ہماری ویب کے احباب یقینن اس بات
سے متفق ہونگے کہ کچھ لوگوں کی خواہش رہتی ہے کہ اسلاف کو چھوڑ کر انہیں ہی
اتھارٹی مان لیا جائے۔ یعنی یہ لوگ دین متین کی جو بھی تعبیر کریں وہ حرف
آخر اور جو اِس اُمت کے معتبر افراد نے پیش کیا اس پر خوب تنقید یا پھر خود
ساختہ فلسفہ و بے تکی لفاظی ان لوگوں کا وطیرہ ہوتا ہے۔ اور آخر میں وہی
گِھسا پِٹا جملہ “ہم جس شخص (چاہے وہ محدث ہو یا مفسر) کے قول کو قولِ رسول
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف جانتے ہیں اس کا رد کردیتے ہیں“ ۔۔۔۔۔ یہ
جملہ بظاہر بڑی خوبصورتی رکھتا ہے اور کہنے والا ادبِ حدیث کا پیکر نظر
آتا ہے جب کہ حقیقتِ حال یکسر اس سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ ایسا کہنے والا
دراصل یوں کہنا چاہتا ہے کہ "میری تحقیق وعلم و تقوی اعلی ہے لہذا میں اس (فُلاں)
شخص کی پیش کردہ تشریح کو نظر انداز بھی کرسکتا ہوں"۔ جب کہ ہم ہمیشہ ایسے
شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ “ تُم ہو کون
؟؟؟ اور دین اسلام میں تمھاری علمی حیثیت کیا ہے ؟؟؟ کیا تمھارا زہد و تقوی
محدیثین کرام سے زیادہ اور پاکبازی اُن سے اعلی ہے ؟؟؟ کیا تمھارا فہم اُمت
کے معتبر افراد سے بڑھ کر ہے ؟؟؟ ہر سوال کا جواب “نہیں“ میں اتا ہے ۔۔۔۔
مگر پھر بھی ہٹ دھرمی اور انا پرستی کا عالم یہ کہ یہ لوگ دینی معاملات پر
اپنے فہم کو “دلیل قطعی“ کے طور ثابت کرنے پر ہی تُلے رہتے ہیں اور اسی میں
فاش غلطیاں بھی کرجاتے ہیں لہذا ہم نے بہتر سمجھا کہ ایک ایسے ہی واقعے کو
مثال بنایا جائے تا کہ جس کہ نصیب میں ھدایت لکھی ہے اسے اس ھدایت کا تفکر
حاصل ہوجائے۔
ہمارا موضوع بحث "ہماری ویب" کا ایک آرٹیکل بنا جسے ایک صاحب نے اپنے تئیں
علم و دانش سے تعبیر کیا ہو مگر درحقیقت وہ مضمون اُن کی “فکری پسماندگی"
کا ہی عکاس رہا کیونکہ اس مضمون میں موصوف نے اپنی تعبیرات و توجیحات و
تشریحات ہی پیش کیں ۔۔ لہذا ہم ان کے مضمون کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کررہے
ہیں۔ موصوف اپنے مضمون کا آغاز اپنی دانست میں کچھ شبہات پیش کرکے اور پھر
بزعم خویش اس کے ازالے کے طور پر اپنا فاسد عقیدہ پیش کرتے نظرآتے ہیں۔
ملاحظہ کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"
١- پہلا شبہ:
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو تراویح کے لئے جمع
کیا تھا اور پھر فرمایا تھا:۔
(نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ ھٰذِہِ)یہ کتنی اچھی بدعت ہے! (بخاری)
ازالہ:
عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا،
کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر
اعتبار سے سنت تھا:
"
اس کے بعد موصوف اپنی فکر کو لفظوں میں ڈھال کرمزید ارشاد فرماتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"
اگر مذکورہ بحث سے اطمینان حاصل نہ ہو تو یہ قاعدہ ذہن نشین کرلیں کہ قول
صحابی ، قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حجت اور دلیل نہیں بن سکتا
ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے :
کُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَة {ہر بدعت گمراہی ہے }(صحیح مسلم)
"
قول حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی تشریح میں موصوف کا یہ فرمانا کہ
"یہاں انھوں (یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ) نے اس کا لغوی مفہوم
مراد لیا ہے ہمارے ذہن میں چند سوالات کا راستہ کھول گیا۔ ملاحظہ کیجئے
۔۔۔۔۔۔
سوال نمبر ایک : بدعت کی جامع تعریف اور اس کی اقسام بیان کیجئے ؟؟؟
سوال نمبر دو : اگر ہر بدعت گمراہی ہے تو کیا لغوی بدعت بھی گمراہی ہے ؟؟؟
سوال نمبر تین : مسلمان کے کون کون سے اعمال بغیر ثواب کے ہوسکتے ہیں جنھیں
ہم لغوی بدعت سے تعبیر کریں ؟؟؟
سوال نمبر چار : کیا نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے قول یا عمل مبارک سے
"پورا رمضان" امام کی اقتدا میں تراویح کی جماعت ثابت ہے؟ اگر نہیں، تو پھر
یہ عمل آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت کیسے کہلا سکتا ہے؟ اور اگر سنت
نہیں کہلائے گا تو پھر اسے کیا کہا جائے گا؟ (بشکریہ محترم احمد بھائی
لاھور کمنٹد ٠٨ جنوری)
سوال نمبر پانچ : اور اگر آپ قول عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی تشریح
"لغوی بدعت" کہہ کر کرتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں جناب کو یا تو یہ ماننا پڑے
گا کہ جماعت تراویح کا عمل ثواب سے خالی ہے، یا پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا
کہ بعض "بدعات" (اگرچہ لغوی ہی سہی) ایسی بھی ہوتی ہیں، جن پر عمل کرنا
باعث ثواب ہوتا ہے، حتی کہ بعض اوقات ان کا تعلق نماز جیسی اہم عبادات سے
جڑا ہوا بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کی رائے درکار ہے۔ (بشکریہ محترم احمد بھائی
لاھور کمنٹد ٠٨ جنوری)
سوال نمبر چھ : اگر یہ عمل "سنت" ہی ہے تو پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ
تعالیٰ عنہ جیسے جلیل القدر اور فقیہ صحابی کا اسے "بدعت" کہنا چہ معنی
دارد ؟؟؟ (بشکریہ محترم احمد بھائی لاھور کمنٹد ٠6 جنوری)
سوال نمبر سات : موصوف کی طرف سے بیان کردہ جزو حدیث کہ “ہر بدعت گمراہی
ہے“ پر اپنے ان الفاظ سے تشریح کرنا کہ “حدیث بالکل عام ہے، اس میں کسی قسم
کا استثناء نہیں ہے،لہذا اس عموم کے خلاف کسی صحابی کے قول کو دلیل نہیں
بنایا جاسکتا ہے۔“ کیا اس سے مراد جناب کی یہ ہے کہ اس جزو حدیث کا جو
مفہوم جناب نے لیا ہے اور جس پر قولِِ صحابہ کرام علیھم الرضوان کو
معاذاللہ عزوجل “مخالف حدیث ہوسکنے“ کا راستہ کھولا ہے وہ اتنا عام فہم تھا
کہ موصوف تو روحِ جزوِ حدیث جان گئے مگر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم معاذاللہ عزوجل نہ جان سکے۔۔۔۔۔۔ ناگوارِ خاطر نہ ہو تو اس نکتے کو
کلئر کیجئے۔
قارئین غور کیجئے کہ موصوف نے قول عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو "بدعت
لغوی" شمار کیا ہے حالانکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے کہیں
نہیں فرمایا کہ "ھذا بدعتہ لغویتہ"۔ بلکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بدعت
کے ساتھ "نعم" استعمال کیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے
اسے نعم البدعتہ یا بدعت حسنتہ کہا ہے۔ اس مفہوم کی شہادت قرآن عظیم میں
بھی موجود ہے۔
سورتہ "ص" 30:38 میں اللہ عزوجل فرماتا ہے "نعم العبد انہ اواب" مفہوم کہ
"(حضرت سلیمان علیہ السلام) کیا خوب بندہ تھا ، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ
کرنے والا تھا۔"
اس آیت میں لفظ "نعم" استعمال ہوا ہے۔ اس کا معنی لغوی نہیں ہوتا بلکہ اس
کا معنی "اچھا" یعنی "حسنہ" ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ
تعالی عنہ نے جسے "نعمت البدعتہ ھذا" فرمایا لغت ہی کے رُو سے اس کا معنی
بدعت حسنہ بنتا ہے۔ یعنی باعتبارِ لغت "بدعت لغوی" سے مراد "بدعت حسنہ" ہے۔
آگے چل کر موصوف ایک اور شوشہ چھوڑتے نظر آتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے ۔۔۔۔۔
"
٢- دوسرا شبہ:۔
بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنے والے دوسری دلیل کے طور پر حدیث ذیل
کو پیش کرتے ہیں۔
جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا خود اسے اس کا اجر ملے گا اور ان
تمام لوگوں کا اجر بھی جو اس کے
بعد اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ا جر میں کسی قسم کی کمی
واقع ہو۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کے اوپر اس کا
اپنا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر
اس کے کہ ان لوگوں کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ (صحیح مسلم)
"
اور اس کے بعد اپنے فہم حدیث کا یوں بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"
مذکورہ حدیث میں کسی نئے عمل کی ایجاد مراد نہیں ہے بلکہ کسی سنت ثابتہ پر
عمل یا کسی سنت متروکہ کا احیاء مراد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ
سنت حسنہ سے مراد کسی سنت پر عمل کرنا ہے، خصوصاً اس وقت جب لوگ اس سے غافل
ہوں یا اسے ترک کرچکے ہوں۔“ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ “اس حدیث میں
سَنَّ کے لفظ کو اختراع وایجاد کے معنی پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ
کسی عمل کا اچھا یا برا ہونا شریعت کی موافقت یا مخالفت ہی سے معلوم ہوسکتا
ہے۔اگر شریعت کے موافق ہے تو سنت حسنہ ورنہ سنت سیئہ۔
"
قارئینِ کرام ! ہم یہاں بھی موصوف کو تفکر کی دعوت دینا چاہیں گے کہ اپنی
پیش کردہ تشریح میں جس طرح انھوں نے لفظ “سنت“ کو حسنتہ اور سیئتہ میں
تقسیم کیا ہے اس سے ان کی کیا مراد ہے ؟؟؟ اگر تو لفظ “سنت حسنتہ" سے مراد
یہاں شرعی معنی میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے تو اسے ہرگز ہرگز
“حسنتہ اور سیئتہ“ میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سنت رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ حسنتہ ہی ہوتی ہے۔ اس کے سیئتہ ہونے کا تو سوال ہی
پیدا نہیں ہوتا۔
اور اگر یہاں پر لفظ “سنت“ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد
“نیا کام یا نیا راستہ“ ہی ہوسکتا ہے۔
لہذا جس طرح موصوف نے اپنے مضمون میں ایک عدد قاعدہ بیان فرمایا سو ہم بھی
قاءدہ ہی کی روشنی میں کچھ عرض کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو کہ “لفظ
سنت چونکہ سیئتہ کیٹگری کے ساتھ شرعی معنی میں استعمال نہیں ہوسکتا اور
بقول جناب کہ , لفظ بدعت ہوتا ہی سیئتہ کے اظہار کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم
جاننا چاہیں گے کہ حدیث مبارکہ میں تو “سنت حسنتہ اور سنت شیئتہ“ الفاظ ہی
استعمال ہوئے ہیں لہذا یا تو دونوں اطراف کے لفظ سنت کو شرعی معنی میں ثابت
کریں (جو کہ ناممکن ہے کہ ہم تمام مسلمان جانتے ہیں کہ شرعی سنت “سیئتہ"
نہیں ہوسکتی) اور اگر لغوی ثابت کرتے ہیں تو ایسی سنت اپنانے پر ثواب کی
امید رکھنے یا نہ رکھنے پر اپنا موقف پیش کریں۔ اور ساتھ ساتھ سنت ثابتہ پر
عمل یا کسی سنت متروکہ کا احیاء والے اپنے کمنٹس کو مندرجہ ذیل واقعے میں
تلاش کرکے "فِٹ" بٹھانے کی کوشش کریں۔ جناب کی رائے کا انتظار رہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
(نوٹ : حصہ آخر کل پوسٹ کیا جائےگا انشاءاللہ عزوجل) |