیوں ابھی تک ایسے شدت پسندوں کو گرفتار کرکے
قانون کے آہنی شکنجوںمیں جکڑا جا سکا ہے؟جبکہ دوسری طرف طاہر القادری صاحب
نے اپنی 12جنوری کی پریس کانفریس میں اس بات کو بھی بیان کر دیا ہے کہ
یہ(حکمران)دہشت گردی کو روک نہیں رہے یا پھر خود کروا رہے ہیں؟اتنا کچھ ہو
جانے کے بعد بھی اگر انقلاب نہیں آسکتا ہے تو پھر اس ملک اورعوام کا
خداحافظ ہی ہے؟
23دسمبر 2012کو مینار پاکستان ،لاہور میں ہونے والے فقید المثال جلسے میں
عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمند ر نے ایک نئی تاریخ رقم کرکے حکمران جماعت
اور دیگر سیاسی جماعتوں پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ اب مزید خوان
خرابہ،کرپشن،ڈرون حملے ،بے روزگاری، ملک کی خودمختاری وسلامتی،آئین پاکستان
کے برعکس اقدامات کی پُر زور مذمت کرتے ہیں اورسیا ست کا کھیل کھیل کر
ریاست بیچنے والوں کاکٹہرا احتساب چاہتے ہیں۔ نیز گذشتہ 65سالوں میں جو کچھ
اس ملک اور عوام کے ساتھ کیا گیا ہے اس کے ازالے کے اب خواہشمند ہیں اور اس
کے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ اس فرسودہ نظام کو ہی بدل دیا جائے جو کہ اس
ابتر صورتحال کا ذمہ داری ہے۔اور اس کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ ایسی نگران
حکومت آئے جو برسوں سے رائج باری سسٹم کو ختم کر کے ایسانظام متعارف کروائے
،جس سے عوام آئین پاکستان کے مطابق حقوق حاصل کرکے اپنی زندگیوں کو گزار
سکے اور حقیقی معنوں میں عوام کی طاقت سے جمہوری حکومت اقتدار میں آئے جو
پیدا کردہ مسائل کو حل کرے نہ کہ مزید صورتحال کوخراب کرکے ملک کو تباہی و
قتل غارت کی جانب لے جائے؟
بہت سے لوگ جن میں ہر شعبہ ہائے زندگی کے افراد بھی شامل ہیں ابھی تک اس
عوامی لانگ مار چ کے اغراض ومقاصد سے بے خبر ہیں یا پھر جان کر اس کی
مخالفت کر رہے ہیں شایدوہ تمام تر بنیادی سہولیات جو عوام کے پاس نہیں ہیں
سے لطف واندوز ہو رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عوام بھی ایسے ہی عیاشی کر رہی
ہوگی جہاں گیس،سی این جی کی قلت ہو،پٹرول روز بروز مہنگا ہو رہا ہو،ٹیکس
ادا کرنے کے باوجود بھی کوئی بنیادی سہولت میسر نہ ہو تو پھر عوام اپنے
حقوق کی بات کرنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ جب آئین پاکستان کی رو سے عوام
لانگ مارچ کرنے کا حق رکھتی ہے تو پھر کس لئے اسکے عوام سے اسے دور کیا جا
رہا ہے تاکہ من پسند نگران حکومت آئے اورپھر آزمائے ہوئے چہرے عوام پر مسلط
ہو جائیں۔ حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتیں بھی سو چ میں پڑی
ہوئی ہیں۔اور اس بات پر ضرور دے رہی ہیں کہ اس وقت جب الیکشن کا وقت قریب
ہے تو اس لانگ مارچ کی قطعی ضرورت نہیں ہے،جب کہ وسیع پیمانے پر حالیہ
کوئٹہ کے بم دھماکوں کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ کسی قسم کی
تحریبی کاروائی کا امکان ہے مگر یہاں2007کی مانند جب بے نظیر بھٹو صاحبہ کو
بھی جلسے جلوس کرنے سے اسی وجہ سے روکا گیاتھا کہ انکی جان کو خطرہ ہے تو
انہوں نے اپنی عوام کے لئے تمام خطرات کے سامنا کرنے کا سوچ اور پاکستان
آمد سے اپنی شہادت تک عوام کے درمیان گھری رہیں۔یہ ہوتی ہے لیڈرشپ جو اپنی
عوام کو کچھ دینے کےلئے اپنی جان تک قربان کر سکتی ہے؟ سوچنے کی بات تو یہ
ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت کو پانچ سال ہونے کو ہیں کیا ان بم دھماکوں کے
ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچایا گیاہے یا کوئی ایسی حکمت عملی تیارکی گئی
ہے جس سے قیمتی جانوں کا ضیاع روکا جاسکاہو۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ دہشت
گردی ہو نے کی اطلاعات جیسے ابھی رحمن ملک صاحب نے ڈاکٹر طاہر القادری کو
دی کہ ان پر حملہ ہوگا فراہم کی ہے؟مل سکتی ہے تو ایسے عناصر کا قلع قمع
کیوںنہیں کیا جاتا ہے محض موت کے ڈر سے تولیڈر اپنی عوام کے حقوق کے لئے
پیچھے نہیں ہٹ سکتے ہیں۔ ابھی تک کی معلومات کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری
صاحب لانگ مارچ کی کامیابی کے لئے پرعزم ہیں اور عوام کے ایک بار پھر سمندر
کو ساتھ لے کر اناہل حکمرانوں کو آئینہ دکھانے کے درپے ہیں کہ اس ملک اور
عوام کے ساتھ بہت زیادتی کر لی اب بس کرو،اب ایسا نظام لاﺅ جس سے ملک میں
امان و امان اور خوشحالی آسکے ،سب طاہرالقادری کی باتوں سے متفق ہیں مگر
لانگ مارچ کرنے کے حق پر کیوں نہیں ہیں کیوں کہ وہ ڈرتے ہیں کہ ووٹ کی طاقت
کا انقلاب آیا تو انکی دکانداری ختم ہو جائے گی؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان تصویر کا ایک ہی رخ دیکھ رہے ہیں
دوسری طرح نظر کرم کرنے کی ضرورت نہیںمحسوس کر رہے ہیں کہ وہ ابھی تک کیا
کچھ کارنامے سرانجام دے چکے ہیں؟ کیا عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی، پٹرول وسی
این جی ،بجلی کی روز بروز نرخوں میں اضافے کی شرح کو بھول جائے؟ ملک کے بڑ
ے شہروں میں روزانہ ہی قتل عام چاہے وہ خود کش حملوں کی صورت میں ہو یا پھر
فرقہ واریت کا تسلسل ہو جاری ہے اور کھلم کھلا دہشت گردی کرنے والوں کو
کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے جبکہ حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان سب میں
تمام جماعتیں کہیں نہ کہیں کسی طور ملوث ہیں اور سب اپنے مفاد کی خاطر چپ
ہیں کہ یہاں عوام کا کس نے سوچا ہے؟گذشتہ پینسٹھ سالوں سے پاکستانی عوام بے
شمار مسائل کا شکار ہے اور ابھی تک کسی نے بھی انکے حل کی طرف خاطر خواہ
توجہ نہیں دی ہے ۔ اتنے برسوں کے سفر میں ماسوائے ایٹمی قوت کے حصول کے
کوئی بھی قابل ذکر تبدیلی ماسوائے چند شعبوں میں نہ تو ہمارے سیاست دانوں
اور نہ ہی فوجی حکمران لا سکے۔وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ سماجی قدروں میں
بھی بہت حد تک تبدیلی آچکی ہے۔ لوگ محض دال روٹی کے چکر میں پھنس کر ہی رہ
گئے ہیں ۔ اپنے مفاد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو چکے
ہیں؟ ہمارے جمہوریت کے دعوی دار سیاسی کھلاڑیوں کا نامہ اعمال تو قرضے معاف
کرنے والوں اور این آر او سے مستفید ہونے کی فہرستیںدیکھ کر بخوبی لگا یا
جاسکتا ہے کہ ہمارے یہ قوم کی راہنما کس حد تک قوم کی خوشحالی کی بجائے
روپے پیسے کے پچاری بن چکے ہیں دولت کے حصول کی خاطر جعلی ڈگری تک لے سکتے
ہیں؟صرف اپنے ذاتی مفاد اور اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر قوم کو ذلت و
رسوائی کی دلدل میںزندگی گذارنے پر مجبور کرنا انکا متاع نظربن چکا ہے؟ کیا
ابھی بھی عوام سوئی رہے اگر اس بار بھی قوم سوئی رہی اور اپنے حقوق لینے کی
جنگ میںڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا ساتھ نہ دیا تو شاید پھر ایسا مسیحا نہ
آسکے جو انکے دکھوں کا مداوا کر سکے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا جتنا زور
طاہرالقادری صاحب کے لانگ مارچ کے روکنے کے لئے لگایا جارہاہے وہ علمدار
روڈ پر شہدا کے ورثاءکو انصاف کرنے کے لئے لگا دیا جاتاہے تو انقلاب کی راہ
جسے خود سے ہموار کیا جا رہا ہے سے بچا جا سکتا؟؟؟
اب یہ سب کچھ عوام پر منحصر ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں اپنی ووٹ کی طاقت سے
کس کو اقتدار میں لاتے ہیں لیکن یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہم عوام ہیں کہ
ہر وقت ان کو ہی آزماتے رہتے ہیںجو ہمارا خون تک رگوں سے چوس جاتے ہیں۔
کبھی نئے آنے والے اچھے اور مخلص سیاست دانوں کی قدر نہیں کرتے ہیں ؟کیا
ہمارے مقدر میں بدکردار اوربددیانت لوگ ہی رہنمائی کے قابل رہ گئے ہیں؟کیا
ڈاکٹر محمد طاہر القادری اور عمران خان جیسے لوگ جو ابھی پاکستان میں موجود
ہیں جو حق اور سچ پر مبنی بات کرتے ہیں اور ملک وقوم سے وفاداری پر کسی کو
شک وشبہ نہیں ہے ، کو موقع دے کر اقتدار میں لانا ملک سے غداری ہے اگر نہیں
تو پھر بات صرف انکو ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں لائیں اور ملک کے ساتھ
وفاداری کا ثبوت دیں تاکہ خاندانی سیاست کا اثرو رسوخ کا خاتمہ ہو سکے
اورہمیں مخلص قائد مل سکیںاور ملک بھی استحکام و خوشحالی کی راہ پر گامز ن
ہو سکے اورہمیںقائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنانے
کا موقعہ مل سکے۔ہمیں اب اس بات کا خود فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں کس انداز
حکمرانی کرنے والے لوگوں کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف ہماری آنے والی نسلیں
بلکہ ہمارے ملک کو بھی خوشحالی اور استحکام مل سکے۔ ہمیں مل کر اپنی اور
اپنے ملک کی تقدیر بدلنی ہوگی اور اسکے لئے نظام بدلنے کی ضرورت ہوگی اور
اگر نظام بدلنا ہے تو پھر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا ساتھ پاکستان کو
بچانے کے لئے دینا ہوگا، جنوری 14کو اسلام آباد کی جانب پرامن مارچ کرنا
ہوگا تاکہ ہمارے مفاد پرست سیاستدانوں کو خبر ہو سکے کہ عوام اب انقلاب کے
لئے تیار ہے،ایسے لیڈر کی متلاشی ہے جو ملک کو بچا سکے اور یا نظام کو بدل
سکے، بات صرف تعاون اور فیصلہ کرنے کی ہے ؟ سوچئے اور فیصلہ کیجئے ایسا نہ
ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اورہم ہاتھ ملتے رہ جائیں؟؟ |