رات کا ایک بج رہا تھامیں اپنے کمرئے میں
لیٹاہوا ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ اچانک میرئے صاحبزادے کمرئے میں داخل ہوئے،
میں پریشان ہوا کیونکہ اسوقت تو وہ سوچکے ہوتے ہیں، ابھی میں کچھ کہتا کہ
اس نے کہا ابو میں گاڑی میں سی این جی بھروانے جارہا ہوں، بیٹا آپ نے ٹائم
دیکھا ہے؟ میرئے سوال کے جواب میں اُس نے مسکراتے ہوئے میرئے قریب رکھے
ہوئے اخبار میں سے ایک تصویر جس میں سی این جی بھروانے والوں کی ایک لمبی
لاین لگی ہوئی تھی میرئے سامنے کردی اور بولا ابو دن میں میرئے لیے مشکل
ہوتا ہے کہ دفتر سے نکل سکوں ، مجبورا اسکو جانے دیا ، وہ ایک گھنٹے کے بعد
واپس آیا تب سکون ملا، یہ تو صرف میری کہانی ہے جس میں ایک شخص اپنی نیند
کو چھوڑ کر آدھی رات کے بعد سی این جی کی تلاش میں نکلتا ہے جبکہ اس کا
پورا گھر اسکے انتظارمیں ہوتا ہے۔ مگر یہاں تو پورا پاکستان ہی کہانیوں سے
بھرا ہوا ہے کہیں کوئی رکشہ ڈرائیورسنا رہا ہے کہ ہمارا گذارہ روزانہ کی
آمدنی پرہوتا ہے، رکشہ کا کرایہ ادا کرتا ہوں پھر جو بچ جاتا ہے اس سے اپنا
اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرتا ہوں مگر اب تو سی این جی یا تو ناپید ہے یا پھر
گھنٹوں لاین میں لگ کر حاصل ہوتی ہے۔ ڈیزل کے حساب سے بس کا کرایہ وصول
کرنے والی پبلک ٹرانسپورٹ جس نے سی این جی کے ناغے یا ہڑتال والے دن یا تو
مکمل غائب ہوجاتی ہے اور اگر تھوڑی بہت ہوتی بھی ہےاور اُس میں جو لوگ سفر
کرتے ہیں وہ ان کے لیے ایک اذیت کا وقت ہوتا ہے۔ صرف کراچی میں قریباایک
کروڑ اسی لاکھ افراد کے شہر میں ایک ہزار افراد کی شرح سے لگ بھگ بیس ہزار
بسیں اور ویگنیں چل رہی ہیں جن میں میں کم ازکم اسی سےپچانوےفیصد دس سال سے
زیادہ پرانی ہیں اور ان میں قریباسترفیصد ہفتہ میں دو سے تین دن سی این جی
کی بندش کی وجہ سے غائب ہوجائیں تو شہر کے بے بس عوام کا کیا حال ہوسکتا ہے۔
آخر کس کی اجازت پر دس ہزار سے زائد بسوں اور ویگنوں نے اپنے ڈیزل انجن سی
این جی پر تبدیل کرائے، آخر کس نے غیر معیاری سیلنڈر فراہم کئے ،جس کی وجہ
سے یہ دس ہزار سے زائد بسیں اور ویگن موبائل بم بنکرکراچی کی سڑکوں پر
دندانتے پھر رہے ہیں، اور اگر کسی نے بھی ایسانہیں کیا تو پھر کس طرح یہ
بسیں اور ویگنیں سی این جی پمپ سے سی این جی بھرواتی ہیں۔ آپ خاص طور پر سی
این جی کی بندش والے دن صبح یا شام کے اوقات میں کسی بھی بس اسٹاپ پر کھڑے
ہوجائیں، پبلک ٹرانسپورٹ کی منتظر لوگوں کا ایک ہجوم آپکو نظر آے گا، ایک
عجیب طوفان بدتمیزی نظر آئے گی، ایک عجیب ذلت و تحقیر کا عالم اور ایک عجیب
نفسانفسی، کہیں خواتین بسوں کی طرف آتی اور پھر اپنے لئے مخصوص کے گئے
حصےکومردوں سے بھر ا دیکھ کر واپس لوٹتی نظر آئیں گی، پچیس سے چالیس افراد
کی گنجائش رکھنے والی ایک ویگن میں سوا سو لوگ ٹھوسے ہوئے ہوتے ہیں، بسوں
کی چھت لوگوں سے بھری ہوئی اور خطرئے کی حد تک لوگ لٹکےہوئے ہوتے ہیں ۔
سی این جی پیٹرول پمپوں پر رکشہ، ٹیکسی ،گاڑیوں اور بسوں کی لمبی قطاریں
وقت کا بدترین ضیاع ہے، ذرا اس شخص کا خیال کریں جسکے آگے پچاس گاڑیاں ہوں،
اسکے چہرے سے ٹپکتی بے بسی اور جھنجھلاہٹ کوئی بھی با آسانی دیکھ سکتا تھا
مگر دیکھتا کون؟ کہ وہاں تو ہر ایک کا یہی حال تھا۔ سی این جی کے لیےجو عام
طور پر شائد پانچ سے دس منٹ کا بھی کام نہیں مگر اب اتنا اہم کہ اس کے بغیر
آپ ایک قدم گاڑی نہیں بڑھا سکتے۔ جب رکشہ، ٹیکسی اور بسوں کے ڈرایئور یہاں
سے فارغ ہو کر لوٹیں گے تو کیا یہ اس قابل ہونگے کہ یہ ٹھیک طرح اپنی
گاڑیاں چلاسکیں۔ ان گھنٹوں کے ضائع ہوجانے، نجانے کتنے ہی ضروری کاموں کا
حرج ہوجانے کے بعد کیا لوگوں کے اعصاب اس قابل ہوں گے کہ وہ کوئ اور کام
کرسکیں ۔
بےروزگاری اس حکومت کے دیے ہوے بے شمار تحفوں میں سے ایک ہے، اگر سی این جی
کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ اسی طرح بند ہوتی رہی تو لازمی بےروزگاری میں
اضافہ ہوگا۔ مذکورہ صورتحال کے نتیجے میں عوام کا غصہ بڑھ رہا ہے ۔ کچھ
شہروں میں عوامی غصہ اور بے چینی ہنگامہ آرائی ، احتجاج اور توڑ پھوٹ کی
صورت میں برآمد ہوئی اور یہ سلسلہ بڑھ بھی سکتا ہے اگر سی این جی کی بندش
اسی طرح جاری رہی،مگر سی این جی مالکان اپنی لوٹ مار کو کم کرنے پر تیار
نہیں۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق " کالعدم تحریک طالبان نے سی این جی
اسٹیشنوں کے مالکان کے خلاف کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ سی این جی اسٹیشن
مالکان کے قریبی ذرائع کے مطابق گزشتہ روزکوہاٹ روڈ ، رنگ روڈ ، یونیورسٹی
روڈ ، چارسدہ روڈ سمیت مختلف مقامات پر سی این جی اسٹیشنوں کے مالکان کو
شدت پسندوں کی جانب سے دھمکی آمیز خطوط ارسال کیے گئے جس میں موقف
اختیارکیا گیا ہے کہ اگر انہوں نے فوری طور پر سی این جی اسٹیشن نہیں کھولے
تو سی این جی اسٹیشن مالکان کے خلاف کارروائی کی جائے گی جس کی ذمہ داری سی
این جی اسٹیشن کے مالکان پر عائد ہوگی۔ اطلاعات کے مطابق خطوط ملنے کے بعد
سی این جی اسٹیشنوں کو اڑائے جانے کے خوف کے باعث بھاری سیکیورٹی کو تعینات
کر دیاگیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ شدت پسندوں کی دھمکیوں کے بعد پشاور
میں بعض مقامات پر سی این جی اسٹیشن کھل گئے ہیں تاہم رش کے باعث شہریوں کو
شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے"۔
25 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے فی کلو سی این جی گیس میں تیس روپے نوے پیسے
کمی کا حکم دیا تھا جس سے عوامی سطح پر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی تاہم اس کے
بعد سے اب تک سی این جی مالکان نے مختلف بہانوں سے وقفے وقفے سے گیس کی
سپلائی بند رکھی ہے۔ سی این جی اسٹیشن مالکان اپنے تقریباًنصف منافع کو کم
کرنا نہیں چاہتے ، اس لئے انہوں نے ہڑتالی حربے بھی اپنائے ہوئے ہیں جس کے
سبب عدالتی فیصلے کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے ۔ پاکستان کی عدلیہ قابل
رحم ہے کہ اپنے جاری کیئے ہوئے فیصلوں کو بےحرمتی کی زینت بنتا روز دیکھتی
ہے۔ ملک میں کرپشن ، سرکاری ملازمین سے ملی بھگت ، مافیا کی اجارہ داری اور
کمزور قانون کے سبب سپریم کورٹ بھی سی این جی مالکان کی لوٹ مارکوکنڑول میں
رکھنے پر بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ چیئرمین آل پاکستان سی این جی ایسوسی
ایشن غیاث پراچہ کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے حکم کے بعد 25 اکتوبر کو
قیمتوں میں کمی کے بعد ان کے لیے نئے نرخوں پر گیس کی فروخت ممکن نہیں رہی۔
سی این جی بحران کی بنیادی وجہ سی این جی مالکان کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ
پاکستان میں جتنے سی این جی اسٹیشنز ممکن ہوسکیں گے ان کو بند کر دیں گے
تاکہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوسکے۔ سی این جی مالکان کی
بلاجواز ہٹ دھرمی دراصل عدلیہ کی لاچاری کو ظاہر کررہی ہے اور یہ موجودہ
حکومت کا ایک اور سیاہ کارنامہ ہے۔ حکومت کی طرف سے ابھی تک نہ تو عدالتی
فیصلے کو نافذ کرانے کے لئے کوئی حکمت عملی اپنائی گئی ہے اور نہ ہی ایس
لگتا ہے کہ اسے اس معاملے میں کوئی تشوش ہے۔ لہذا ہوگا یہ کہ اوگرا کی
نگرانی میں ہی دوچار دنوں میں گیس کے دام دوبارہ بڑھا دیئے جائیں گے اور
یوں حکومت لٹیروں سیے کیا ایک اور وعدہ پورا کرکے اپنے سیاہ کارناموں میں
اضافہ کرلیگی اور لوٹ مار مافیا ایک مرتبہ پھر جیت جائے گی۔
اگر شدت پسندوں کی دھمکیوں کے بعد پشاور میں بعض مقامات پر سی این جی
اسٹیشن کھل سکتے ہیں تو پھر پاکستان کے عوام کو شدت پسند بنتے دیر نہیں لگے
گی مگر اس میں بھی نقصان پاکستانی عوام کا ہی ہوگا۔ کیا آپ دہشت گردبننے کو
تیار ہیں؟ اور اگر آپکا جواب نہیں میں ہے تو پھر رونا دھونا بند کرو یار کہ
سی این جی نہیں ہے، پانی نہیں ہے، بجلی نہیں ہے، سیلاب آگیا، بیروزگاری ہے،
بھائی یہ سب کرپٹ سسٹم کا حصہ ہے جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں۔ اگر بےبس نہیں ہو
تو پھر اس کرپٹ سسٹم کے خلاف بغاوت کرو اوراگربے بس ہو تو پھر میرے ساتھ اس
دعا میں شامل ہوجاو کہ اللہ تعالٰی جدا کروانے والوں سے زیادہ ملوانے والوں
کو پسند کرتا ہے اور میں دعا مانگ رہا ہوں کہ زرداری جلد از جلد دوبارہ
بےنظیر سے مل جائیں، زرو سے بولیں آمین۔ |