ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ
ڈاکٹر عاصم حسین ڈاکٹر ہیں اِس لیے اُنہیں کیا معلوم سیاست کیا ہوتی ہے۔
بیشتر اہل وطن کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ بہت سے باصلاحیت لوگ مختلف شعبوں
میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اب اگر کوئی کسی وجہ سے کسی بھی شعبے میں پھنسا ہوا ہے
تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ اُسے وہیں رہنے دیا جائے۔ بھلا ہو صدر آصف علی
زرداری کا جنہیں اللہ نے ”جوہر شناس“ آنکھوں سے نوازا ہے۔ وہ جب کسی میں
سیاست کے جراثیم دیکھ لیتے ہیں تو کسی نہ کسی طور اُسے سیاست کے مرکزی
دھارے میں لے آتے ہیں تاکہ اچھی طرح بہے اور پنپنے میں کوئی کسر باقی نہ
رہے! ڈاکٹر عاصم کے معاملے میں بھی یہی ہوا۔ وہ ڈاکٹرز کے درمیان زندگی بسر
کر رہے تھے۔ صدر زرداری کی مہربانی سے اب تیل دیکھتے اور اُس کی دھار
دکھاتے ہیں!
ڈاکٹر عاصم چونکہ ڈاکٹر ہیں اِس لیے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کِسی بھی چیز کی
اصلیت کو جاننے کے لیے چیر پھاڑ لازم ہوا کرتی ہے۔ میڈیا سے وہ ”آف بیٹ“
قسم کی بات کم ہی کرتے ہیں۔ ہمارا اندازہ یہ تھا کہ مُردوں کی چیڑ پھاڑ
کرتے کرتے اُن میں سوچنے کی صلاحیت کمزور پڑگئی ہے اور حس مزاح تو شاید
بالکل نہیں رہی مگر ہمارا یہ اندازہ کس قدر غلط تھا! ڈاکٹر عاصم نے ریٹائرڈ
سرکاری افسران کے بارے میں ایک پتے کی بات بتاکر ہمارے سارے اندازوں کو
”ریٹائرڈ ہرٹ“ ہونے پر مجبور کردیا!
روزنامہ دُنیا کے راشد قرار سے خصوصی گفتگو میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں۔
”آئل اینڈ گیس ریگیولیٹری اتھارتی (اوگرا)، نیشنل الیکٹرک پاور ریگیولیٹری
اتھارٹی (نیپرا) اور پبلک پروکیورمنٹ ریگیولیٹری اتھارٹی (پپرا) جیسے اہم
ادارے اب ریٹائرڈ سرکاری افسران کے پارکنگ لاٹ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ غیر
متعلق افسران کی تعیناتی سے بہتر فیصلے نہیں ہو پا رہے اور اِس کے نتیجے
میں توانائی کا بحران مزید شدت اختیار کرگیا ہے۔“
ڈاکٹر عاصم کی بصارت اور بصیرت سے ہم انکار کی جرات نہیں کرسکتے۔ اُنہوں نے
کئی ادارے کامیابی سے چلائے ہیں۔ اب پٹرولیم کی وزارت ملی ہے تو یہاں بھی
اُن کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اب یہ تو کوئی عوام سے پوچھے اُن کے سروں پر
یہ ڈنکا کس زور سے بج رہا ہے! ریٹائرڈ سرکاری افسران کو کھپانے کے بارے میں
اُنہوں نے جو رائے دی ہے وہ یقیناً وقعت رکھتی ہے۔ اگر اُن کی رائے وقعت کی
حامل نہ ہوتی تو وہ آج بھی اسٹیتھو اسکوپ لگائے مختلف وارڈز کے معائنے تک
محدود رہتے، اسلام آباد کی حسین اور فرحت بخش فضا میں وزارت سے محظوظ نہ ہو
رہے ہوتے! ہاں، تھوڑا سا اختلاف ضرور کیا جاسکتا ہے۔ بات یہ ہے جناب کہ
ڈاکٹر عاصم نے سرکاری اداروں کو ریٹائرڈ افسران کا پارکنگ لاٹ کہا ہے جبکہ
ہمارے نزدیک یہ ادارے پارکنگ لاٹ نہیں، ڈمپنگ گراو ¿نڈ ہیں! پارکنگ لاٹ میں
وہ چیزیں رکھی جاتی ہیں جن کا کوئی نہ کوئی مصرف ممکن ہوتا ہے۔ بیشتر
سرکاری افسران کی ”اہلیت“ پر نظر دوڑائیں تو وہ ”حاضر سروس“ ہونے کی حالت
میں بھی ایڈیشنل یعنی اضافی معلوم ہوتے ہیں! اور بعض افسران کے منصب میں
”ایڈیشنل“ کا اضافہ کرکے اِس دل خراش حقیقت کا اعتراف بھی کرلیا جاتا ہے!
ڈاکٹر عاصم کا کہنا ہے کہ توانائی کے بحران میں شدت اِس لیے آئی ہے کہ اِس
بات شدید سردی پڑی ہے۔ یہ بات ہمیں بہت حیرت انگیز لگی اور ساتھ ہی خوشی
بھی ہوئی کہ ایک نیا ”نظریہ“ ہاتھ آگیا ہے۔ صدر زرداری کی یہی کوالٹی ہمیں
بہت پسند ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے لوگوں کو اپنی ٹیم میں رکھتے ہیں جن کے عام
سے بیانات بھی پلک جھپکتے میں نظریات کا درجہ اختیار کرتے ہیں! اب تک ہم نے
صدر اور وزیر اعظم سے لے کر نچلی سطح کے مشیروں تک کے منہ سے یہی بات سُنی
تھی کہ شدید گرمی سے توانائی کا بحران شدت اختیار کرلیتا ہے۔ اور ہماری
سادگی ملاحظہ فرمائیے کہ اُن کی بات پر یقین بھی کر بیٹھے تھے! مقام شکر ہے
کہ ڈاکٹر عاصم نے توانائی کے بحران کی ایک اور منفرد ”وجہِ تسمیہ“ بیان
کردی! گرمی میں توانائی کا بحران شاید بہت پھیل جاتا ہے اِس لیے قابو میں
نہیں آتا! (یہاں پھیلنے سے وہی مفہوم لیا جائے جو عام بول چال میں ہوتا ہے
مثلاً ابے کیا بات ہے، آج کل تو بہت پھیل رہا ہے!) ڈاکٹر عاصم نے وضاحت تو
نہیں کی مگر چونکہ عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے اِس لیے ہم بھی سمجھ
گئے کہ شدید سردی پڑتی ہے تو ہر چیز سُکڑ جاتی ہے، حتّیٰ کہ تاروں میں پائی
جانے والی بجلی اور پائپ لائن سے گزرنے والی گیس بھی! ہمیں تو یہ وفاقی
مشیر پیٹرولیم کے خلاف بجلی اور گیس دونوں کی سازش معلوم ہوتی ہے! کئی سال
سے ہم نوید سُنتے آئے ہیں کہ سردی آئے گی، توانائی کا صرف کم ہوگا تو اُس
کے بحران پر قابو پالیا جائے گا! اب وفاقی مشیر پٹرولیم نے بہ قلم خود یہ
فرمایا ہے کہ سردی بھی حکومت کے پیچھے پڑگئی ہے یعنی اُس نے اپنی شدت میں
اضافہ کرکے توانائی کے بحران کو ختم ہونے سے روک دیا ہے! جب سے طاہر
القادری پدھارے ہیں، کوئی بھی حکومت کی ایک نہیں سُن رہا۔ شاید سردی بھی اب
لانگ مارچ پر نکل پڑی ہے!
ڈاکٹر عاصم فرماتے ہیں کہ نیشنل انرجی کمیشن کے قیام تک توانائی کا بحران
حل نہیں ہوگا۔ قوم کا حال یہ ہے کہ ہر سطح پر کمیشن مافیا کے سرگرم رہنے سے
لفظ ”کمیشن“ سے خوفزدہ رہنے لگی ہے! کسی سنگین معاملے کی تحقیقات کے لیے
کمیشن بنایا جاتا ہے تو رپورٹ سامنے نہیں آتی۔ اور اگر رپورٹ سامنے آئے تو
اُس میں کمیشن کھانے کا ذکر زیادہ ہوتا ہے! نیشنل انرجی کمیشن بنے گا تو
کیا کرلے گا؟ کمیشن میں تقرر پانے والے کمیشن کس طرح کھائیں گے، توانائی تو
اب رہی نہیں!
ڈاکٹر عاصم جوش میں ہوش نہ کھونے کا ہُنر جانتے ہیں۔ موصوف نے اتھارٹیز کے
بارے میں خاصے ”اتھارٹی آمیز“ لہجے میں خیالات کا اظہار کردیا مگر وزارتوں
اور ڈویژنز کا معاملہ گول کرگئے! ”اوگرا“، ”نیپرا“ اور ”پپرا“ کو ہم کیا
روئیں، کئی وزارتیں اِس وقت ڈمپنگ گراؤنڈ اور اسکریپ یارڈ کا کردار ادا کر
رہی ہیں! اور سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک قدم آگے ہیں۔ وہ ایسے کہ ریٹائرڈ
سرکاری افسران تو پھر بھی کچھ پڑھے لکھے ہوتے ہیں، وزارتوں میں تو اُنہیں
بھی کھپا دیا جاتا ہے جو اُس وزارت کا دائرہ کار اور مقصد تک نہیں جانتے!
ہم جیسوں کو تو بس یہی غم کھائے جاتا ہے کہ وزارتوں کو نا اہل لوگوں کا
اسکریپ یارڈ بنایا جاتا رہا تو ہماری آرزوؤں اور حسرتوں کو تدفین کے لیے
جگہ مل پائے گی یا نہیں! اِس غم سے نجات دلانے والا کوئی انجیکشن اگر بنا
ہو تو ڈاکٹر عاصم ہماری رہنمائی فرمائیں! |