اسے پاکستان کی بدقسمتی کہیے کہ
اس کی سرحد پر ایک ایسا دشمن موجود ہے جس کی ہر پالیسی پاکستان دشمنی کے
گرد گھومتی ہے۔ وہ دنیا میں اسلحے کا دوسرا بڑا خریدار ہے اور یہ اسلحہ وہ
بلا تخصیص ہر فروخت کنندہ سے حاصل کر رہاہے۔چا ہے وہ امریکہ ہے، اسرائیل ہے،
روس، برطانیہ یا فرانس ہے اور اس اسلحے کا شاید کسی حد تک نشانہ تو چین بھی
ہوگا لیکن بنیادی طور پر اس ساری تیاری کا مرکزی نکتہ پاکستان ہے کہ کسی
طرح اُسے صفحہئ ہستی سے خدانخواستہ مٹا دیا جائے ۔بات یہاں تک پہنچی ہوئی
ہے کہ اگر پاکستان کسی خیر سگالی کا مظاہرہ بھی کرے تو ادھر سے جواب میں
معاندانہ رویے ہی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں پاکستان آرمی نے
اندرونی خطرات کو پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا اس کا مطلب یہ
تھا کہ چھیاسٹھ سالہ پالیسی کو تبدیل کیا گیا اور بھارت کو دوسرے درجے پر
خطرناک قرار دیا گیا کم از کم میڈیا پر اس تبدیلی کو ایسا ہی پیش کیا گیا ۔
اگر چہ آرمی چیف نے کہا کہ ا س بات کو سیاق و سباق کو شامل کئے بغیر پیش
کیا جا رہا ہے ۔ تاہم جو بھی تھا ایک ضروری یا غیر ضروری خیر سگالی کا
مظاہرہ کیا گیا تھا جس کے بعد بھارت نے اپنا فرض سمجھا کہ وہ سرحد پر اپنا
اصلی چہرہ دکھائے اور بتا دے کہ وہ آج بھی پاکستان کے بارے میں اپنا زہریلا
رویہ قائم رکھے ہوئے ہے اور نہ صرف سرحد کی بار بار خلاف ورزی کی گئی ،ہمارے
دو جوان شہید ہوئے بلکہ بھارتی میڈیا پاکستان اور پاک فوج پر چنگھاڑتا رہا۔
اور نہ صرف میڈیا بلکہ بھارتی آرمی چیف اور وزیراعظم نے بھی اپنا پیشہ
ورانہ فرض سمجھا کہ پاکستان پر برس پڑے بلکہ ہر ایک نے حسب توفیق دھمکیا
ںبھی دیں۔ سرحد پر موجود صورت حال کے بارے میں جب پاکستان نے اقوام متحدہ
سے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا تو اُسے بھی رد کر دیا گیا ۔ اور وزیراعظم
من موہن سنگھ نے بتا دیا کہ اب پاکستان سے حالات خوشگوار نہیں رہ سکتے۔ تو
بات یہ ہے کہ حالات ناخوشگوار ہونے کے لیے تو کسی کھیل میں ہی سہی پاکستانی
ٹیم کی جیت ہی کافی ہوتی ہے۔کرکٹ سیریز میں جیت یاہاکی ایشین چیمپین شپ میں
جیت ۔ ہاکی میچ میں تو بھارتی ٹیم میدان ہی چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ ہاکی کے
پاکستانی کھلاڑیوں کو معاہدے کے باوجود اور بھارت پہنچنے کے بعد شیوسینا کی
فرمائش پر واپس کر دیا گیا یعنی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی باگ ڈور عملاََ
شدت پسند ہندئوں کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان بلائنڈ ٹیم کے نا بینا کپتان کو
تیزاب پلانے جیسا غیر انسانی فعل کیا گیا اور اس پر انسانی حقوق کی تنظیموں
کو سانپ سونگھا ہی رہا اور ہوٹل انتظامیہ کے صرف سوری کہنے کو ہی کافی
سمجھا گیا ۔ یہ تو حال ہی میں صرف کھیل کے میدان میں ا س کا رویہ ہے۔ ورنہ
موقع جہاں بھی ملتا ہے اسکا حال یہی رہتا ہے۔
کسی بھی پُرامن مسلمان اور پاکستانی کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ دنیا میں
با لعموم اور ہمارے اپنے خطے میں بالخصوص امن ہو لیکن کیا امن قائم رکھنے
کی یہ ذمہ داری صرف پاکستان کی ہے کیا بھارت کا کام صرف چودھراہٹ دکھانا ہے۔
امن کی آشا امید اور خواہش سب کو ہے لیکن ایسے نہیں کہ ہم بھارت کی مرضی پر
چلتے رہیں تو ہم اچھے، اپنے مفادات کی بات کی تو دہشت گرد ۔ دہشت گرد یقینا
ہمارے لیے اس وقت بہت بڑا خطرہ ہیں لیکن آخر اِن کو مدد کون فراہم کر رہا
ہے ۔ میرے اس سوال کا درست جواب آخر کس کے پاس ہوگا کہ ان سنگلاخ پہاڑوں
میں اتنی دولت ،اتنا اسلحہ، اتنی گاڑیاں اوراتنا بارود آخر کہاں سے آتا ہے
۔ بلوچوں کو اسلحے کے کون سے تاجر گولہ بارود پاکستان کی تمام ایجنسیوں کی
نظروں سے بچا کر فراہم کرتے ہیں ۔ کیا یہ سب کچھ اندرونی وسائل سے ہو رہا
ہے یا بھارت اور امریکہ بمعہ اسرائیل ایسا کر رہے ہیں۔ ان ملکوں کا نام
سنتے ہی کچھ نام نہاد روشن خیال آپ کو قنوطی اور بے ثبوت بات کرنے کا طعنہ
دیتے ہیں چلیئے مان لیتے ہیں لیکن اس سوال کا جواب اور ثبوت بھی ضروری ہے
کہ ہمارے یہ پہاڑی اور پسماندہ، رزق روزی کی تلاش میں سرگرداں لوگ آخر یہ
سب کچھ کہا ںسے لے آتے ہیں ان کے ذرائع کیا ہیں۔ ان کے آقا کون ہیں جو اِن
سے خیبر تا کراچی دہشت گردی کرواتے ہیں اور ان کے وسائل ختم ہونے میں نہیں
آرہے۔ ان میں سے اکثر گروہ تو ایک دوسرے کے نظر یاتی اور جذباتی مخالف ہیں
لیکن سب بڑی تندہی سے ایک ہی مقصد کے لیے سر گرم ہیں اور وہ ہے ملک میں بد
امنی پھیلانا تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان سارے کا رندوں کی باگ ڈور
کسی ایک طاقت کے یا ایک نظریہ رکھنے والے اکٹھ کیے ہوئی طاقتوں کے ہاتھ میں
ہے۔ آج ہماری مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر ایک ہی دشمن ہے مغرب میں اُس
کا مدد گار اور اہلکار کوئی اور ہے اور مشرق میں وہ برملا نائیک اسلم اور
حوالدار محی الدین کی مقدس لاشیں بھیج کر ہماری امن کی خواہش کو ہماری
کمزوری ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امن کی خواہش اور کوشش ضروری ہے لیکن
دشمن کا تعین اس سے بھی زیادہ اہم ہے تا کہ حفاظت کا بندوبست کیا جا سکے
اور ہاں قومی پالیسیوں کو بنانے، عوام تک پہنچانے اور مشتہرکرنے میں اور
بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی ایسی کمزوری کا مظاہرہ نہ ہو جس سے
دشمن فائدہ اٹھا سکے۔ |