بے روانگی

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں رشوت، بدعنوانی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے ملک کے اکثر محکمے کرپشن کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام سے مختلف شکل میں کئی ٹیکس لئے جا رہے ہیں مگر سہولتیں فراہم نہیں کی جاتی ہی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اتنے ٹیکس وصول کرنے کے باوجود دوسرے ممالک سے قرض لئے جاتے ہیں۔ جو عوام کی بہتری پر کم اور حکومت کی شاہ خرچیوں پر خرچ ہو جاتے ہیں کیا ہم کچھ عرصہ کے لئے اپنے اخراجات میں کمی نہیں لاسکتے ۔ اگر ہم اور حکومت اپے اخراجات میں کمی کر دیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں اور قرضوں کا بوجھ بھی کم ہوسکتا ہے۔ اس وقت اندرونی، بیرونی قرض مسلسل لیتے چلے جانے سے اور حقیقی پیدواری مقاصد کی بجائے شاہ خرچیوں کی نذر کرتے رہنے کی روش وطن عزیز کو اس مقام پر لے آئی ہے جہاں 18 کروڑ کی آبادی میں سے ہر شخص 80 ہزار 894 روپے کا مقروض نظر آرہا ہے۔ جبکہ 2008 سے قبل قرضوں کا یہ بوجھ 37 ہزار724 روپے فی کس تھا۔ اسٹیٹ بنک جس ملک میں غربت کی شرح حکومتی رپورٹ کے مطابق آبادی کے 58 فیصد تک جا پہنچی ہو۔ اور جسے خوراک کے عدم تحفظ کا بھی سامنا ہو۔ اس کیلئے یہ صورت حال کسی طرح بھی قابل رشک نہیں ہے۔ بلا شبہ قرضے ترقی یافتہ ممالک بھی لیتے ہیں اور امریکہ کو دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک کہاجاتاہے مگر یہ قرضے پیداواری مقاصد پر صرف کئے جاتے ہیں۔ زمین میں چھپے ہوئے تیل اور معدنیات کے خزانے نکالنے زراعت کو ترقی دینے صنعتی اور سیاسی میدانوں میں تحقیق کے ذریعے نت نئی چیزیں دنیا کے سامنے لانے ناقابل علاج تصور کئے جانے والے امراض کا علاج دریافت کرنے کائنات کے چھپے ہوئے رازوں کو کھوج نکالنے اور عام آدمی کے فائدے کے لئے ان سب چیزوں کو بروائے کار لانے سے ہی معاشرے ، ملک اور دنیاکو وہ سہولتیں ملی ہیں جن کا چند عشروں بلکہ برسوں پہلے تک تصور بھی ممکن نہیں تھا مگر یہاں سب الٹ ہے اس کی وجہ حکمران نہیں ہم ہیں، ہمیں کسی سیاستدان ، جنرل بیوروکریٹ کو کرپٹ کہنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ ہم خود بحیثیت پاکستانی عوام جھوٹ کا ناشتہ رشوت کا لنچ اور نا انصافی کا ڈنر کرتے ہیں ہم خود بطور کلرک، دکاندار، ڈاکٹر، صحافی، طالب علم جھوٹ اور سفارش کو فروغ دیتے ہیں۔ پھر ہم اپنی حکومت سے بھلائی کی توقع کیونکر کر سکتے ہیں؟ اس لئے دوسرے لوگوں اور سسٹم کو بدلنے پہلے ہمیں اپنے آپ کو بدلنا پڑے گا۔
Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 132 Articles with 131020 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.