بین الااقوامی تناظر میں اگر ہم
دوہری شہریت کے معاملے پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ دنیا کے بیشتر
ممالک میں دوہری شہریت رکھنا مناسب عمل نہیں سمجھا جاتا بلکہ وہ افراد
جنہوں نے دوہری شہریت حاصل کی ہوئی ہے ان کے پاس سوائے ٹیکس بچانے کے دوسرا
کوئی معقول جواز بھی نہیں ہے بین الااقوامی تعلقات اور قوانین کے مطالعے سے
یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دنیاکے کسی بھی ملک میں بعض استثنائی حالات کو چھوڑ
کر ملک کے اعلی عہدوں پر صرف وہ شخض فائز ہوسکتا ہے جس کے پاس صرف اپنے ملک
کی شہریت ہو اور یہ شہریت بھی پیدائشی ہونہ کہ اختیاری ، تاہم پاکستان جیسے
ترقی پذیر ممالک میں دوہری شہریت کا حاصل کرنا دراصل معاشرے میں اپنے رتبے
کو مزید بلند کرنااور معاشی فوائد حاصل کرنے سے جڑا ہوا ہے لیکن جب معاملہ
کسی حساس اور ذمہ دار حیثیت پر فائز ہونے کا ہو تو یہ اجازت پاکستان کا
آئین صرف اس شخص کودیتا ہے جس کی وفاداری مملکت پاکستان سے جڑی ہو اور وہ
خالصتا پاکستانی شہریت اور قومیت کے حوالے سے دنیا میں جانا جاتا ہو۔
جہاں تک پاکستان میں شہریت کے حصول کا تعلق ہے تو اس بات کا ہم سب کو بہ
خوبی علم ہے کہ پاکستان کی تشکیل کے وقت بڑے پیمانے پر ہجرت کا عمل ہوا تھا
جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی چناں چہ
اس وقت کے اکابرین ملت نے قانونی موشگافیوں کو حل کرنے کے لئے ’’ پاکستان
سٹیزن شپ ایکٹ1951‘‘ تشکیل دیا جسے 13اپریل 1951میں دستور ساز اسمبلی نے
منظور کیا تھا مجموعی طور پر اس قانون کی 23شقیں ہیں اس قانون میں اب متعدد
ترامیم کی جاچکی ہیں اس قانون کی شق نمبر14میں واضح طور پر پاکستانی شہری
کو دوسرے کسی ملک کی شہریت اختیار کرنے کی ممانعت ہے تاہم اسی شق کے سیکشن
3 کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے 29اگست2002 کو ایک نوٹیفیکیشن کے
زریعے SROنمبر 581 (1)/2002جاری کیا جس کے تحت پاکستانی شہریوں کو16 مخصوص
ممالک کی دوہری شہریت حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے ان ممالک میں برطانیہ
اٹلی، فرانس ، بیلجیم،آئس لینڈ، آسٹریلیا،نیوزی لینڈ، سوئیڈن، ریاست ہائے
متحدہ امریکہ، آئرلینڈ، نیدرلینڈ،سوئٹزرلینڈ، کینیڈا، مصر، اردن اور شام
شامل ہیں تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے شہری مذکورہ ممالک میں سے کسی
ملک کی شہریت حاصل کرلینے کے باوجود ان ممالک کے کسی بھی اعلی منصب پر فائز
نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ وہ پاکستان کی شہریت سے دستبردار نہیں ہوجاتے۔
اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھرمیں ایک بہت بڑی تعداد ایسے افراد کی ہے جو
اپنے ملک کی شہریت برقرار رکھنے کی خاطر دوسرے ملک کی شہریت سے دست بردار
ہوگئے یا دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنا پسند نہیں کیا مثلا2006میں لندن کے
مئیر اور کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابقہ ممبر پارلیمنٹ بورس
جانسن نے امریکی شہریت ترک کردی تھی حالاں کہ ان کی پیدائش امریکہ کی تھی
اس لحاظ سے وہ پیدائشی طور پر امریکی تھے 2006سے2008تک کینیڈین پارلیمنٹ
میں قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والے رہنما Stephane Dionنے اعلان
کررکھا ہے کہ آئندہ الیکشن میں وہ اگر وزیراعظم بن گئے تو اس سے قبل وہ
اپنی ماں کی جانب سے ملنے والی فرانسیسی شہریت ترک کردینگے مشہور سماجی
رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے چار بانیوں میں سے ایک تیس سالہ Eduardo
Saverinنے بھی ٹیکس سے بچنے کے لئے ستمبر2011میں امریکی شہریت ترک کی ہے
اسی طرح لتھوانیا کے سابقہ صدرValdas Adamkusنے1998میں لتھوانیا کا صدر
بننے کے لئے امریکی شہریت سے دست برداری کا اعلان کیا تھاتائیوان کے سابق
صدرMa Ying-jeouکی شوری میں بطور مشیر کام کرنے کے لئے 68سالہ خاتون
سیاستدانChi Cheng نے 2009میں امریکی شہریت ترک کرکے پارلیمنٹ میں زمہ
داریاں سنبھالیں تھیں اسی طرح کینیڈا کی 27ویں خاتون گورنرجنرل اور کمانڈر
ان چیف آف آرمڈ فورسز Michaella Jeanنے دونوں عہدے سنبھالنے سے قبل25ستمبر
2005کو فرانس کی شہریت سے دستبرداری کا اعلان کیا تھا اس کے علاوہ امریکہ
میں شہری حقوق کی تحریک کے بانیوں میں سے ایکWilliam Edward Burghardt نے
بھی1963میں پچانوے برس کی عمر میں بطور احتجاج امریکی شہریت ترک کر کے
گھانا کی شہریت اختیار کرلی تھی ان مثالوں کے علاوہ مختلف ممالک کے بائیس
مشہور سیاستدانوں نے امریکہ کی شہریت باضابطہ طورپر ترک کی ہے ان میں جمیکا
کے چار،تائیوان کے تین، یوکرائن اور اسرائیل کے دو دو اور ڈومینیکن ری پبلک،
اسٹونیا، انڈیا، بلیز،آسٹریلیا، پولینڈ،گرینیڈا،یونان، بہاماس، بلغاریہ کے
ایک ایک سیاستدان نے امریکی شہریت ترک کی ہے واضح رہے ان ساستدانوں میں سے
بیشتر کا تعلق غریب ممالک سے تھا جنہوں نے قومی حمیت اور غیرت کو امریکی
شہریت پر فوقیت د ی تاہم کسی شخص کی حب الوطنی کا پیمانہ دوہری یا اکہری
شہریت کو نہیں بنایا جاسکتا کیوں کہ اکثرمواقع پر اگر کسی ملک کی حکومت نے
دوسرے ملک پر جارحیت کی ہے تو جارح ملک کے بہت سے شہریوں نے اس حملے کی
مخالفت کی ہے جیسے امریکہ کے عراق پر حملے اور افغانستان میں مداخلت پر
ہزاروں امریکی شہری اس جنگ کے مخالف ہیں حالاں کہ انہو ں نے امریکہ کے لئے
ہتھیار اٹھانے اور اپنے ملک سے حب الوطنی کا حلف اٹھایا ہوا ہے اسی طرح
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے شہری بھی
دوطبقوں میں بٹے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ نے اپنے ہی ملک کے فوجیوں کے خلاف
محاذ گرم کیا ہوا ہے جب کہ ان تمام شہریوں نے اپنے ملک سے وفاداری کا حلف
بھی اٹھایا ہوا ہے ۔
البتہ پاکستان کے حوالے سے قابل افسوس بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے وہ
اراکین پارلیمنٹ جن کے پاس صرف پاکستان کی واحد شہریت ہے ان کا بھی ملکی
اور عوامی خدمت کا ریکارڈ قابل تحسین نہیں ہے جس میں موجودہ صدر اور وزیر
اعظم سے لے کر دو دفعہ کے سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی شامل ہیں لہذا کہا
جاسکتا ہے کہ عوامی خدمت کے لئے دوہری شہریت یا محض واحد شہریت اہم نہیں
ہوتی بل کہ ملک کی خدمت کا جذبہ اہم ہوتا ہے جو بدقسمتی سے ہمارے
سیاستدانوں میں سے تیزی سے مفقود ہوتا جارہاہے اور اگر یہی رویہ رہا تو
خدانحواستہ ہم واحد شہریت یا دوہری شہریت کے بجائے Stateless شہریت کے حامل
نہ ہوجائیں۔
چند اہم ممالک اور دوہری شہریت کی صورت حال
جاپانی شہریوں کو یکم جنوری1985سے قبل دوہری شہریت اختیار کرنے کی اجازت
تھی تاہم یہ سہولت اب منسوخ کی جاچکی ہے اسی طرح آسٹریا میں بھی 1965میں
ایک قانون کے تحت دوہری شہریت رکھنے کے عمل کو منسوخ کیا جاچکاہے جب کہ
بیلجم میں 28جون1984اور پھریکم جنوری 1992میں ایک آئینی ترمیم کے زریعے
اپنے شہریوں پردوہری شہریت ممنوع قرار دی جاچکی ہے ڈنمارک کے قوانین میں ان
کا شہری چند مخصوص حالات کے علاوہ دوہری شہریت نہیں رکھ سکتا ہالینڈ میں
شہریت کے قوانین 1984کے رائج کردہ ترامیم کے ماتحت ہیں جس میں درج ہے کہ ڈچ
شہری دوہری شہریت نہیں حاصل کرسکتاجرمنی کا شہری بھی دوہری شہریت حاصل نہیں
کرسکتا تاہم یکم جنوری2000میں ترمیم کی گئی ہے کہ جرمن شہری 23سال کی عمر
تک دوہری شہریت رکھ سکتا ہے اور اگر شادی کی بنیاد پر دوہری شہریت حاصل ہو
بھی جائے تو اس شہری کو جرمنی کا قانون ووٹ دینے کا اختیار نہیں دیتا16اگست
1992کو کی جانے والی ایک ترمیم کے تحت اٹلی کے شہری صرف امریکہ کی شہریت کے
صورت میں دوہری شہریت رکھ سکتے ہیں اس کے علاوہ اٹلی کے صدر کو صرف یہ
اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے ملک کے کسی بھی شہری کی شہریت منسوخ کرسکتا ہے
اسپین کے شہری جنوبی امریکہ میں واقع ممالک کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ
بیک وقت دوہری شہریت نہیں رکھ سکتے امریکہ میں بھی صرف وہ شخص صدر بن سکتا
ہے جس کی پیدائش امریکہ کی ہو اس حوالے سے موجودہ صدر بارک اوباما پر بھی
اعتراضات کئے جاتے رہے ہیں واضح رہے امریکی قوانین کے تحت اگر کوئی شخص
امریکی شہریت ترک کرتا ہے تو اس عمل کا اندارج’’ فیڈرل رجسٹر ‘‘میں کیا
جاتا ہے اس رجسٹر کے اعداد وشمار کے مطابق2010میں 1485افراد نے امریکی
شہریت ترک کی ہے جب کہ 2009میں یہ تعدادنصف تھی واضح رہے اس تعداد کے علاوہ
ان گنت ایسے افراد بھی ہیں جو بغیر کسی اطلاع کے امریکہ کی شہریت ترک کرکے
اپنے آبائی ملک چلے جاتے ہیں اسی طرح ہندوستان کا آئین بھی اپنے شہری کو
صرف ہندوستان کی شہریت رکھنے کا پابند کرتا ہے کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل
کرنے سے قبل ہندوستانی شہری کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہندوستان کی شہریت سے
دست بردار ہو بصورت دیگر اس کی شہریت خودبہ خود منسوخ ہوجاتی ہے تاہم بعض
مخصوص حالات میں ہندوستانی شہری دوہری شہریت کے لئے قانونی طور پر Overseas
Citizens of Indiaکی مخصوص اصطلاح استعمال کرسکتے ہیں عوامی جمہوریہ چین کے
قومیت کے قانو ن کی شق نمبر 3 اپنے شہروں کو دوہری شہریت اختیار کرنے کی
سخت ممانعت کرتی ہے اسی طرح نیپالی شہری کی بھی دو ہری شہریت اختیار کرنے
پر خودبہ خود نیپالی شہریت منسوخ ہوجاتی ہے جب کہ انڈونیشیا کا شہری بھی
صرف واحد شہریت رکھ سکتا ہے شمال مغربی یورپ میں واقع ملک آیس لینڈ میں
اگرچہ شہریت مل جاتی ہے لیکن ووٹ کا اختیار نہیں ملتاجنوبی کوریا کے شہری
یکم جنوری2011سے قانونی طور پر دوہری شہریت رکھ سکتے ہیں 1977کے بعد سے
کینیڈا میں دوہری شہریت اختیار کرنے کی اجازت دی گئی ہے یورپی یونین ممالک
کے تمام شہری ایک دوسرے کی شہریت اختیار کرسکتے ہیں اسطرح وہ بیک وقت کئی
ممالک کی شہریت رکھنے پر قادر ہیں ترکی اور پولینڈ میں قانونی طور پر دوہری
شہریت اختیار کرنے کی اجازت ہے۔
سروے رپورٹ
2001میں سوئٹزرلینڈ کی جامعہLucerneکے شعبہ عمرانیات اور سماجی علوم کے تحت
کئے گئے بین لااقوامی سروے کے مطابق دنیا کے 54ممالک اپنے شہریوں کو واضح
طور پر دو ہری شہریت اختیار کرنے کی ممانعت کرتے ہیں جب کہ 72ممالک ایسے
ہیں جہاں پر دوہری شہریت اختیار کرنے کی اجازت ہے اس کے علاوہ 24ممالک ایسے
بھی ہیں جو دوہری شہریت کے قوانین میں تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں ان ممالک میں
پاکستان بھی شامل ہے سروے میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ 14ممالک ایسے ہیں جو
صرف اپنی نسل یا علاقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو دوہری شہریت کی اجازت
دیتے ہیں مثلا متحدہ عرب امارات وغیرہ جب کہ 25ممالک ماضی میں مخصوص
جغرافیائی اور سیاسی حالات میں دوہری شہریت دیتے رہے ہیں۔
شہریت کا حصول اور طریقے
جہاں تک شہریت حاصل کرنے کے طریقوں کا تعلق ہے تو اس کے بہت سے طریقے ہیں
تاہم بنیادی طور پر شہریت کے حصول کے لئے تین ممکنہ طریقے رائج ہیں جس میں
سے ایک طریقہ تو نہایت واضح اور قدرتی اصولوں سے ہم آہنگ ہے اسے پیدائشی
یاJus Soliاصول کہا جاتا ہے اس اصول کے تحت پیدا ہونے والا شحض خواہ اس کے
والدین کا تعلق کہیں سے بھی ہو وہ اس سرزمین کا شہری کہلاتا ہے جہاں اس کی
پیدائش ہوئی ہے دوسرا طریقہJus Sanguinisکہلاتا ہے جس میں شہریت کا طالب
شخص اپنی پیدائشی سرزمین کی شہریت کے علاوہ والدین میں سے کسی ایک کی دوسرے
ملک کی شہریت ہونے کے باعث اس ملک کی شہریت لے سکتاہے اورتیسری صورت
درخواست Naturalisationکی ہے اس حوالے سے ہر ملک کے اپنے تقاضے اور قوانین
ہیں جس میں رہائش کا دورانیہ اور اس دوران مقامی قوانین کا احترام
اورپاسداری کی خاصی اہمیت ہے ۔ |