1980 میں یعنی سولہ برس کی بالی
عمر میں ہم نے اجمیر جاکر خواجہ معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ کے عرس میں
شرکت کی تھی۔ وہاں ہم نے ہندوستان بھر کے مسلمانوں کے علاوہ ڈھائی دن کا
جھونپڑا اور بغیر پانی کا یعنی خشک انا ساگر بھی دیکھا۔ انا ساگر کو دیکھ
کر اندازہ ہوا کہ ڈبکی لگانے یا اپنے وجود کی تطہیر کے لیے تو ہماری اپنی
انا کا ساگر کافی تھا! اجمیر میں مزار سے متصل بازار میں ہمیں سوکھا حلوہ
نظر آیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بڑی اور چھوٹی دیگ میں عرس کے موقع پر جو
لنگر پکتا ہے وہ سُکھاکر سال بھر فروخت کیا جاتا ہے۔ عُرس پر جب دونوں
دیگیں تیار ہوئیں تو تازہ لنگر کھانے کا بھی موقع ملا۔ ذائقہ منفرد تھا۔
کیوں نہ ہوتا؟ دیگ میں اناج، شکر، گڑ، کھوپرا، چھوہارے، بادام، پستے، اخروٹ،
مصری، آلو بخارے، خشخش اور پتا نہیں کیا کیا ڈالا جاتا ہے۔ جو پک جائے سو
ٹھیک ہے۔ رہے نام اللہ کا!
ہماری معیشت کا بھی کچھ کچھ اجمیر کے لنگر جیسا ہی حال ہے۔ تھوڑی کھٹّی،
تھوڑی میٹھی۔ کہیں سے کڑوی، کہیں سے تیکھی۔ ذائقہ تو کسی نہ کسی طور منہ
میں بسیرا کرلیتا ہے مگر سمجھ میں نہیں آتا۔ یعنی
تو ”منہ“ میں تو آتا ہے، سمجھ میں نہیں آتا
بس، جان گیا میں تِری پہچان یہی ہے!
بدمزگی پر تھوکنا چاہیں تو تھوکا بھی نہیں جاتا کہ زہر مار تو کرنا ہی ہے!
اخبارات میں کاروبار سے متعلق خبروں کے صفحات پر نظر ڈالیے تو پھر نظر لوٹ
کر نہیں آتی، متضاد خبروں پر قربان ہو جاتی ہے! ہر روز ایسی خبروں کی
بھرمار ہوتی ہے جن میں ہم آہنگی اُتنی ہی مفقود ہوتی ہے جتنی گھر والوں کی
پسند سے شادی کے بندھن میں بندھے مرد و زن میں مفقود پائی جاتی ہے! چار
پانچ ایسی خبریں ملاحظہ فرمائیے جو ایک دوسرے کا منہ چڑا رہی ہیں۔ صاف
محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بیشتر سیاست دانوں اور بیورو کریٹس کی طرح اِن
خبروں کی بھی آپس میں نہیں بنتی! ذرا خبروں پر ایک نظر ڈالیے۔
٭ ہڑتالوں اور ہنگاموں سے 2012 میں 40 کاروباری دن ضائع ہوئے۔ 125 ارب کا
نقصان ہوا۔ شہر کی کاروباری سرگرمیاں 60 فیصد تک متاثر ہوئیں۔
٭ ماہرین نے بتایا ہے کہ 2012 پاکستان کی معیشت کے ناکام ترین برسوں میں سے
تھا۔ کسی بھی شعبے نے ترقی نہیں کی۔ بہتری کے خاطر خواہ اقدامات کا فقدان
رہا۔
٭ گزرے ہوئے سال میں اسٹاک مارکیٹ ایشیا میں بلند ترین سطح پر رہی۔ اور
دنیا بھر میں اس کا نمبر آٹھواں رہا۔
٭ مہنگائی کی شرح میں سال کی دوسری ششماہی کے دوران کمی واقع ہوئی، یعنی
چیزیں سستی ہوگئیں۔ (یقین تو نہیں آتا۔ ہم نے تو اہل وطن کو مہنگائی ہی کا
رونا روتے دیکھا ہے!)
٭ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے پاکستانیوں کا تناسب 37 فیصد
تک جا پہنچا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ملک بھر میں شدید غربت سے دوچار
افراد کی تعداد تقریباً ساڑھے چھ کروڑ ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ بے نظیر
انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملک بھر کے غریبوں کی قسمت سنواری جاچکی ہے۔ اور
غریب ہیں کہ بدستور بُرے حالات کے پنجرے میں کھڑے حکومتی دعووں کا منہ چڑا
رہے ہیں!
جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ پریشانی کا گراف بلند کرنے پر تلا ہوا ہے۔
کارخانے بند، بازار بند، علاقوں اور محلوں کی دکانیں بند، تعلیمی ادارے بند۔
مگر کوئی جادو تو دیکھے کہ ملک چل رہا ہے! توانائی کے بحران، مہنگائی، شدید
افلاس، بے روزگاری، بنیادی سہولتوں سے محرومی اور منفی معاشی انڈیکیٹرز کے
باوجود ہم اچھے خاصے زندہ ہیں! زمانے والوں کے لیے اِس سے بڑا کرشمہ کیا
ہوگا! ایسا لگتا ہے کہ ہم نے دنیا بھر کے ماہرین معاشیات کو مات دینے کی
قسم کھا رکھی ہے! وہ بے چارے ہماری بے چارگی دیکھتے ہوئے عجیب و غریب قسم
کی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں۔ مگر ہماری مکمل بربادی کا رونا روتے روتے اب
جھوٹے پڑگئے ہیں!
ہر طرف سے گھیر کر، پیٹ بھر کر اِسے کھایا جارہا ہے مگر اللہ کی رحمت تو
کوئی دیکھے کہ پیارا وطن ختم ہونے کا نام نہیں لیتا! کرپشن کا عالم یہ ہے
کہ بڑھتے ہی جائیے اور کامیاب قرار پائیے۔ مڑ کے دیکھا تو پتھر کے ہو جائیں
گے! معیشت کو چلانے کا یہ اُصول دنیا والوں نے شدت سے نظر انداز کر رکھا ہے!
دہشت گردی، بد امنی، لوٹ مار، احتجاج، ریلیاں، دھرنے، ہڑتالیں، تالہ بندی،
پہیہ جام اور خدا جانے کیا کیا ہو رہا ہے مگر اس کے باوجود ملک چل رہا ہے۔
افراطِ زر نے برا حال کردیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ دولت کی ریل پیل سے زندگی
آسان ہو جاتی ہے۔ یہ بات شاید ہماری حکومت نے بھی سُن لی۔ اب عالم یہ ہے
سیکیورٹی پرنٹنگ پریس میں رات دن کرنسی نوٹ چھاپ کر ملک میں روپے کی ریل
پیل کی جارہی ہے تاکہ لوگ خوش حالی سے ہمکنار رہیں! معاشی نظریات کی دیگ
میں کف گیر ہلانے والوں کو سوچنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کو چلانا کچھ خاص
مشکل کام نہیں، بس اِس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کرنسی نوٹ چھاپنے والی
مشین چلتی رہے!
یوں تو چھوٹی ہے ذات ”کاغذ“ کی
دل کو لگتی ہے بات ”کاغذ“ کی!
رات دن کرنسی نوٹ چھاپنے کے عمل سے جو لوگ پریشان ہیں وہ بس اِسی فکر میں
غلطاں رہتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا! اب
اُنہیں کون سمجھائے کہ ملک تو نہ جانے کب سے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور
پریشان ہونے والوں کو دائمی قبض میں مبتلا کئے ہوئے ہے! افراطِ زر سے خوف
زدہ ہونے والوں کو یہ ”نوید“ ہو کہ حکومت نے ناکام ریاست قرار دیئے جانے کے
خوف سے قوم کو نجات دلا دی ہے۔ کسی بھی گھر میں کوئی ایک فرد ناکارہ بھی
ہوتا ہے۔ وہ کوئی مر تو نہیں جاتا۔ بس اِتنا ہے کہ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلتا
رہتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ محنت کی زحمت سے بھی بچا رہتا ہے! مزاروں پر
بھی لوگ پڑے رہتے ہیں، کوئی بھوک سے مر تو نہیں جاتے۔ لنگر ملتا ہے، پیٹ
بھرتا ہے، وقت کٹتا ہے، زندگی کا فاصلہ طے ہوتا جاتا ہے۔ ملک پر اختیار اور
تصرف رکھنے والوں نے شاید طے کرلیا ہے کہ معیشت کو چلاکر گزر بسر نہ کی
جائے بلکہ معیشت کے مزار کا لنگر کھایا جائے۔ یہ لنگر کسی کے لیے میٹھا
ہوگا اور کسی کے لیے کھٹّا۔ کوئی پھیکے پن کی شکایت کرے گا، کوئی تیکھے پن
کا رونا روئے گا۔ مگر خیر، اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ لنگر سے پیٹ تو بھر ہی
جاتا ہے، بھوک تو مٹ ہی جاتی ہے۔ رہا عزتِ نفس کا سوال تو اُس کی پروا
بظاہر کسی کسی کو ہے۔ اور کون جانتا ہے کہ عزتِ نفس کے غم میں گھلنے والے
یہ درد مند بھی کب تک ہیں! |