ہندوستان کی شناخت پوری دنیا
میں کثیر جمہوری ملک، رنگارنگ تہذیب و ثقافت،کثیر مذہب و ملت، بہت سارے
فرقے، مختلف زبانیں، مختلف نسل، مختلف عادات و اطوار، رہن سہن اور
کثیرالجہات و کثیر النظریات کے حامل ملک کے طور پر ہے۔ جب لوگ یہاںآتے ہیں
اور انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اتنے سارے اس طرح کے لوگ رہتے ہیں تو
انہیں تعجب ہوتا ہے اور وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہاں ایسے
مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہیں جن کے یہاں کسی جاندار کو مارنا گناہ عظیم ہے۔
اس مذہب کی بنیاد بھی یہی پڑی جس میں امن و شانتی کو خاص اہمیت حاصل ہے
لیکن ان مذاہب کے بیشتر ماننے والوں کا رویہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ جاندار
کا قتل تو اس کے یہاں گناہ عظیم ہے لیکن مسلمانوں کا قتل یہ لوگ بہت شوق سے
کرتے ہیں۔ امتیاز ، تعصب ، عدم مساوات بری چیز ہے لیکن یہ ہندوستانی سماج
اور ہندوستانی حکومت خاصہ ہے۔ اگر یہاں میڈیا، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ
مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے توان کے پیٹ میں درد ہونے لگتاہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی آزادی کے بعد سے یہ شکایت رہی ہے جو شکایت نہیں بلکہ
روز روشن اور چمکتے سورج کی مانند حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہر شعبے
میں امتیاز برتا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ کوئی بھی ناروا سلوک کرلے،
مسلمانوں کے وقار سے کھیلے، ان کی عزت و آبرو کو سر ے بازار نیلام کرے،
انہیں قتل کرے، ان کے مال و متاع پر قبضہ کرلے، سرکاری ایجنسی ان کے وقف
املاک پر پولیس کی حفاظت میں ہتھیالے ، تحفظ گاؤ کے نام پران کا جینا دو
بھر دے اور زہریلی تقاریر اور نفرت پھیلانے والے نصاب تعلیم کے ذریعہ
مسلمانوں کے خلاف ہندؤں میں زہر بھر دے لیکن آج تک کسی کے خلاف کوئی قانونی
کارروائی نہیں کی گئی ۔ ششو مندر ، سیوابھارت اور اس سیریز کے دوسرے
اسکولوں میں مسلمانوں سے نفرت کرنے اور انہیں قتل کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے
لیکن پولیس، میڈیا، انتظامیہ مقننہ، عدلیہ کو کبھی کوئی قابل اعتراض چیز
نظر آئی۔ سنگھ پریوار آرایس ایس کیمپ لگاکر کھلم کھلا اسلحہ چلانے کی تربیت
دیتے ہیں، ہندو لڑکیوں (درگاہ واہنی )کو مسلمانوں کو قتل کرنے کے نام پر
اسلحہ چلانے کی تربیت دی جاتی ہے جن کی تصاویر بھی اخبارات میں شائع ہوتی
ہیں لیکن پولیس اور دیگر ایجنسی کو کبھی بھی کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں
آتی۔ سنگھ پریوار کے گرگے پولیس کے سامنے دہشت گردانہ کارروائی انجام دیتے
ہیں لیکن ہندوستان کے قانون میں وہ قوت نہیں کہ اس کا بال بھی باکا کرسکے۔
مسلمانوں پر مظالم اور ان کے خلاف کی گئی زہریلی تقریر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ
اور یوٹیوب پر موجود ہے لیکن کسی کی نظر نہیں پڑتی اور نہ ہی کسی کے خلاف
کوئی کارروائی کی گئی ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر بعض سنگھ پریوار سے
وابستہ ا فراد ڈنکے کی چوٹ پر کھلم کھلا مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری
قرار دینے اور ہر ظلم کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کوئی دیکھنے
والا نہیں ہے۔ اکبر الدین اویسی کے معاملے میں سنگھ پریوار کا خوف میڈیا
اور مباحثہ میں شرکت کرنے والوں پر اس قدر طاری تھا کہ میڈیا کے ہر چینل پر
اکبرالدین اویسی کی زہریلی تقریر پر بحث و مباحثہ اور ڈسکس کا طویل دور
چلتا رہا لیکن بحث میں حصہ لینے والوں میں سے کسی نے بھی پروین توگڑیا اور
دوسروں کی زہریلی تقریر کا ذکر تک نہیں کیا۔ چینلوں پر مباحثہ میں حصہ لینے
والے جس میں مشہور شاعر جاوید اختر بھی شامل تھے اس بات سے بہت خوش تھے
اکبر الدین اویسی پر کارروائی تو ہوئی۔ اکبر الدین اویسی کی تقریر
یقیناًدلآزار ہے ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے کسی کو بھی کسی کی دلآزاری حق
حاصل نہیں ہے۔ اکبر الدین اویسی کو اس سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ ہم سبھی
جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ تقریر پروین توگڑیا کی زہریلی اسلام اور مسلمان
دشمن تقریر کے جواب میں کی تھی اس لئے اگر اکبر الدین اویسی کو گرفتار کیا
گیا ہے تو اس سے پہلے پروین توگڑیا اور ان جیسے نفرت انگیز تقریر کرنے
والوں کو گرفتارکیا جانا چاہئے۔
یہ تقریر مجلس اتحادالمسلمین کے ممبر اسمبلی اکبر الدین اویسی نے گزشتہ ماہ
آندھرا پردیش کے نرمل میں کی تھی ۔ میں نے ان کی تقریر سنی ہے اور میں نے
اس تقریر کو ریکارڈ بھی کیا ہے۔ اسے کسی بھی صورت میں بھی سراہا نہیں
جاسکتا۔ مجلس اتحاد المسلمین کی بنیاد حیدرآباد کے آخری نظام میر عثمان علی
خاں کے اشارے پر ریاست حیدرآباد اور مسلمانوں کے تحفظ کے لئے رکھی گئی تھی۔
1938 میں اس کے صدر بہادر یار جنگ منتخب ہوئے تھے اور انہوں نے مسلم لیگ کی
حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ تنظیم تقریبا 80 سال پرانی ہے۔ جب ملک
آزاد ہوا تو یہ تنظیم حیدرآباد کو ہندوستان کا حصہ بنانے کے حق میں نہیں
تھی اس نے علاحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ سقوط حیدرآباد کے بعد
ہندوستانی حکومت نے اس تنظیم پر پابندی عائد کردی تھی جو 1957تک جاری رہی
تھی۔ اس کے سربراہ قاسم رضوی نے پاکستان ہجرت کی تو اس تنظیم کا باگ ڈور
اوویسی خاندان کے ہاتھ میں آگیا۔ اکبر الدین اویسی کے دادا مولانا
عبدالوحید اویسی بھی کئی بار گرفتار کئے جاچکے تھے۔ مجلس اتحادالمسلمین نے
اپنی پہلی انتخابی فتح 1960 میں حاصل کی تھی جب عبدالوحید اویسی کے بیٹے
سلطان صلاح الدین اویسی حیدرآباد میونسپلٹی کے لئے منتخب ہوئے۔ پھردو سال
بعد وہ اسمبلی کے رکن کے طور پر منتخب ہوئے اور اس کے بعد وہ مسلسل اسمبلی
کے ممبرمنتخب ہوتے رہے اور 1984 سے2004 تک حیدرآباد پارلیمانی حلقہ کی
نمائندگی کرتے رہے اور کبھی شکست نہیں کھائی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے
بیٹے بیرسٹر اسدالدین اویسی پارلیمنٹ میں حیدرآباد کی نمائندگی کرررہے ہیں
۔ان کی دہلی کی رہائش گاہ پر بجرنگ دل کے کارکنوں نے میڈیا کے سامنے توڑ
پھوڑ کی اور گھر کے سامان کو نقصان پہنچایا جس پر ہندوستانی قانون ابھی بھی
خاموش ہے۔ مجلس 1994 سے کانگریس کی حمایت کرتی آ رہی تھی لیکن چار منار کے
پاس غیر قانونی بھاگیہ لکشمی مندر کے سوال پر دونوں میں دوری پیدا ہوگئی۔
اس کے علاوہ اس تنطیم کی کوشش حیدرآباد سے نکل کر پورے آندھرا پردیش میں
اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا بھی ہے۔ اسی لئے اس تنظیم نے کانگریس وائی ایس
آر کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے تعلقات جگن موہن ریڈی کے ساتھ
گہرے ہیں۔ اس کافائدہ آئندہ آنے والے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں
اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس کی خواہش آنے والے اسمبلی انتخابات میں کم سے کم 80
سیٹوں پر انتخاب لڑنے کا ہے۔ ریاست میں 70 سیٹیں ایسی ہیں، جہاں پر مسلمان
15 فیصد سے زائد ہیں، جبکہ لوک سبھا کی 42 میں سے 7 نشستوں میں مسلمان 15
فیصد سے زیادہ ہیں، اس لئے اگر انہیں جگن موہن ریڈی کی حمایت مل جاتی ہے تو
وہ ریاست میں ایک مضبوط پارٹی کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔اس سے نہ صرف مجلس
اتحاد المسلمین کا فائدہ ہوگا بلکہ کانگریس وائی ایس آر کو زبردست فائدہ
پہنچے گاکیوں کہ کانگریس کی دوہری پالیسی سے پورے ہندوستان کے مسلمان
زبردست نالاں ہیں۔ مجلس اتحاد المسلمین صرف ریاست حیدآباد ہی نہیں بلکہ
پورے ملک کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرتی رہی ہے اور اس کے رہنماؤں
نے آسام فسادات میں کافی اچھا کام بھی کیا ہے۔ سماجی خدمات بھی کافی وسیع
ہیں ۔ ان میں ایک میڈیکل، انجینئرنگ کالج، کئی دوسرے کالج اور۲ ہسپتال بھی
شامل ہیں۔
اکبر الدین اویسی کو ۸ جنوری کو نفرت انگیز تقریر کے الزام میں گرفتار کیا
گیا ہے۔ نفرت انگیز تقریر کیا ہے اور کون سی چیزیں نفرت انگیز تقاریر،
تفرقہ پھیلانے والے کلمات کے زمرے میں آتی ہیں۔ وکی پیڈیا کے مطابق وہ ایسی
باتیں یا کلام کو کہتے ہیں جو کسی شخص یا گروہ کو نسل، رنگ، مذکر مونث،
معذوری، جنسی سمت، قومیت، مذہب، یا کسی خواص کی بنا پر بدنام کرے۔قابل
دراندازیِ قانونی تناظر میں نفرت انگیز باتیں' ایسے ابلاغ، عمل یا مظاہر کو
کہتے ہیں جو اس بنا پر غیر قانونی ہو کہ اس سے کسی فرد یا گروہ کے خلاف
زیادتی پر اکسانے کا خدشہ ہو، یا یہ کسی کی تذلیل کرتا ہو یا انہیں دھمکاتا
ڈراتا ہو۔ان الفاظ پر غور کریں تو ہندوستانی سیاسی پارٹیوں کا کوئی لیڈر
نہیں بچے گا جو ان زمروں میں نہ آتاہو۔ خصوصاً بھارتیہ جنتا پارٹی، شیو
سینا، بجرنگ دل، مہاراشٹر نونرمان پارٹی اور دیگر پارٹیاں رات دن مسلمانوں
کے خلاف زہر اگلتی رہتی ہیں اور مسلمانوں کے نہ صرف مذہبی جذبات سے کھلواڑ
کرتی ہیں بلکہ مسلمانوں سے تمام حقوق چھین لینے کی بھی باتیں کرتی ہیں۔
نفرت انگیز تقریر کرنے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے صف اول کے رہنما ایل کے
اڈوانی نام بھی سرفہرست ہے۔ انہوں نے مختلف یاتراؤں میں مسلمانوں کے خلاف
جم کر زہر اگلتے رہے اور رام جنم بھومی کی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں
بابری مسجد شہید ہوئی ۔ اس موقع پر کارسیوکوں کو بابری مسجد شہید کرنے کے
لئے اکساتے رہے۔ مئی 2009میں بابری مسجد شہادت کے دن ایل کے اڈوانی کی
حفاظت پر مامور آئی پی ایس افسر انجو گپتا نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔
مرکزی کزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت میں سماعت کے دوران اس
معاملے کی کلیدی گواہ انجو گپتا نے کہا تھا کہ مسٹر اڈوانی کی تقریر اشتعال
انگیز اور جوشیلی تھی اڈوانی بابری مسجد کی شہادت کے وقت نہایت خوش تھے
وکارسیوکوں کو ورغلارہے تھے بار بار ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ
مندر یہیں بنے گا۔سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے جج گلاب سنگھ کی عدالت میں
بیان درج کرانے والی آئی پی ایس آفیسر نویں گواہ ہیں۔ وہ واحد آفیسر ہیں
جنہوں نے اپنا بیان ریکارڈ درج کرانے پر اتفاق کیا تھا جبکہ زیادہ تر
آفیسروں نے سیاسی تنازعہ میں ملوث ہونے سے انکار کردیا تھا۔محترمہ گپتا کا
بیان 1993 میں مسٹر اڈوانی مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، ونے کٹیار، اشوک
سنگھل، گری راج کشور، وشنو ہری ڈالمیا اور سادھوی رتمبھرا کے خلاف فوجداری
مقدمہ درج کرنے کے لئے اہم بنیاد بنا تھا۔ابتدا میں ان آٹھوں افراد کے خلاف
تعزیرات ہند کی دفعہ 120 بی، 147، 149، 153 اے، 153 بی اور 505 کے تحت
الزامات عائد کئے گئے تھے۔ یہ دفعات عام طور پر اشتعال انگیز تقاریر کرنے
اور اکسانے کے معاملہ میں لگائے جاتے ہیں۔ جولائی 2005 میں مسٹر اڈوانی کو
تمام الزامات سے بری کردیا گیا تھا لیکن الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ
نے بدامنی پھیلانے کے علاوہ فرقوں کے درمیان دشمنی کا جذبہ پیدا کرنے کے
ارادے عوام کو دنگا فساد کرنے، لوٹ پاٹ کے لئے اکسانے کا چارج دوبارہ بحال
کردیا تھا لیکن ان کے لوگوں کے خلاف پولیس نے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں
کی ہے۔ 17برس کے مقدمہ میں ابھی تک(2009) صرف چھ گواہ ہی پیش ہوئے تھے ،
مقدمہ کا فیصلہ عمر نوح لے کر آنے والے ہی لوگ سن اور دیکھ سکیں گے۔ مقدمہ
کافیصلہ آتے آتے بابری مسجد کے اصل قاتل اڈوانی اگر حیات ہوں گے تو عمر کی
کس منزل میں ہوں گے کچھ نہیں کہا جاسکتاہے۔
فروری ماہ کے آخری ہفتے میں (2003) ہی سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ایک
نوٹس جاری کیا تھا تاکہ’’ اشتعال انگیز بیان ‘‘دینے کے لئے نریندر مودی،
اشوک سنگھل جیسوں پر سخت کارروائی کی جا سکے۔اس نے گجرات پر اپنے آخری حکم
(31 مئی 2002) کے تحت توگڑیا، مودی، سنگھل اینڈ کمپنی کے مختلف نفرت انگیز
بیانات پر غور کرتے ہوئے جنہوں نے گودھرا کے افسوسناک واقعہ کے بعد ماحول
کو زہر آلود بنانے میں کردار ادا کیاتھا، کے سلسلے میں ہدایت دی تھی ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیم نے بھی اشوک سنگھل کے ذریعہ
دیئے جا رہے نفرت پھیلانے والے بیانات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے یہ بھی
خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے بیان آتے رہے تو’’نئے سرے سے تشدد بھڑک سکتا
ہے اور پھر پہلے سے زیادہ پریشانی میں رہ رہے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت
کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے‘‘۔ (16 ستمبر 2002)سبرامنیم سوامی نے 16
جولائی2011 کو ایک انگریزی روزنامہ (DNA) کے لئے ایک مضمون لکھا تھا ۔انہوں
نے اپنے مضمون میں اسلامی دہشت گردی کو ملک کی اندرونی سلامتی کے لئے سب سے
بڑا چیلنج قرار دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو ووٹنگ کا حق نہ دئے جانے کا
مطالبہ کرتے ہوئے انہیں ملک مخالف قرار دیا تھا۔سوامی نے تجویز پیش کی تھی
کہ ہندوستان کے ہندو قوم کو اعلان کر دینا چاہیے اور یہاں غیر ہندوؤں سے
ووٹ دینے کا حق چھین لینا چاہئے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مسلمانوں یا ان جیسے
غیر ہندو کمیونٹی کے لوگوں کو ووٹ دینے کا حق تبھی ملنا چاہیے جب وہ فخر سے
یہ بات تسلیم کریں کہ ان کے آباء و اجداد ہندو تھے۔ سوامی نے اپنے مضمون
میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ سخت گیر مسلمان ہندو اکثریت والے ہندوستان پر
فتح کو اپنا ایسا ایجنڈا سمجھتے ہیں ، جسے پورا کیا جانا ابھی باقی ہے۔میں
مسلم کٹر پسندوں کو ہندوؤں کو نشانہ بنائے جانے کے لیے قصور وار نہیں مانتا
بلکہ ہندوؤں کو قصوروار مانتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ایسا شخص جو خود کو
ون مین آرمی کے طور پر پیش کرتا ہے ، بے حد فرقہ وارانہ باتیں کرتا ہے اور
اسے اخبار میں شائع کیا جاتا ہے۔سوامی نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا تھا ،
ہمیں مجموعی نقطہ نظر کی ضرورت ہے کیونکہ ہندوؤں کو اسلامی دہشت گردی کے
خلاف کھڑا ہونا ہے۔اگر کوئی مسلم اپنی ہندو وراثت کو قبول کرتا ہے تو ہم
ہندو اسے وسیع ہندو سماج کے حصے کے طور پر قبول کر سکتے ہیں ۔دوسرے لوگ جو
اسے قبول کرنے سے انکار کرتے ہیںیا جو غیر ملکی رجسٹریشن کے ذریعے
ہندوستانی شہری بنے ہیں ، وہ ہندوستان میں تو رہ سکتے ہیں لیکن انہیں رائے
دہندگی کا حق نہیں دیا جانا چاہئے۔ انہوں نے اپنے مضمون میں ہندوؤں کو متحد
ہونے پر زور دیتے ہوئے یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ہندو ؤں کو حلال کیا جانا قبول
نہیں کر سکتے‘‘۔ اس کے علاوہ ورون گاندھی میں 2009 کی وہ تقریر ہے جو انہوں
نے اپنے انتخابات کے دوران پیلی بھیت کے عام جلسہ کی تھی۔ جس میں ورن
گاندھی نے کہا تھا: 'یہ پنجہ نہیں ہے، یہ کمل کا ہاتھ ہے. یہ کٹ ۔۔۔ کے گلے
کو کاٹ دے گا انتخابات کے بعد. جے شری رام! رام جی کی جے! ورن گاندھی کاٹ
ڈالے گا! کاٹ دیں گے اس ہاتھ کو، کاٹ دیں گے، کاٹ ڈالے گا! ... 'اگر کسی
نے، کسی غلط قسم کے آدمی نے، کسی ہندو پر ہاتھ اٹھایا ... تو میں گیتا کی
قسم کھاکے کہتا ہوں کہ میں اس ہاتھ کو کاٹ ڈالوں گا ...اس کے علاوہ بی جے
پی اور سنگھ پریوار کے وابستہ کئی درجن رہنما اور لیڈر ہیں جو مسلسل
مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن قانون اس کا کچھ بھی
نہیں بگاڑنہیں پایا ہے۔
اس ضمن میں وزارت داخلہ کی طرف سے سال 1997 میں’’مذہبی خیرسگالی ‘‘بڑھانے
کے لئے جاری ہدایات 'پر غور کریں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ فرقہ وارانہ
کشیدگی کے معاملے میں وہ ریاستی مشینری کی ذمہ داری کو طے کرتا ہے۔ ہدایات
نمبر 15 میں کہا گیا ہے کہ’’ ایسے واقعات کو دوبارہ اور فوراً روکنے کے لئے
ضلع انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مناسب قدم اٹھائے۔ اس سلسلے میں اگرہندوستانی
حکومت کی طرف سے سال 1979 میں منظور شدہ شہری اور سیاسی بنیادوں پر بین
الاقوامی معاہدے کو دیکھیں تو وہاں بھی حکومت نے اس بات کے لئے اپنے اعہد
کا اعادہ کیا ہے۔ کہ وہ'' تعصب، باہمی امتیاز یا تشدد کو فروغ دینے والی
اندھی قوم پرستی ، نسلی اور مذہبی منافرت پھیلانے والے اقدامات پر قانون کے
تحت پابندی عائد کریں گے ۔جن دفعات کے تحت اکبرالدین اویسی پر مقدمات قائم
کئے گئے ہیں تقریباً انہی دفعات کے تحت پروین توگڑیا، اشوک سنگھل، ونے
کٹیار، ورون گاندھی، اوما بھارتی، سادھوی رتھمبرا اور درجنوں دیگر ہندو
رہنماؤں پر ایف آئی آر درج ہیں لیکن پولیس نے ان پر مقدمات قائم کرنا ،
عدالت میں پیش کرنا تو دور کی بات، ان لوگوں سے پوچھ گچھ تک نہیں کی ہے۔اگر
اکبر الدین اویسی کو گرفتار کرنا تھا تو اس سے پہلے آندھرا کی پولیس کو
پروین توگڑیا کو گرفتار کرنا چاہئے تھا۔ یوپی پولیس کو ورون گاندھی کو جیل
میں ڈالنا چاہئے تھا۔ یہ کون سا پیمانہ ہے اگر کوئی مسلمان نفرت انگیز بات
کرے تو اسے فوراً جیل بھیج دیا جائے اور اگر کوئی ہندو کرے تو اسے ہیرو
بناکر پیش کیا جائے۔ ہندوستانی حکومت کو اس نظریہ اور رویہ کو قانونی شکل
دے دینا چاہئے تاکہ مسلمانوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس کے حقوق کیا ہیں اور
وہ حد میں رہنا سیکھ جائیں۔کاغذی طور پر دکھانے سے کیا فائدہ ۔ حقیقت تو
وہی ہوتا ہے جو عملاً کیا جاتاہے جیسا کہ مہاراشٹر میں دھولے میں ہوا جہاں
یکطرفہ فائرنگ میں چھ مسلم نوجوانوں کو پولیس نے بھون ڈالا۔دنگے میں پولیس
کی فائرنگ میں آخر مسلمان ہی کیوں مرتے ہیں کیا پولیس کی طرح ’گولی‘ بھی
ہندو ہوتی ہے اور ہندوؤں سے ڈرتی ہے؟۔کیا حکومت کا یہ مسلمانوں کو عملاً
دوسرے درجے کا شہری قرار دینا نہیں ہے۔ |