میری آزادی

”ابّا سے چھپ کر ٹیرس پر جا کر سگریٹ پینے کا مزا ہی اور ہے۔“

ریحان نے سگریٹ کا دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے خود کلامی کی۔ نجانے یہ لوگ ابّا امّاں سگریٹ پینے کا منہ کیوں کرتے ہیں جبکہ ابّا خود ڈبل پتی پان کھاتے ہیں اور امّاں کے پان دان میں بھی تمباکو بھرا پڑا ہے جو نہ صرف امّاں کھاتی ہیں بلکہ پڑوسن خالہ ثریا اور چچی سلطانہ کو بھی دیتی ہیں یعنی یہ خواتین بھی اچھی خاصی نشے کی عادت میں اپنی زندگی گزار رہی ہیں تو میں تو ایک گبرو خوبرو جوان ہوں یہ سگریٹ تو میرا اسٹیٹس سمبل ہے۔ کیا بھرم والی چیز ہے یہ بھی۔ یونیورسٹی میں درخت کے نیچے جب دوستوں کے ساتھ یہ سگریٹ میرے ہاتھ میں ہوتی ہے تو میں کسی انڈر ورلڈ ڈان سے کم نہیں لگتا۔

ریحان پہلی منزل کے ٹیرس پہ اپنے خیالات میں گم ہوا میں گھور رہا تھا وہ اِس بات سے بے خبر تھا کہ نیچے سے اُس کی امّاں اور چھت پہ سے اُس کے ابّا اُسے سگریٹ پیتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ اچانک ایک زنانہ جوتی نیچے سے اوپر آئی اور اُس کی سگریٹ زمین پہ گر گئی۔ ریحان اِس شدید حملے کو سمجھ نہ پایا تھا اور نیچے کی طرف دیکھ کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ اوپر سے بھاری بھرکم مردانہ جوتا اُس کے سر پر پڑا اور اسے دن میں تارے نظر آنے لگے۔ اوپر سے آنے والے جوتے کے بھاری پن سے اُس کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ابّا نے چھاپہ ماردیا ہے اور امّاں کو تو وہ نیچے دیکھ چکا تھا جو کمبخت کی سدائیں لگاتے نہ تھکتی تھیں۔

بہر کیف ابھی تو جوتے برسائے گئے تھے ابّا کے تھپڑ کا خیال آتے ہی ریحان نے اپنے گال پہ ہاتھ رکھا اور اپنے کمرے میں بھاگ کر گھس گیا۔ ساتھ ہی دروازے پر کنڈی بھی لگا دی۔

اب حال یہ تھا کہ ریحان اوپر سے نیچے تک پسینے میں شرابور سر پکڑے بیٹھا تھ یکایک دروازے کی دھڑ دھڑ نے اُس کی سانسوں کو اور تیز کر دیا۔ باہر ابّا تھے جو اپنی آواز کا پورا جادو جگا رہے تھے۔ ”تم نہیں سدھرو گے کتنی دفعہ سمجھایا کیوں اپنی جوانی کے دشمن بنے بیٹھے ہو۔ ارے دروازہ کھولو ۔۔۔! کچھ علم ہے یہ سگریٹ تمھارے پھیپھڑوں کو ختم کر دیگی وقت سے پہلے مرجاﺅ گے۔ ریحان نے دروازہ کھولے بغیر عاجزی سے فریاد کی،

”ابّا اِس دفعہ معاف کر دیں اگلی دفعہ شکایت کا موقع نہ دونگا“۔

کچھ دیر بعد باہر خاموشی چھا گئی۔ یعنی حالات قابو میں آچکے تھے۔ بات آئی گئی ہو گئی وقت گزرتا چلا گیا۔ لیکن ریحان کی سگریٹ پینے کی عادت پختہ ہوتی گئی۔

ریحان والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ وہ اس لئے خود ہی اپنی ذات سے سوالات کر کے اُن کے جوابات تلاش کرتا رہتا۔

”آج کا نوجوان کیا کرے۔ ماضی میں نوجوانوں کے پاس کتاب تھی اب وقت کی کمی ہے۔ ہماری اسٹڈیز بہت ہیں۔ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر معلومات کا خزانہ انڈیل رہا ہے صرف ایک بٹن کی جنبش ہوتی ہی کتنی طویل ہے۔ یہ تمام ابلاغ کے ذرائع افراد کو ایک لڑی میں پرو رہے ہیں اور تعلقات کی نہج انہیں قریب سے قریب کر رہی ہے۔ پر ہمارے بڑے یہ سمجھتے ہی نہیں نجانے کیوں۔“

آج ریحان کا ایک دوست یونیورسٹی میں گاڑی لے کر آیا تھا تو کراچی کی سڑکوں پر گشت کا پروگرام بننا ضروری تھا۔

یوں دونوں دوستوں نے کار میں ریپ میوزک تیز آواز میں سننا پسند کیا۔ ریحان کے دوست عاصم نے کراچی کے پوش علاقے کی طرف رخ کیا اور کار لکڑی کے ایک خوبصورت دروازے پر روکی۔

ریحان کی تشویش بڑھتی جا رہی تھی اُس سے رہا نہ گیا۔ آخر بے صبری میں کہنے لگا۔

”آخر تم مجھے کہاں لے کر آئے ہو۔“

عاصم نے پر اطمینان لہجے میں جواب دیا۔ یہ ہماری نئی نسل کی تفریح کا نیا زاویہ ہے۔ نیا کلچر شیشہ۔ تم ایک کش لگاﺅ مزا آجائے گا۔ شیشہ سے آشنائی سے بہت دن نہیں ہوئے پر یہ کشش کا سامان رکھتا ہے۔ واہ خوشبو اور ذائقہ چلو تو میرے دوست طبیعت بحل جائیگی۔

اندر داخل ہوتے ہی ریحان کو وہاں کا ماحول کچھ عجیب لگا پر اُسے مزہ آرہا تھا۔ نیم تاریک خوابناک ماحول، ہلکی پھلکی موسیقی، مترنم آوازوں اور بہترین ریفریشمنٹ سروس کی بدولت یہ جگہ Relaxationکا سامان رکھتی تھی۔

شیشہ کا کش لیتے ہی اُسے بہت اچھا لگا۔ 22سالہ ریحان یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اِس فینسی حقّہ کا ایک کش سو سگریٹ پھونکنے کے برابر ہے پر وہ اِس خیال کو جھٹکتے ہوئے پھر عاصم سے مخاطب ہوا۔

”یہاں تو لڑکیاں بھی شیشہ پی رہی ہیں۔ ایک مسلمان ملک میں کم از کم ایسی بیرونی تفریح کی گنجائش نکلنی چاہیے ورنہ جذبات و احساسات کے اظہار کی قید میں نوجوانوں کی تخلیقی سرگرمیاں ماند ہو سکتی ہیں۔ نوجوانوں کو زندگی کا لطف اٹھانا چاہےے۔ اب یہ لطف صرف پارک نہیں دیتے۔ پارک میں جاگنگ ہو سکتی ہے واک ہو سکتی ہے پر نوجوان لڑکے لڑکیاں آزادانہ ہر موضوع پر بات چیت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ پارک گھٹن زدہ ماحول کا منظر پیش کرتے ہیں۔“

عاصم نے ریحان کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا۔
”بلکل یہ ماحول کتنا رومان پرور ہے۔“

ریحان سگریٹ کے بعد شیشہ کا شوقین ہوگیا۔ شیشہ کے ہوٹلوں میں جانا اب اس کا معمول تھا۔ بات یہاں ختم نہ ہوئی نام نہاد آزادی، اپنا آپ معاشرے میں منوانے کی خواہش میں وہ شراب پینے کو بھی عیب نہ سمجھتا تھا۔ اُس کی صحت دن بدن خراب ہوتی جارہی تھی۔ ریحان کی امّاں کو اپنے بیٹے کی سرگرمیوں پہ شبہ ہوا تو گھر سے جیب خرچ کا سلسلہ روک دیا گیا۔ اب ریحان نے ابّا کی جیب سے پیسے چرانے شروع کر دےے۔ اِس نوجوانی کے نشے کا خمار اُسے ہیروئن کی سگریٹ تک لے گیا۔

وقت گزرتا جا رہا تھا۔ ریحان اب چوبیس سال کا ہو گیا تھا۔ لیکن زندگی کے ہنگاموں سے دور ہسپتال کے ایک کمرے میں بے بسی سے دیواروں کو گھور رہا تھا۔ نشے کی عادت نے اُس کے پھینپھڑوں اور گردوں کو ناکارہ بنا دیا تھا۔ ہسپتال کے کمرے کے باہر بیٹھی اُس کی امّاں کی سسکیوں کی آواز وہ سن سکتا تھا۔ اپنے ابّا کی اداس آنکھیں اُسے سینے میں خنجر کی طرح لگ رہی تھیں۔ پر صد افسوس وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا۔
وہ خود سے مخاطب تھا۔

”کیا یہ ہے ہماری نئی نسل کی آزادی۔ کیا آج کا نوجوان آگے بڑھنے کی جستجو میں صحت کا شعور، معاشرتی حدود سب بھول گیا ہے۔ آج سیل فونز، ایس ایم ایس، انٹرنیٹ چیٹنگ اور طویل گفتگو کے بعد بھی ہم تفریح کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اور یہ تفریح ہمارے جسم، روح اور دماغ کو کیسے چھلنی کر رہی ہے۔ ہم اِس سے بلکل ناواقف ہیں۔ کیا یہ ہے ہماری جدید معاشرت۔
بلا وجہ پریشان ہوتی ہیں“۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 315566 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.