طاہر القادری، جنہیں لفظ مولانا
یا مولوی سے چڑ ہے جیسا کہ خود انہوں نے ملک ریاض کو منع کیا، انہیں دوسروں
کے دل جیتنے کا فن کیسا آتا ہے اس کا اظہار وہ لانگ مارچ کے شرکا سے خطاب
کے دوران کرتے رہے ہیں، اسلام آباد کو کربلا کہتے رہے کوفہ کسے کہا جائے؟
یہ نہیں بتایا، مجھے پیشہ صحافت اختیار کیے ہوئے آج چھبیس سال ہوچکے ہیں یہ
ان دنوں کی بات جب طاہر القادری نے منہاج القرآن کی نئی نئی بنیاد رکھی تھی
اور وہ بار بار یہ بات کہتے تھے کہ مہناج القرآن کو سیاسی مقاصد کے لیے
استعمال نہیں کروں گا ان کی بات اور منہاج لقرآن سے متعلق اپنے پیروکاروں
سے کیا جانے والا یہ وعدہ جناب مجیب الرحمن شامی کے میگزین قومی ڈائجسٹ کے
انیس سو چھیاسی کے شمارے میں بطور ریکارڈ دیکھا جاسکتا ہے جس میں ان کا نٹر
ویو شائع ہوا ہے۔ انٹر ویو لینے والے محبوب جاوید اور شاہد تنویر قیصر ہیں،
طاہر القادری جھنگ میں پیدا ہوئے، وہاں مدرسے میں تعلیم حاصل کی بعد ازاں
لاہور چلے آئے جہاں وہ اس زمانے کے ہرچھوٹے بڑے اخبار نویس سے رابطہ کرنا
اپنی پیشہ رانہ مجبوری سمجھتے تھے ان کا تعلق جھنگ کے بعد (لائل پور) آج
جسے فیصل آباد کہتے ہیں، سے بھی رہا ہے آج سے تئیس سال پہلے کی بات ہے ایک
روز صبح گھر میں فون کی گھنٹی بجی تو دوسری جانب سے آواز آئی طاہر القادری
بول رہاہوں آپ کیا کر رہے ہو، جواب دیا کہ دفتر جانے کی تیاری کر رہا ہوں
اور اس وقت ناشتہ کر رہاہوں پوچھنے لگے کہ ناشتے میں کیا لیتے ہو، انہیں
بتایا کہ کچھ خاص نہیں بس روٹی، چائے اور دہی وغیرہ، بولے مجھے بھی یہی
ناشتہ پسند ہے بس آپ دفتر جانے سے پہلے مجھ سے مل کر جائیے گا۔ میں دفتر
جانے سے قبل ان سے ملنے گیا تو اپنے کمرے میں بٹھایا اور ایک تحفہ پیش کیا،
اور ساتھ ہی اپنے ملازم سے کہا کہ کھجوریں بھی لے آﺅ مجھے کہنے لگے کہ
جنوبی افریقہ گیا تھا اور واپسی پر عمرہ کرکے آیا ہوں یہ کھجوریں اور تحفہ
خاص طور پر آپ کے لیے لے کر آیا ہوں اور پھر ملازم سے کہا کہ آب زم زم بھی
لے آﺅ جس طرح کہا ہے اسی طرح لے کر آنا ملازم مٹی کے پیالے میں آب زم زم لے
کر آیا کہنے لگے کہ یہ پیالہ مدینہ منورہ کی مٹی سے بنا ہے یہ مٹی میں اپنے
ساتھ لے کر آیا تھا اور اس مٹی سے پیالہ بنانے کے لیے کمہار کو اپنے گھر
بلایا تھا اور آپ کو اسی پیالے میں آب زم زم پیش کر رہا ہوں۔ علامہ صاحب نے
ان دنوں اور بہت سے لوگوں سے یہی بات کی۔ یہ ساری بات لکھنے کا مقصد صرف یہ
ہے کہ جناب طاہر القادری، جنہیں آج شیخ الاسلام کہا جارہا ہے، کن کن حالات
سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں اور اپنے ملنے والوں کو کیسے اپنا معتقد اور
گرویدہ بنالتے ہیں۔لائل پور جسے آج فیصل آباد کہا جاتاہے، وہاں یہ مولانا
سردار احمد کے مدرسے کے بھی پیروکار اور عقیدت مند رہے ہیں میرا ننہال بھی
حضرت مولانا سردار احمد رحمت اللہ علیہ کے عقیدت مندوں میں شامل رہا ہے۔
اور آج بھی ہیں مگر طاہر القادری جو کچھ آج کر رہے ہیں اس کا ان بزرگوں کی
تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور
انتہائی قیمتی کنٹینر، جس میں پنج ستارہ ہوٹل کی تمام سہولتیں موجود ہیں،
سے لانگ مارچ کے شرکا سے مخاطب ہیں۔ ایک دھرنا انیس سو چھیانوے میں محترم
قاضی حسین احمد نے بھی دیا تھا، جن پر پولیس نے مری روڈ پر لاٹھیاں برسا کر
ان کا سر پھوڑ دیا تھا اور چار نوجوان پولیس کی اندھی گولیوں کا نشانہ بنے
تھے اور اس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر نے اسلام آباد آنے والے ہر
راستے کو بند کردیا تھا اور قاضی حسین احمد کو گرفتار کرلیا تھا قاضی صاحب
جب اسلام آباد میں داخل ہوئے تو اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر کامران ظفر نے ان
پر پستول تان لیا تھا جسے بعد میں پیپلز پارٹی کے سینٹرل سیکرٹریٹ کا
انچارج بنا دیا گیا تھا مگر آج نہ قاضی حسین احمد ہیں اور نہ نصیر اللہ
بابر، آج کا دھرنا طاہر القادری کا ہے اور وزیر داخلہ رحمن ملک اس دھرنے کی
سرپرستی کر رہے ہیں اور اس دھرنے کی میڈیا مہم کے لیے ساری پے منٹ دبئی میں
ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دو ارب روپے کے اخراجات اس دھرنے پر آئے ہیں۔
بلیو ایریا، نیشنل اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر اور کاروباری سینٹرز
ہیں، میں ہر روز ایک سے ڈیڑھ ارب روپے کا کاروبار ہوتا ہے اس دھرنے کے باعث
تاجروں کا دس ارب سے زائد کا نقصان ہوچکا ہے اس دھرنے کے لیے کون قیمے والے
نان پہنچاتا رہا، کون چائے لاتا رہا یہ سب کچھ وزیر داخلہ کے علم میں ہے اس
کے باوجود خاموشی اختیار کیے رکھی، حیرت ہے اور یہ کیسا دھرنا ہے جو وزیر
داخلہ کی مرضی سے دیا گیا اور سی ڈی اے نے اس کے لیے سہولتیں فراہم کی ہیں
اور اس کے باوجود طاہر القادری کہتے ہیں یہ نظام ختم کردیا جائے۔ تاریخ کی
کوئی کتاب ایسی نہیں جس سے یہ بات ثابت کی جاسکے کہ حسین کے قافلے کو کوفہ
والوں نے سہولتیں فراہم کی ہوں۔ طاہر القادری چونکہ شعلہ بیان مقرر ہیں
لہذا وہ جوش خطابت دکھارہے ہیں، مقصد صرف توجہ حاصل کرنا ہے کیا اس سے ان
کے کھوئی ہوئی کریڈیبلٹی واپس آجائے گی؟بہرحال کھیل تو اب ختم ہوا۔ |