آج صبح ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی
وفات کی خبر پڑھ کر دل میں اک ہوک سی اٹھی ۔ وہ عالمی شہرت کے حامل نامور
پاکستانی ادیب ،دانش ور،نقاد ،محقق،مورخ اور ماہر تعلیم تھے ۔ان کی وفات
ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے ۔وطن ،اہل وطن اور پوری انسانیت سے والہانہ محبت
کرنے والے اس یگانہءروزگار ادیب نے پوری دنیا میں اپنی تخلیقی کامرانیوں کے
جھنڈے گاڑ دئیے ۔7۔مارچ 1938کی صبح امروہہ(بھارت )سے طلوع ہونے والے علم و
ادب کے اس آفتاب نے اپنی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے علمی
دنیا کو اپنی چکا چوند سے حیرت زدہ کر دیا۔مہیب سناٹوں کو ختم کرنے والی یہ
آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ۔ اردو زبان و ادب کے ہمالہ کی ایک سر بہ
فلک چوٹی اجل کے ہاتھوں زمیں بوس ہو گئی ۔حریت فکر و عمل کا یہ عظیم علم
بردار اب ہمارے درمیان موجود نہیں رہا ۔9۔جنوری 1913کی شام کو اردو ادب کا
یہ خورشید جہاں تاب کراچی کے افق سے غروب ہو کر عدم کی وادیوں میں اوجھل ہو
گیا ۔سخی حسن کے شہر خموشاں کی زمین نے اردو زبان و ادب کے اس آسمان کو
اپنے دامن میں چھپا لیا ۔اردو زبان و ادب کی پوری دنیا پر ایک سکتے کی
کیفیت ہے ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان ادب تھے ۔ایک رجحا ن ساز
ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے انھوں نے انسانی آزادی اور حریت فکر و عمل کو
ہمیشہ اپنا مطمح نظر بنایا۔حریت ضمیر سے جینے کے لیے انھوں نے ہمیشہ
اسوہءشبیر ؓ کو پیش نظر رکھا ۔جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے انھوں نے
انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے قلم بہ کف مجاہد کا کردا ر ادا کیا ۔پاکستان
کی تہذیبی اور ثقافتی اقدار و روایات کو وہ دل و جان سے عزیز رکھتے تھے ۔یہ
کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کی تحقیق و تنقید میں ثقافتی مورخ کا رنگ نمایاں
ہے ۔ان کی تحریریں زمان و مکاں اور زندگی کی حقیقی معنویت کو نہایت منظم و
مربوط انداز میں پیش کرتی ہیں ۔تاریخ او راس کے مسلسل عمل پر گہری نظر
رکھنے والا اتنا عظیم دانش ور جس خاموشی کے ساتھ زینہ ءہستی سے اتر گیا اس
پر ہر دل شدت غم سے سو گوار ہے اور ہر آنکھ ساون کے بادلوں کی طرح برس رہی
ہے ۔زندگی کے تمام کھلے ہوئے امکانات سے بھرپور استفادہ کرنے اور فکر و نظر
کو اپنے تخیل کی جو لانیوں سے مہمیز کرنے والے اس جر ی تخلیق کار کے بعد تو
وفا کے سب ہنگامے ہی قصہءپارینہ بن کر رہ گئے ہیں۔پوری انسانیت کے سا تھ
اخلاق اور اخلاص سے بھرپور برتاﺅ کرنے کا داعی اور جلیل القدر ادیب کیا گیا
کہ بہار کے دن ہی ہم سے مستقل طور پر روٹھ گئے ۔ہماری محفل کے چاند چہرے
موت کے بے رحم ہاتھوں سے دائمی مفارقت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور وہ لوگ
جنھیں دیکھ دیکھ کر ہم جیتے ہیں جب آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں تو زندگی
سوہان روح بن جاتی ہے۔ایسے لوگ علم و ادب کا دائرة المعارف ہو تے ہیںاور ان
کی زندگی شمع کی صورت ہو تی ہے ۔ان کی رحلت کے صدمے سے روح زخم زخم اور دل
کرچی کرچی ہو جاتا ہے ۔یہ ایک جان لیوا صدمہ ہے ،تقدیر کے اس چاک کو سوزن
تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گرں مایہ کیا کیے
ڈ اکٹر محمد علی صدیقی کا خاندان 1948میں امروہہ سے ہجرت کرنے کے بعد کراچی
میں مقیم ہوا ۔انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی کے ممتاز تعلیمی ادارے
کرسچین مشن سکول سے مکمل کی ۔اسی درس گاہ میں بانی ءپاکستان قائد اعظم محمد
علی جناح بھی زیر تعلیم رہے ۔1953میں انھوں نے ڈی ۔ جے سائنس کالج کراچی سے
انٹر میڈیٹ کا امتحان بہت اچھے نمبر لے کر پاس کیا۔1964میں انھوں نے کراچی
یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں ایم۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔جامعہ کراچی
ہی سے انھوں نے 2003میںمطالعہ پاکستان میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔
پاکستان کی عظیم اور تاریخی جا معہ کراچی سے مطالعہ پاکستان میں ڈی ۔لٹ کی
پہلی ڈگری بھی انھوں نے حاصل کی ۔انھوں پرورش لوح و قلم میںبھر پور کردار
ادا کیا۔وہ گزشتہ دو عشروں سے پاکستان کے ممتاز انگریزی اخبار ڈان (Dawn)میں
ایریل(Ariel)کے قلمی نام سے کالم لکھتے تھے ۔ان کے کالم معاشرتی زندگی کے
جملہ معاملات اور مسائل کا بھر پور احاطہ کرتے تھے ۔ان کی دوربین نگاہ
سماجی زندگی کے ان مسائل تک بھی پہنچ جاتی تھی جو عام آدمی کی نگاہوں سے
اوجھل رہتے ہیں ۔ان کی یہ کالم بڑی توجہ اور دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے ۔زندگی
کے مسائل ،مشکلات ،ابتلا،آزمائش اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کے بارے میں وہ
ہمیشہ کھل کر لکھتے تھے ۔ان کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ تیشہءحرف سے فصیل
جبر کو منہدم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے ۔وہ معاشرتی
زندگی میں امن ،اخوت ،تحفظ ،ایثار ،بے لوث محبت اور حق و صداقت کی فراوانی
کے متمنی تھے ۔ان کا اسلوب مثالی تھا ۔اپنے اسلوب کی شان دلربائی سے وہ
پتھروں کو بھی موم کر دیتے تھے ۔کئی ادبی مجلات کے مہمان مدیر کی حیثیت سے
انھوں نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔صہبا
لکھنوی کی ادارت میں کراچی سے شائع ہونے والے مجلے ”افکار “میں ان کی
تحریریں زندگی سے پیار کے اچھوتے پہلو سامنے لاتی تھیں ۔وہ تخلیق ادب کے
وسیلے سے نئے زمانے نئی صبح اور شام کی جستجو پر اصرار کرتے تھے ۔وہ اپنی
تخلیقی فعالیت کے ذریعے محبت اور خلوص کی شمع فروزاں کر کے زندگی کی
رعنائیوں میں اضافہ کرنے کے آرزو مند تھے ۔ان کو اس بات کا شدت سے احساس
تھا کہ کہ فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کا مسئلہ رو ز بہ رو ز گمبھیر
صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے ۔اس کے مسموم اثرات سے معاشرے میں زندگی کی
بے معنویت کا خوف سرایت کرتا چلا جا رہا ہے ۔انھوں نے اس امر کو یقینی
بنانے کی سعی کی کہ افراد کو زندگی کے ان تمام استعاروں سے روشناس کیا جائے
جن کا تعلق رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی سے ہے ۔ان کا پیغام محبت اور اخوت پر
مبنی ہے ،ان کی تصانیف میں یہی پیغام قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ان
کی تصانیف درج ذیل ہیں :
توازن (1976)،کروچے کی سر گزشت (1976)،نشانات (1981)،مضامین(1991)،اشارے
(1994)،تلاش اقبال (2002)،سر سید احمد خان اور جدت پسندی (2003)،مطالعات
جوش (2005)،غالب اور آج کا شعور(2005)،ادراک (2007)
بانی ءپاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے وہ بہت عقیدت رکھتے تھے ۔ان کی
خواہش تھی کے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں قارئین میں مثبت شعور
و آگہی پیدا کی جائے ۔وہ تحریک پاکستان کو تہذیبی ارتقا سے تعبیر کرتے تھے
۔قائداعظم کی بے مثال قیادت میں اس خطے کے مسلمانوں نے جو فقید المثا ل جد
و جہد کی وہ ہر عہد میں دلوں کو ایک ولالہءتازہ عطا کرتی رہے گی ۔۔ڈاکٹر
محمد علی صدیقی نے تاریخ کے موضوع پر اہم کتب لکھ کر نئی نسل کو تہذیبی و
ثقافتی میراث کے بارے میں حقیقی شعور و آگہی سے متمتع کرنے کی مقدور بھر
کوشش کی ۔قائد اعظم کے بارے میں ان کی وقیع تصانیف کو بے حد پذیرائی ملی ۔ان
کتب میں سے چند درج ذیل ہیں :
قائد اعظم (اردو )،Quaid-i-Azam (English)،Quaid-iAzam
Speeches(English)،قائد اعظم اردو ادیبوں کی نظر میں،ذکر قائد اعظم
زمانہ طالب علمی ہی سے انھوں نے تخلیق ادب پر توجہ مرکوز کر دی ۔ان کے بلند
پایہ تحقیقی و تنقیدی مضامین کی ممتاز ادبی مجلات میں اشاعت کا سلسلہ
1958میں شروع ہو گیا ۔ان کے ایک سو سے زائد تحقیقی و تنقیدی مقالات شائع
ہوئے جن کے مطالعہ سے فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں ۔دنیا
کی ممتاز جامعات میں ان کے توسیعی لیکچرز ہوتے تھے ۔ان کے عالمانہ تجزیاتی
لیکچرز کو بہت پسند کیا جاتا تھا ۔دنیا کے ناموردانش ور ان کے علم و فضل کے
مداح تھے ۔ان میں رالف رسل ،ژاک دریدا ،ڈاکٹر این میری شمل ،ڈاکٹر نثار
احمد قریشی ،ڈاکٹر بشیر سیفی ،شہر یار ،مغنی تبسم اور صابر کلوروی کے نام
قابل ذکر ہیں ۔اپنے ترقی پسند نظریات پر وہ تمام زندگی عمل پیرا رہے ۔وہ
انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان کے صدر تھے ۔انھوں نے گزشتہ نصف صدی میں دو
نسلوں کو فکری رہنمائی فراہم کی ۔ان کے بار احسان سے ہر پاکستانی کی گردن
خم رہے گی ۔دنیا لاکھ ترقی کے مدارج طے کرتی چلی جائے ایسے لوگ اب کبھی
پیدا نہیں ہو سکتے ۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی ایک وسیع المطالعہ ادیب تھے ۔انھوں نے تخلیق ادب ،تحقیق
،تنقید ،تراجم ،صحافت ،تدریس اور تاریخ کے شعبوں میں جو گراں قدر خدمات
انجام دیں ان اک ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔انھوں نے طویل عرصہ تک جامعہ
کراچی میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔اس کے بعد وہ چھ برس تک قائد اعظم
اکیڈمی میں ڈائریکٹر کے منصب جلیلہ پر فائز رہے ۔وہ ہمدرد یو نیورسٹی کراچی
میں ڈین فیکلٹی کی حیثیت سے خدمات پر ماموررہے ۔اپنی زندگی کے آخری ایام
میں وہ انسٹی ٹیوٹ آف آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ ٹیکنالوجی (بز ٹیک )میں ڈین
فیکلٹی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے ۔ان کی علمی ،ادبی ،تدریسی اور
معاشرتی خدمات کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا ۔انھیں متعدد اعزازات سے
نوازا گیا ،جن کی تفصیل حسب ذیل ہے :
صدارتی تمغہ حسن کار کردگی (2003)،ستارہءامتیاز (حکومت پاکستان)۔ڈاکٹر محمد
علی صدیقی کا شمار دنیا کے نامور ادیبوں میں ہوتا تھا ۔1984میں کینیڈین
ایسوسی ایشن آف ساﺅتھ ایشین سٹڈیز نے ان کی عالمی سطح پر علمی خدمات کے
اعتراف میں انھیں دنیا کے بہترین سکالر کے اعزاز سے نوازا ۔ان کی یہ
کامرانیاں ان کے منفرد اور ممتاز ادیب ہونے کی دلیل ہیں ۔ان کی ان فقید
المثال علمی و ادبی فتوحات میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں ۔ان کا نام افق
ادب پر تا ابد مثل آفتاب ضو فشاں رہے گا ۔
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکر ر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
قدامت پسندی کو وہ ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ان کا استدلال یہ تھا
کہ قدامت پسندی کے مسموم اثرات نے پوری قوم کو فکری انتشار ،نفاق،خانہ جنگی
اور تقلید کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔ترقی پسند سوچ کے مثبت پہلوﺅں کو وہ ہمیشہ
پیش نظر رکھتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ ترقی پسند سوچ کے ذریعے افراد کو
زندگی کے مسائل کے بارے میں حقیقی شعور سے متمتع کیا جا سکتا ہے ۔سچ تو یہ
ہے کہ جب تک تمام مسائل زیست کے بارے میں سائنسی انداز فکر کو رو بہ عمل
نہیں لایا جاتا اس وقت تک زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے میں خاطر
خواہ کامیابی ممکن نہیں ۔وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ ہمیں سستی جذباتیت
سے ہٹ کر عقل و خرد اور فہم و ادراک کی کسوٹی پر تمام اقدار و روایات کو پر
کھنا چاہیے ۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے عظیم ادیبوں اور ان کے ادب پاروں کو
پرکھنے کے لیے سائنسی انداز فکر اپنایا۔ان کے اسلوب میں ترکیبی اور تجزیاتی
انداز فکر کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی نے
اپنے تخلیقی عمل اور لسانی تجربات سے اردو زبان کی ثروت میں جو اضافہ کیا
ہے وہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ نامور پاکستانی شاعر جوش ملیح آبادی
نے اپنی رباعیات ”نجوم و جواہر “میں اپنے اشہب قلم کی جس طرح جو لانیاں
دکھائی ہیں ،وہ انھیں منفرد و ممتاز مقام عطا کرتی ہیں ۔ان رباعیوں کا
نمایاں وصف یہ ہے کہ ان میں جوش کی فکری پرواز اور لہجہ عمر خیام سے بھی
بلند ہے ۔اپنی تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے انھوں نے اپنے مطالعہ ،تجربات
،احساسات ،تجزیہ اور تاثرات کو جس مہارت سے زیب قرطاس کیا ہے اسے پڑھ کر
قاری مسرت کے احساس سے سرشار ہوتا ہے ۔اس تجزیہ کو پڑھ کر قاری کو نہ صرف
ادب پارے کے بارے میں آگہی ملتی ہے بل کہ وہ تخلیق کار اور اس کے لا شعوری
محرکات کے بارے میں کافی معلومات حاصل کر لیتا ہے ۔
1857کی ناکام جنگ آزادی کے بعد اس خطے کے مظلوم عوام پر جو کوہ غم ٹوٹا اس
کے متعلق ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے نہایت خلوص اور دردمندی سے اپنے تجزیے
پیش کیے ہیں ۔جب برطانوی تاجر مکر کی چالوں سے تاج ور بن بیٹھے تو انھوں نے
یہاں کے عوام کے چام کے دام چلائے ۔اس خطے کے عوام نے برطانوی استعمار سے
نجات حاصل کرنے کے لیے جو صبر آزما جمہوری جد و جہد کی ہے وہ تاریخ کا ایک
درخشاں باب ہے ۔آزادی کی یہ جدو جہد جس میں ادیبوں نے بھر پور حصہ لیا اسے
ان کے جذبہ ءحب الوطنی اور جذبہ ءانسانیت نوازی کی شان دار مثال سمجھا جاتا
ہے ۔وہ سلطانیءجمہور کے پر جوش حامی تھے اور جبر کا ہر انداز مسترد کر کے
انھوں نے حریت فکر کا علم بلند رکھا ۔سلطانیءجمہور کا خواب اسی وقت شرمندہ
ءتعبیر ہو سکتا ہے جب ادیب اس کے لیے مثبت شعورو آگہی کو پروان چڑھانے کے
لیے اپنا کردار ادا کریں ۔اس مو ضوع پر ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے خیالات
قابل غور ہیں :
”آج بھی با ضمیر اور روشن خیال ادیب جمہوریت کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔جب
تک ادیب بہتر مستقبل کے خواب دیکھتے رہیں گے اس وقت تک آزادی
ایک آدرش کے طور پر با معنی اصطلاح رہے گی ۔“(1)
ان کا خیال تھا کہ جدیدیت اور ما بعد الطبیعات پر کامل انحصار کرنا سرابوں
میں بھٹکنے کے مترادف ہے ۔جدیدیت اور ما بعد الطبیعات اپنی نو عیت کے
اعتبار سے اقتضائے وقت کا ساتھ دینے سے قاصر ہیں ۔بادی النظر میں یہ محسوس
ہوتا ہے کہ جدیدیت اور ما بعد الطبیعات کی وجہ سے افراد کو رجعت پسندی اور
یاس و ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے ادب اور عصری
آگہی پر پوری توجہ دی ۔وہ چاہتے تھے کہ ادب کو تزکیہ نفس کا وسیلہ بنایا
جائے ۔زندگی کی اقدار عالیہ کے فروغ کو وہ بہت اہم قرار دیتے تھے ۔وہ ترقی
پسندانہ خیالات کو جدیدیت سے مماثل سمجھتے تھے ۔جہاں تک ما بعد الطبعیات کا
تعلق ہے ،یہ عصری تقاضوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ایک زیرک فعال اور
مستعد تخلیق کار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وہ اپنے عہد کے حالات وواقعات کا
بہ نظر غائر جائزہ لے اور تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کے رگ سنگ میں
اترنے کی سعی کرے ۔اس طرح وہ اپنے عہد کے تقاضوں سے عہدہ بر آہونے میں
کامیاب ہو سکتا ہے ۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے اپنی خیال افروز اور فکر پرور تحریروں سے اجتماعی
شعور اور اجتماعی لا شعور کے ما بین ارتباط و ہم آہنگی کے امکانات پر بھر
پور توجہ دی ۔ان کے تخلیقی عمل میں وجدان اور متخیلہ کی دلکشی کا جادو سر
چڑھ کر بو لتا ہے ۔وطن ،اہل وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی اور
والہانہ محبت ان کے لا شعور میں رچ بس گئی ہے ۔تخلیق فن ،زبان و ادب او ر
تخلیق ادب کے وسیلے سے تزکیہ نفس کے بارے میں ان کے خیالات نہایت واضح ہیں
۔اپنی تصنیف ”ادراک “میں انھوں نے میر تقی میر،مرزا اسداللہ خان غالب ،یاس
یگانہ چنگیزی ،صبا اکبر آبادی ،حمیرہ رحمٰن ،پیرزادہ قاسم اور شاہد نقوی کے
اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے ۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی کو دنیا کی
متعدد زبانوں پرعبورحاصل تھا ۔ان میں انگریزی ،اردو ،عربی ،فارسی ،سندھی ،پنجابی
،پشتو، جرمن ،ترکی ،بنگالی اور چینی زبان قابل ذکر ہیں ۔انھوں نے سندھی
زبان کے نامور شاعر شاہ عبداللطیف بھٹا ئی کے کلام کو جو تجزیاتی مطالعہ
پیش کیا ہے وہ قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے ۔انھوں
نے تخلیق فن کے وسیلے سے نئے حقائق تک رسائی کے امکانات کا جائزہ لیا ۔ان
کی تنقید اور تجزیہ کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جن میں وہ
سائنسی انداز فکر کو بروئے کار لاتے ہوئے ۔وہ چاہتے تھے کہ ان تمام ادیبوں
کے ادبی کارناموں کو حقیقی تناظر میں دیکھا جائے ۔انھوں نے مجاز لکھنوی ،ابراہیم
جلیس ،اور عبداللہ حسین کے اسلوب کے بارے میںنہایت پر مغز مقالے لکھے ہیں ۔ان
کی تحریروں میں جہاں تاریخ کے شعور کا واضح پر تو موجود ہے وہاں تہذیب و
ثقافت کے بارے میں ایک قابل فہم طرز فکر بھی جلو گر ہے ۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی کی پوری زندگی صبر و تحمل ،قناعت اور استغنا کی مثال
ہے ۔وہ ابن الوقت اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے مفاد پرستوں کے قبیح
کردار سے شدید نفرت کرتے تھے ۔وہ سر سید اور غالب کی مثال دیا کرتے تھے
جنھوں نے انتہائی کٹھن حالا ت میں بھی اپنی وضع داری کا بھرم قائم رکھا ۔غالب
کی پوری زندگی تنگ دستی اور قرض کی بھینٹ چڑھ گئی اور جب سر سید کا انتقال
ہوا تو گھر سے ان کی تجہیز و تکفین کے لیے کچھ نہ نکلااور ان کی تدفین کے
تمام اخراجات خیراتی فنڈسے ادا کیے گئے ۔1857کے بعد یہاں حالات نے جو رخ
اختیار کیا ان کے باعث یہاں کے عوام ایک مستقل نوعیت کے احساس کم تری میں
مبتلاہو گئے ۔برطانوی استعمار کو یہاں سے کچھ ایسے ضمیر فروش عناصر مل گئے
جنھوں نے انتہائی گھٹیا ذاتی مفادات کی خاطر قومی مفادات کو پس پشت ڈال دیا
۔بر عظیم کی جن ریاستوں نے برطانوی استعمار کا ساتھ دیا ان پر وہ شدید
تنقید کرتے تھے ۔ انھیں اس بات کا شدید قلق تھا کہ موجودہ دور میں ہوس نے
نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے ۔
قارئین ادب کو عصری آگہی سے متمتع کرنے کے سلسلے میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی
کی خدمات کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔وہ ایک روشن خیال
اور ترقی پسند ادیب تھے ۔انھوں نے اپنے ترقی پسندانہ خیالات کا ہمیشہ بر
ملا اظہار کیا۔وہ کبھی کسی مصلحت کا شکار نہ ہوئے ۔الفاظ کو فرغلوں میں
لپیٹ کر پیش کرناان کے مسلک کے خلاف تھا ۔اپنے تجزیاتی مقالات میں انھوں نے
دنیا کی طاقت ور اقوام کے پیش کردہ نیو ورلڈ آرڈر پر اپنے تحفظات کا بر ملا
اظہار کیا ۔ان کا خیال تھا کہ تیسری دنیا کے مجبور ،مظلوم اور بے بس و
لاچار انسانوں کو طاقت ور ممالک کے مکر کی چالوں سے ہو شیار رہنا چاہیے ۔اس
دور کی ظلمت مین ہر قلب پریشاں کو فسطائی جبر کی مسلط کردہ ہلاکت خیزیوں سے
غافل نہیں رہنا چاہیے ۔دنیا کے غریب ممالک کی آزادی اس قدر بے وقار بنا دی
گئی ہے کہ بہ ظاہر تو ان کے سر پر تاج سجا دیا گیا ہے مگر ان کے پاﺅں میں
بیڑیاں پہنا دی گئی ہیں ۔معاشی اور اقتصادی زبوں حالی نے غریب ممالک کے
مظلوم عوام کے لیے رتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔طاقت ور اقوام کا نیو ورلڈ آرڈر
اور ما بعد جدیدیت کا تصور جبر کی اس فضا میں اعصاب شکن کیفیت پیدا کر چکا
ہے ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آج دنیا میں ہر طرف اہل ہوس نے دام بکھیرے
ہیں افراد مایوسی اور اضمحللال کا شکار ہیں ۔بے حسی کا عفریت ہر طرف منڈلا
رہاہے مظلوم انسانیت کا کوئی پرسان حال نہیں ۔اپنی تحریروں میں ڈاکٹر محمد
علی صدیقی نے غیر منصفانہ اور ظالمانہ استحصالی نظام پر سخت تنقید کی ۔دنیا
کی طاقت ور اقوام جس بے دردی سے غریب اقوام کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں
اس پر وہ بہت دل گرفتہ تھے ۔ان کے دل میں ساری دنیا کے مظلوم انسانوں کا
درد سما گیا تھا ۔
ڈاکٹر محمد علی صدیقی ایک با کردار اور وضع دار انسان تھے ۔وہ ایک بلند
پایہ ادیب تھے ۔اس کے علاوہ وہ ایک عظیم انسان بھی تھے ۔ان کی عظمت کا راز
ان کی دردمندی ،خلوص اور انسانی ہمدردی کے فراواں جذبات میں پو شیدہ تھا۔وہ
سب کے ساتھ بلا امتیاز بے لوث محبت کے قائل تھے ۔ان کی محبت لین دین کی
کوئی صور ت ہر گز نہ تھی بل کہ وہ تو اپنے احباب پر سب کچھ نچھاور کرنے کے
لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے ۔ان کے اچھے اعمال ہمیشہ خوشگوار نتائج سامنے
لاتے ۔بے لوث محبت کے اعجاز سے وہ اپنے خلوص پر مبنی جذبات کو فروغ دے کر
اپنی ذات کی تکمیل کرتے تھے۔ انھوں نے انسانی کردار کے ان تمام پہلوﺅں کا
مطالعہ کیا جو معاشرتی زندگی میں امن و عافیت کے نقیب ثابت ہوتے ہیں ۔ان کی
عظیم شخصیت انھیں ایک اچھے شہری ، عظیم محب وطن ،حریت فکر کے مجاہد ،بے
مثال تخلیق کار اور عظیم انسان کے روپ میں سامنے لاتی ہے ۔انھوں نے ملت اور
معاشرے سے ہمیشہ اپنا قلبی تعلق استوار رکھا ۔ان کی تحریریں قلب اور روح کی
گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہیں ۔ادب کی جمالیاتی
اقدار ان کے اسلوب کا امتیازی وصف ہیں ۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی کا دوام جریدہ
ءعالم پر ثبت رہے گا۔تاریخ ہر دور میںان کے عظیم الشان کام اور نام کی
تعظیم کرے گی ۔ان کی یاد دلوں کو مرکز مہر و وفا کرتی رہے گی ۔آلام روزگار
کے مہیب بگولوں نے زندگی کے جن مظاہر کو منتشر کر دیا ہے ان کی تحریروں کے
اعجاز سے انھیں پھر سے ایک لڑی میں پرونے کی صورت تلاش کی جا سکتی ہے ۔ان
کی یاد دلوں سے کبھی محو نہیں ہو سکتی ۔
پھیلی ہیں فضاﺅں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اٹھی آواز تیری آئی
مآخذ
(1)محمد علی صدیقی:مضامین ،ادارہ عصر نو ،کراچی ،پہلا ایڈیشن ،1991،صفحہ
74۔ |