تعلیم ترقی کی کنجی لیکن کنجی کا حال!

تعلیم ہی ترقی کی کنجی ہے اور اس کے بدولت قومیں بام عروج پر پہنچتی ہیں یہ وہ خوبصورت جملہ ہے جو ہر جگہ پر سننے کو ملتا ہے اور پختونخوار میں ہم جیسے کمی کمینوں پر مسلط حکمرانوں کے دعوے کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے یہ دعوے کس حد تک درست ہیں اس کا اندازہ گذشتہ دنوں اپنے ہی گائوں کے ایک مسجد سکول کو دیکھنے کے بعد ہوا کہ آفیسر میس میں کارپٹڈ ماحول میں بیٹھ کر ہمارے حکمران جتنی بکواس میڈیا کے سامنے کرتے ہیں حقیقت میں اس حوالے سے کچھ بھی نہیں - خدا کی زمین پر اپنی بدمعاشی کا دعوی کرنے والے پارٹی کے رہنماء کے اپنے حلقہ یعنی این اے سیون اور پی کے 19 جس میں انہی کی اپنی بدمعاشی ہے کی سکول کی حالت زار ایسی ہے جسے دیکھ کر نہ صرف اپنے آپ سے شرم آتی ہیں بلکہ کمی کمینوں پر مسلط حکمرانوں پر تف کرنے کو دل کرتا ہے اگر کسی کو حکومت کی تعلیم کی بہتری کے حوالے سے دئیے جانیوالے بیانات کاحقیقی حال دیکھنا ہے تو وہ گورنمنٹ مسجد پرائمری سکول عبدالاکبر خان عمرزئی کا رخ کرلے مسجد کنارے بننے والے اس سکول میں طلباء و طالبات کی تعداد 140ہے جن میں 60کے قریب طالبات ابھی بھی پڑھ رہی ہیں نرسری سے چہارم تک سکول میںبچوں کو تعلیم دی جاتی ہیں 1979 سے بننے والے اس سکول میں ہر مہینے بچوں کی تعداد کم ہورہی ہیں جس کی وجہ یہاں پر بننے والے غیر سرکاری سکول ہیں اور والدین اپنے بچوں کو سرکاری سکول سے اٹھا رہے ہیں کیونکہ ان کے بچوں کو تعلیم تو مل رہی ہیں لیکن ان کے بچوں کو تحفظ حاصل نہیں-

دہشت گردی کی لہر میں اپنے لئے سیکورٹی کے نام پر لاکھوں روپے اڑانے والے ان حکمرانوں کو غریب غرباء کی بچوں کا اتنا خیال ہے کہ اس پرائمری سکول میں بنیادی سہولیات تک موجود نہیں نرسری سے لیکر کلاس چہارم تک پڑھنے والے ان بچوں کیلئے پینے کا پانی تک موجود نہیں نہ ہی سکول کی چار دیواری ہے جس کی وجہ سے سکول ختم ہونے کے بعد یہاں پر ہیروئنچی ہیروئن اور چرس پیتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی کبھار سکول میں قیمتی چیز ٹاٹ یا چاک کا ڈبہ چوری کرکے لے جاتے ہیں بچے پھٹے پرانے ٹاٹوں پر پڑھ رہے ہیں سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ان معصوم بچوں کیلئے باتھ روم کی سہولت تک نہیں سکول کے بچوں کے بقول وہ سکول کے اطراف میں واقع مقبرے میں جا کر رفع حاجت کرتے ہیں جس پر مقامی لوگ ان بچوں کو مارتے ہیں لیکن شرم کا مقام ہے کہ ساٹھ طالبات جو اس سکول میں پڑھ رہی ہیں کیلئے کوئی واش روم تک نہیں اسی باعث ان طالبات کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ یہی طالبات ہی بیان کرسکتی ہیں - ملالہ کے نام پرخیرات زکواة جمع کرنے والے حکمران لڑکیوں کی تعلیم کے دعوے تو بہت کرتے ہیں اور طالبا ن کو تعلیم دشمن قرار دیتے ہیں لیکن ان کی اپنی پالیسی تعلیم کے حوالے سے کیا ہے اس سکول کی حالت زار دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ میڈیا پر بیان دینا الگ ہے اور حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ہر شہری کو تعلیم کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے یہ وہ سوال ہے جو اس سکول کے معصوم بچے ان کے حلقے پر مسلط خدا ئی خوارکے لیڈروں سے کرنا چاہتے ہیں -

گورنمنٹ مسجد پرائمری سکول عبدالکبر خان عمرزئی میں بچوں کیلئے بلیک بورڈ تک نہیں چار اساتذہ کیلئے کرسیاں تک موجود نہیں سکول میں کرسیاں اور بلیک بورڈ دوسرے سکولوں سے عاریتا لی گئی ہیں اورجب سکول بند ہوجاتا ہے تو یہ سامان اساتذہ چوری کے ڈر کے اپنے گھروں کو لے جاتے ہیںکیونکہ نہ تو سکول کی چار دیواری ہے اور نہ ہی سکول کا چوکیدار ہے اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والے اس سکول کو سالانہ دو ہزار روپے دئیے جاتے ہیں جس میں سکول کے بچوں کیلئے پنسل اور شاپنر بھی خریدے نہیں جاسکتے حالانکہ قانونا پی ٹی سی فنڈز سالانہ کے حساب سے آٹھ ہزار روپے بنتا ہے لیکن یہ چھ ہزار روپے کہاں غائب ہورہے ہیں اس کا جواب تو اس محکمہ تعلیم میں تعینات مگر مچھ ہی دے سکتے ہیں جو کمی کمینوں کا ٹیکس بھی ان معصوموں کو نہیں پہنچا رہے حالانکہ یہی مگر مچھ ہر تین ماہ بعد یہاں پر آکر انسپکشن بھی کرتے ہیں اور حالت زار بھی دیکھ لیتے ہیں لیکن یہاں پر چونکہ غریب غرباء کے بچے اور بچیاں پڑھ رہی ہیں اس لئے سکول میںکھانے پینے کے بعد ڈکار لیکر دفتر آجاتے ہیں اور پھر انہیں مسجد میں پڑھنے والے بچے یاد بھی نہیں رہتے یہ الگ بات کہ انہیں یاد دہانی کیلئے درخواستیں بھی سکول کے اساتذہ کی طرف سے دی جاتی ہیں لیکن وہ بھی دفاتر میں ردی کی ٹوکریوں کی نذر ہورہی ہیں- سب سے خطرناک بات سکول کی موجودہ ہ عمارت ہے جو بقول واقفان حال کہ اس سکول پرعلاقے کے دو خوانین کا مسئلہ ہے قبضہ گروپ کی وجہ سے حکومت نے بھی آنکھیں بند کرلی کہ کون خان خوانین کو کمی کمینوں کیلئے ناراض کرسکتا ہے غریب لوگ اور ان کے بچے تو ویسے بھی ووٹ کیلئے ضروری ہیں باقی حکمرانی کیلئے انہیں خوانین کی ضرورت ہے سو اس حوالے سے بھی کوئی کارروائی نہیں کی جارہی -

یہ خوانین کو سپورٹ کرنے والے اس علاقے کا حال ہے جہاں پر خدا کی زمین پراپنی بدمعاشی کا دعوی کرنے والے حکمران اگلے انتخابات کیلئے سرکاری مقامات پر جلسے کرکے دعوے کرتے ہیں کہ انہوں نے دودھ اور شہد کی نہریں اس صوبے میں بہادی ہیں جس کی وجہ سے کمی کمین اور ان کی اولادیں عیاشیوں میں مصروف عمل ہیں حالانکہ دہشت گردی کی وجہ سے تین ہزار سے زائد سکول جو مختلف علاقوں میں تباہ ہوگئی ہیں ان کی دوبارہ آباد کاری کا عمل بعض علاقوں میں تو شروع ہی نہیں ہوا اور جن جگہوں پر شروع کیا گیا وہاں پر اتنی سست روی کا شکار ہے کہ ان علاقوں کے بچوں مجبورا ہاتھوں میں قلم کے بجائے کلاشنکوف اٹھانے پر مجبور ہونگے ایسے میں تعلیم ترقی کی کنجی ہے والا بیان تو میڈیا کی حد تک اچھا ہے لیکن اس کنجی کی حالت زار کیا ہے صرف اسی ایک سکول سے اندازہ کیا جاسکتا ہے-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498354 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More