قومی، سیاسی اور سماجی زندگی کا
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی فرقہ وارانہ فساد یا اس سے منسلکہ
کوئی اور بڑا واقعہ ملک کے طول و عرض میں وقوع پذیر ہوتا ہے تو ہماری سیاسی
پارٹیاں اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ اس کی بنا پر ملک و قوم کو کتنا جانی
و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہوگایا پھر اس کے دورس نتائج قومی اعتبار سے ہمارے
لئے کیا ہو سکتے ہیں وہ فوری طور پر سنگین سے سنگین فساد و مسئلے کے سلسلہ
میں بھی اپنی سیاسی روٹیاں ہی سینکتے نظر آتے ہیں۔ ووٹ بینک ، سیاست اور اس
سے منسلک ذاتی اور سیاسی مفاد حاصل کرنے کا شرمناک کھیل شروع ہو جاتا ہے۔
آج ہم اسی نتیجے کے بھیانک تعبیر دیکھنے پر مجبور ہیں، گزشتہ ساٹھ برس سے
زئاد عرصہ کے دوران ملک بھر میں ایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ بند طریقے
پر کئے جانے والے کئی ہزار فرقہ وارانہ فسادات ہو چکے ہیں۔ جو اب بھی ہمارے
اور ہمارے ملک کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں، چیلنج اس لئے کہ ابھی
تک ان فسادات پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ کیونکہ یہ تمام سلسلے اب بھی
پورے تسلسل کے ساتھ وقتاً فوقتاً جاری ہیں۔
میں اس بارے میں پُر امید ہوں کہ وہ دن ضرور آئے گا کہ جب ملک کے طول و عرض
کے بارونق علاقوں میں خوشیاں لوٹ آئیں گی ، احساسِ محرومی اور غم و غصے کا
خاتمہ ہوگا، دہشت گردی اور فرقہ وارانہ فسادات نیست و نابود ہو جائیں گے۔
تمام فرقوں کو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ قتل و غارت گری سے امن نہیں
قائم ہونے ولا ہے اس لئے امن کی طرف سفر ضرور شروع ہوگا۔ لاقانونیت کا
بازار ضرور تھم جائے گا۔ ملک سے محبت کرنے کا رواج جو جو ملک کے کچھ حصے
میں قدرے مدھم ہو رہا ہے دوبارہ اپنے پورے آب و تاب سے چمکے گا۔ آج کی نسل
تو ویسے ہی آزادی کو پسند کرتے ہیں تو وہ اپنے ملک کی آزادی کو کیسے چھوڑ
سکتے ہیں۔
نام پرمذہب کے بو دیتے ہیں جو نفرت کے بیج
ایسے لوگوں پر شکنجہ آیئے ہم سب کَسیں
2013ءکے انتخابات کی تیاریاں ہر سیاسی پارٹی پوری شدت سے کر رہی ہے، ان کے
اس قدم سے صاد لگتا ہے کہ وہ پورے ملک میں اپنا منشور پھیلا کر بڑے لیڈر
بننے کی تگ و دُو میں مصروفِ پیکار ہیں۔ لیکن ان سب کو یہ سمجھ لینا چاہیئے
کہ ملک اس وقت گونہ گُو ں مسائل سے دو چار ہے۔ اور جو بھی پارٹی
برسرِاقتدار آئے گی اسے بہت کٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ عوام اب
جاگ چکی ہے اور وہ اپنے حقوق لینا بھی سمجھ چکی ہے اس لئے صرف زبانی دعوﺅں
کے بجائے سنجیدہ ہوکر اُن سب کو ان مسائل کا حل بھی تلاش کرکے اقتدار میں
آنے کا سوچنا ہوگا۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ امن و امان اور روزگار کا
ہے۔ تیسرے نمبر پر بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی سَر اٹھائے کھڑی ہے۔ آنے
والی جو بھی حکومت ہو کچھ نہیں تو کم از کم ان تینوں معاملوں پر اسے فوری
ایکشن لینا ہوگا تاکہ عوام کی تائید انہیں حاصل ہو جائے۔ ویسے بھی آج کل
پاکستان میں تاریخ رقم کرنے کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ پہلے کوئٹہ کے ہزارہ
وال لوگوں نے میتوں سمیت دھرنا دیا اور حکومت گرانے میں کامیاب ہو گئے، اور
اپنے مطالبے کے تحت گورنر راج کا نفاذ کروایا۔ اس وقت جب یہ مضمون لکھا جا
رہا ہے تو ایک اور تاریخ رقم ہونے کے قریب ہے ، وہ منہاج القرآن کا لانگ
مارچ ہے جو اس وقت” مندرہ“کے مقام تک پہنچ چکا ہے اور قریب ہے کہ وہ اسلام
آباد میں دھرنے سے تاریخ بدلنے کی ایک اور روایت ڈال دیں کیونکہ ان کے مارچ
میں لوگوں کا ایک اژدھام اُمڈ آیا ہے۔ ابھی تو یہ لوگ بسوں اور مختلف
گاڑیوں میں ہیں لیکن جب یہ تمام احباب گاڑیوں سے اُتر کر میدان میں دھرنا
دیں گے تو لوگ غالباً حیران و پریشان ہو جائیں کہ اتنے لوگ کیسے جمع ہوگئے۔
میڈیا کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ صورتحال دیکھ کر اور سن کر یہ اندازہ ہو رہا
ہے کہ لوگ واقعی بہت زیادہ تعداد میں ہونگے۔
آزادی کے بعد سے اور قائد اعظم محمد علی جناح ؒ جیسی شخصیت کو کھونے کے بعد
آج تک ہماری سیاست اور عوام ایک معتبر قیادت کو تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں،
کبھی وہ قائد اپنوں میں ڈھونڈتا ہے تو کبھی امپورٹیڈلیکن تاحال ہمارے
باسیوں کو اپنا قائد نہیں مل سکا ہے۔ لیکن کیا بات ہے کہ ہماری تلاش اب بھی
جاری ہے۔ جبکہ ہماری قوم میں ہمیشہ ایسے لوگ وارد رہے ہیں جو زندگی کے دیگر
شعبوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ لیکن پتہ نہیں کیا وجہ ہے کہ سیاست میں
ہمیں صرف ایک قائد نہ ملکی سطح پر حاصل ہے اور نہ صوبائی سطح پر، کہیں یہ
اجتماعی طور پر سیاسی شعور کی کمی تو نہیں ہے۔بہرحال قوم کے باسیوں میں
مخلص، معتبر قائد کی تلاش و جستجو اب بھی جاری ہے دیکھئے کہ اس قوم کی نیّا
کون پار لگاتا ہے۔ ایسا قائد جو صرف پاکستان اور پاکستان کے عوام کی بہتری
کے لئے کوشاں ہو نہ کہ سیاسی چپقلش میں الجھ کر عوام کو دھوکہ دہی میں
مصروفِ عمل رہے۔ہماری عوام کے پاس سیاسی طور پر کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں
بچا ہے۔ اگر کچھ بچا ہے تو صرف پانے کی جستجولیکن اس کے لئے بہت ذہانت سے
کام لینا ہوگا۔ جمہوریت میں حصولِ اقتدار کی مقصدیت کے بغیر سیاست شعبدہ
بازی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔اگر عوام کو پاکستان میں کچھ حاصل کرنا ہے تو
ان کو اپنی راہ خود ووٹ کے ذریعے نکالنی ہوگی۔ آج وہی فرد یا قوم ترقی کی
رفتار میں شامل ہے جو اپنا راستہ خود بناتی ہے۔ اس لئے ہم کو جمہوریت میں
جمہوری طریقے کو اپنا کر اپنا حصہ لینا ہے۔ لیکن حقیقی اور عملی سیاست گری
کے میدان میں اترنے سے پہلے اپنے عوام کو انتشار و متضاد خیالات و نظریات
کے جالوں کو صاف کرنا ضروری ہوگا۔
نمود و نام کی امید جو افراد کرتے ہیں
وہ اہلِ خیر اپنے مال و زر برباد کرتے ہیں
نزول رحمتِ باری یقینا ان پہ ہوتا ہے
ضرورت مند کی جو بے غرض امداد کرتے ہیں
ہمارے یہاں قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ ملکی آفات بھی بے تحاشہ ہیں جس سے عوام
روزآنہ ہی نبرد آزما ہوتے رہتے ہیں جن میں سرِ فہرست قتل و غارت گری، ٹارگٹ
کلنگ، دہشت گردی، بجلی ، گیس کی لوڈ شیڈنگ، ڈبل سواری پر پابندی، موبائل کی
سروس ، مہنگائی، بے روزگاری، اور نہ جانے کیا کیا؟ مطلب یہ کہ زندگی اور
موت کے درمیان جھولتی ہوئی عوام نے اب سَر اٹھانا شروع کیا ہے، بنگلہ دیش
جیسا ملک ہمیں ترقی کی دوڑ میں پیچھے چھوڑ گیا ہے اور ہم ترقی تو کُجا پستی
کی طرف ہی گامزن ہیں۔ جبکہ ہم نیوکلیائی طاقت ہیں مگر انسانی ترقی و
خوشحالی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ نئی آنے والی حکومت کو ان تمام
مسائل کو سمجھنے اور اسے خوش اسلوبی سے حل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگانا
ہوگا کیونکہ اگر وقت زیادہ لگ گیا تو یہ عوام اب بپھر جانے کے دَر پہ ہے۔
اس لئے جو بھی اقتدار میں آئے اس کے پاس یہ بہانہ بالکل نہیں ہونا چاہیئے
کہ یہ تمام مسائل ہمیں پچھلی حکومت سے تحفے میں ملی ہیں بلکہ ان مسئلوں
کیلئے ٹھوس اور مربوط پالیسی مرتب کرنا ہوگا تاکہ ہمارے عوام خوشحال ہو
سکیں۔ |