گُذشتہ سے پیوستہ۔
کامل علی جب نرگس کو اُسکے نام سے پُکارتا ہے۔ تو نرگس اصرار کرتی ہے کہ وہ
اُسے جاناں کہہ کر پُکارے۔ لیکن جب کامل علی اَزراہِ ہمدردی اُسکے بیٹے
طارق کا تذکرہ کرتا ہے۔ تو نرگس اُس پر برس پڑتی ہے۔کہ جب اُسکی شادی کو
صرف ایک ہی رات گُزری ہے۔ تو وُہ کسی بچے کی ماں کسطرح بن سکتی ہے۔ اُور
کیا وُہ اِسکے کردار پر شک کررہا ہے۔۔۔؟ نرگس کی عجیب و غریب باتوں سے
پریشان ہُو کر کامل علی دُونوں ہاتھ سے اپنا سر تھام کر مسہری پر بیٹھ جاتا
ہے۔۔۔ تبھی ابوشامل اچانک آ پُہنچتا ہے۔ اُور کامل کو سیالکوٹ پُہنچا کر
کہتا ہے۔ کہ وُہ اسکی خاطر عامل گھنشام داس کو قتل کردے۔ لیکن کامل علی
انکار کردیتا ہے۔ جسکے بعد ابوشامل کہتا ہے۔۔۔
ٹھیک ہے میں کُچھ سُوچتا ہُوں کہ،، کِس طرح اُس عامل کو قتل کئے بغیر کیسے
میری جان بچ سکتی ہے۔۔۔ ابوشامل نے کچھ سُوچتے ہُوئے اپنی گردن جُھکا لی۔۔۔
ابو شامل کافی دیر تک اپنی گردن جُھکائے اِسی مسئلہ میں غُوروفکر کرتا رَہا۔
ایسا محسوس ہُورہا تھا۔ جیسے اُسے مسئلے کا کوئی حل دِکھائی نہیں دے رَہا
تھا۔ پھر کِسی خیال کے تحت ابو شامل نے خُوشی سے چُونکتے ہُوئے کہا۔۔۔ اَرے
مجھے پہلے اِس بات کا خیال کیوں نہیں آیا۔۔۔؟
اب مزید پڑہیئے۔
کیا ہُوا۔۔۔؟ اُور کونسا خیال پہلے نہیں آیا تھا۔۔۔؟ اُور یہ ہم کچرے کے
ڈھیر کے پاس کیوں کھڑے ہیں ۔ کیا کسی مناسب جگہ پر بیٹھ کر گفتگو نہیں کی
جاسکتی ۔۔۔؟کامل علی نے ابوشامل کو مُخاطب کرتے ہُوئے سوال کیا جسکا چہرہ
ایک انجانی خُوشی سے دمک رَہا تھا۔۔۔۔۔۔ یار کامل میرے ذہن میں ایک زبردست
آئیڈیا آگیا ہے۔ جسکی وجہ سے اُس عامل گھنشام داس کو قتل کرنے کی نوبت بھی
نہیں آئے گی ۔ اُور میری جان بھی فی الحال اُس عامل سے بچ جائے گی۔۔۔ مطب
وُہ جو کہتے ہیں نا ! کہ سانپ بھی مرجائے۔ اُور لاٹھی بھی نہ ٹوٹنے پائے۔
بس ایسی ہی ایک زبردست ترکیب میرے ذہن میں آئی ہے۔۔۔ اُور جہاں تک بات ہے
کچرے کے ڈھیر کے پاس کھڑے ہُونے کی۔۔۔ تو میرے بھائی اِسے برداشت کرلو۔
کیونکہ میں نے جان بوجھ کر اِس جگہ کا انتخاب کیا ہے۔ کیوں کہ اُس کمبخت
گھنشام داس کی سونگھنے کی حس کسی بلی سے بھی ذیادہ ہے۔ لیکن اِس بدبو کی
وجہ سے وُہ میری مہک سُونگھ نہیں پائے گا۔۔۔ابو شامل جو ابھی کچھ لمحے قبل
انتہائی متفکر نظر آرہا تھا۔ اب بُلبل کی طرح چہکنے لگا تھا۔۔۔
یار کیوں پہلیاں بُجھوا رہے ہُو! صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ کونسی ترکیب
تمہارے ذہن میں آئی ہے۔ ابو شامل کو مخاطب کرتے ہُوئے کامل نے اضطرابی لہجے
میں دریافت کیا۔۔۔؟ ٹھیک ہے بتاتا ہُوں۔۔۔ ابو شامل نے سنجیدہ ہُوتے ہُوئے
گفتگو کی ابتدا کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ سُنو میں صرف اتنا چاہتا تھا۔ کہ کسی طرح
گھنشام داس اپنی چلہ گاہ سے باہر نِکل آئے۔ یا وُہ اپنے عمل کو ادھورا چھوڑ
دے۔۔۔ اُور یہ دُونوں ہی باتیں بظاہر ناممکن ہیں۔ جسکی وجہ سے میں نے تُم
سے کہا تھا۔ کہ تُم اُسے قتل کرڈالو۔ لیکن ابھی ابھی میرے دِل میں یہ خیال
آیا ہے کہ میرا یہ مقصد تو اُسے زخمی کرکے بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بشرطیہ
کہ اُسے اتنا زخمی کردیا جائے کہ وُہ اپنے عمل کو مزید جاری نہ رکھ سکے۔
کیا مطلب ! کتنا زَخمی کرنا ہے۔۔۔ اُور کیا اُس گھنشام داس نے اپنی حِفاظت
کا اہتمام نہیں کیا ہُوگا۔۔۔؟ اُور کیا وُہ اِس بات سے بالکل بے خبر ہے کہ
تُم اُس پر حملہ کی پلاننگ کررہے ہُو۔۔۔؟۔۔۔۔۔ ہاں یہ بُہت اہم سوال کیا ہے
تُم نے۔ ابو شامل نے کامل کو داد دیتے ہُوئے اپنی گفتگو جاری رکھی۔۔۔ پہلے
سوال کا جواب تو یہ ہے کہ۔ وہ یہ چلہ کاٹنے کے دوران تقریباً ایک گھنٹہ
اپنے داہنے پاؤں پر کھڑا رِہ کر جاپ کرتا ہے۔ اسلئے اگر کسی طرح اُسکے
داہنے پاؤں کو اِس حد تک زخمی کردیا جائے کہ،، وُہ چند دِن اپنے داہنے پاؤں
پر کھڑا نہ رِہ سکے۔ تو اُسکا چلہ ادھورا رِہ جائے گا۔ بعد از میں خود
جوابی عمل کے ذریعہ سے کوشش کرونگا ۔کہ،، آئندہ وُہ مجھے قابو کرنے کے قابل
ہی نہ رہے۔۔۔ ابو شامل نے سفاکیت سے مُسکر کراپنی داہنی آنکھ مارتے ہُوئے
کامل کے چہرے پر نمودار ہُوتے اطمینان بھرے تاثرات دیکھ کر سکون کا سانس
لیا۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ،، وُہ بالکل بھی مجھ سے بے خبر نہیں۔ اُور
ابتدا میں چونکہ میں خُود کافی مضبوط تھا۔ اُور اُس پر جوابی حملہ کی تیاری
کررہا تھا۔اسلئے وُہ میرے ایک ایک لمحے پر نظر رکھے ہُوئے تھا۔ اُور اُس نے
اپنی حِفاظت کیلئے خاطر خُواہ اپنے چیلوں کو اپنے ارد گرد جمع کررکھا
تھا۔۔۔ لیکن جیسے جیسے میری قوت اُسکے عمل کے آگے بے بس ہُوتی چلی گئی۔ اُس
نے بھی میری کمزور حالت کے پیش ِ نظر اپنی سیکیورٹی کافی حد تک کم کردی
ہے۔۔۔ اُور جب میں کافی کمزور ہُوگیا تو اُس نے میری نگرانی کا عمل بھی
رفتہ رفتہ ختم کردیا تھا۔ جسکا فائدہ اُٹھاتے ہُوئے میں ایک ترکیب سُوچ لی
۔۔۔ کہ اب اگرچہ میں اُسے کوئی نقصان نہیں پُہنچا سکتا ۔لیکن کسی دوسرے
انسان کے ذریعہ اُسے اُسکے منطقی انجام تک ضرور پُہنچا سکتا ہُوں۔ پھر میری
نظر انتخاب ایک ایسے انسان کی تلاش میں تھی۔ جسے جنات سے دوستی کا خبط بھی
ہُو۔اُور وہ طاقت کا خواہشمند بھی ہُو۔۔۔ چنانچہ میرے ایک دوست نے مجھے
تُمہارے متعلق بتایا۔۔۔ اُور اِس طرح میں نے تُم سے رابطہ کرلیا۔۔۔ اِس وقت
جو تُم میری طاقت دیکھ رہے ہُو۔ وُہ میری اصل قوت کا پانچ فیصد بھی نہیں
ہے۔ ۔۔ اگر تُم نے واقعی میری مدد کی۔ اُور مجھے اُس عامل کی گرفت سے آزاد
کروادیا۔ تو میں تمہیں یقین دِلاتا ہُوں کہ،، تمہیں اسقدر مظبوط کردوں
گا۔۔۔ کہ،، کسی مُلک کا صدر بھی اتنا طاقت ور نہیں ہُوگا۔۔۔ ابو شامل کی
گفتگو کامل علی کی آنکھوں کو عجیب سے نشے سے مخمور کئے دے رہی تھیں۔۔۔
ٹھیک ہے مجھے یہ طریقہ مُناسب لگ رہا ہے۔۔۔ کیونکہ اِس طریقے سے کسی کی جان
بھی تلف نہیں ہُوگی۔ اُور تمہارا کام بھی بن جائے گا۔ بس اب تُم مجھے مزید
اتنا اُور بتادو کہ مجھے یہ گھنشام داس کس جگہ مِلے گا۔۔۔؟ اُور مجھے کس
طریقہ اُور کس ہتھیار سے اُسے زخمی کرنا ہے۔ اُور اگربالفرض میں وہاں کسی
ناگہانی مصیبت کا شِکار ہُوجاؤں۔ تو کسطرح اُس مصیبت سے نکل سکتا ہُوں۔۔۔؟
کامل علی نے رضامندی ظاہر کرتے ہُوئے استفسار کیا۔
دیکھو کامل علی ویسے تو میرا دِماغی رابطہ تُم سے ایک لمحے کیلئے بھی نہیں
ٹوٹے گا۔۔۔ اُور میں جس رکشہ ڈرائیور کو تُمہارے ساتھ بھیجوں گا۔ اُس کے
دماغ میں بھی گھنشام داس کا تمام ایڈریس فیڈ کردُونگا۔ لیکن پھر بھی تمہیں
احتیاطً سمجھائے دیتا ہُوں۔کہ،، ہم اِس وقت سٹی اسٹیشن اُور قلعہ کے وسط
میں موجود ہیں۔ یہاں سے آگے بانو بازار سے گُزر تے ہُوئے تمہیں شریف پارک
اُور مسلم کالونی کے سنگم کے عقبی جانب جانا ہے۔۔۔ اگر خدانخواستہ کوئی
مشکل پیش آجائے تو اِسی طرح واپس بھی لُوٹ آنا۔۔۔ وہاں پُہنچ کر کوشش کرنا
کہ کسی طرح گھنشام داس اپنے گھر سے باہر نِکل آئے ۔ اُور جیسے ہی اُس سے
سامنا ہُوجائے۔ کسی طرح اُسکی پنڈلی کو زخمی کردینا ۔ لیکن تین باتوں کا
خاص خیال رکھنا نمبر ایک زخم اتنا کاری ضرور ہُونا چاہیئے کہ ،، وُہ ہفتہ
پندرہ دِن بستر سے نہ اُٹھ پائے۔ جسکے لئے میں نے ایک خنجر تُمہاری واسکٹ
میں ڈال دیا ہے۔۔۔ کامل علی نے بے اختیار اپنی واسکٹ کو ٹٹولا۔ تو اُسے
احساس ہُوا۔ کہ اُس میں واقعی کوئی بھاری سی دھات موجود تھی۔۔۔۔ دوسری بات
یہ ہے کہ اُس کے سامنے زبان نہیں کھولنا ورنہ وُہ تمہاری آواز کے ذریعے سے
تُمہارے ذہن تک رسائی حاصل کرلے گا۔ اُور تمہارے ارادے سے باخبر ہُوجائے
گا۔ تیسری اُور آخری بات یہ ہے ۔کہ اُس سے نظر بالکل نہیں مِلانا۔ ورنہ وُہ
اپنی شکتی کے زُور پر لمحوں میں تم کو اپنا غلام بناسکتا ہے۔
ابو شامل نے گھنشام داس کی غیر مرئی قوت کا جِس طرح سے کامل کے سامنے نقشہ
کھینچا تھا۔۔۔ اگر کسی اُور نے بیان کیا ہُوتا تو کامل علی ہرگز گھنشام داس
کا سامنا کرنے کیلئے تیار نہ ہُوتا۔ لیکن اب کیا ہُوسکتا تھا۔ کامل علی
خُود گھنشام داس کو زخمی کرنے کیلئے اپنی آمادگی ظاہر کرچُکا تھا۔ اُور اب
یہ بات تو کامل علی بھی خُوب سمجھ چُکا تھا۔ کہ وُہ ابو شامل کے بغیربالکل
اَدھورا ہے۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں ایک رکشہ ڈرائیور کامل علی کو اپنے رکشہ میں سوار کئے
مسلم کالونی کی جانب بڑھا چلا جارہا تھا۔ قلعہ کی دیواروں کو دیکھتے ہُوئے
ایک لمحے کیلئے کامل علی کو ایسا محسوس ہُوا جیسے وُہ اِن دَر و دِیوار سے
ایک مُدت سے آشنا ہو۔ حالانکہ اپنی زندگی میں وُہ پہلی مرتبہ سیالکوٹ آیا
تھا۔ کچھ منٹ بعد رکشہ ڈرائیور نے سحرزدہ سی آواز میں کامل کو مخاطب کرتے
ہوئے بتایا۔ کہ وُہ مسلم کالونی پُہنچ چکے ہیں۔ اُور اب اِس کے عقب میں
واقع گھنشام داس کے مکان کی جانب جارہے ہیں۔ رات کی ملجگی رُوشنی میں رکشہ
ڈرائیور نے ایک درخت کے سائے میں رکشہ روک کر دُور ایک دُو منزلہ مکان کی
طرف اِشارہ کرتے ہُوئے بتایاکہ،، وہی گھنشام داس کا مکان ہے۔
کامل علی نے جھجکتے ہُوئے گھنشام داس کے مکان کی جانب بڑھنا شروع کردیا۔۔۔
اچانک اُسے اپنے ذہن میں ابو شامل کی آواز سُنائی دی۔ کامل گھبرانا مت میں
تُمہارے ساتھ موجود ہُوں ۔ لیکن احتیاط کا دامن اپنے ہاتھ سے مت چھوڑنا۔۔۔
اُور میری ہدایات پر عمل کرتے ہُوئے میری تینوں باتوں کا خیال رکھنا۔۔۔ یہ
رکشہ والا بھی میرے سحر میں مبتلا ہے۔ اسلئے جب تک تُمہار کام ختم نہیں
ہُوجاتا۔ یہ بھی یہیں تُمہارا انتظار کرے گا۔۔۔ابھی کامل علی گھنشام داس کے
مکان سے پچاس گز کے فاصلے پر موجود ہُوگا کہ اُسے اچانک قریبی درختوں سے
کسی کے قدموں کی سرسراہٹ سُنائی دِی۔ خُوف کی ایک انجانی لہر سے سردی کے
باوجود کامل کی پیشانی سے پسینے نمودار ہُونے لگے۔ اُسے ایک لمحے کیلئے
ایسا محسوس ہُوا۔ جیسے سینکڑوں آنکھیں اُسکی نگرانی کررہی ہُوں۔۔۔ اُسکا
دِل چاہا کہ وُہ پلٹ کر واپس بھاگ جائے۔ لیکن اُسکا تمام جسم جیسے سُن
ہُوکر رِہ گیا تھا۔ اب اُسکے قدم نہ آگے بڑھ پارہے تھے۔ اُور نہ ہی پیچھے
کی جانب۔۔۔ البتہ چاروں جانب سے کُچھ لوگ ہاتھوں میں ننگی تلواریں اُورکچھ
ڈنڈے لئے بڑھ رہے تھے۔ کامل علی سمجھ گیا۔۔۔ کہ،، وُہ یقیناً ٹریپ ہُوچکا
ہے۔۔۔ زمین نے اُسکے قدموں کو جکڑ لیا تھا۔۔۔ اُور واپسی کی تمام راہیں
مسدود ہُوچُکی تھیں۔ کامل کے ذہن سے ابو شامل کی تمام احتیاطیں محو ہُوچکی
تھیں۔
اُس نے اپنے ذہن میں ابوشامل سے رابطہ کرنا چاہا لیکن اُسے کوئی جواب
مُوصول نہیں ہُوا۔۔۔ وُہ تمام لوگ کامل علی کے نہایت نذدیک آ پُہنچے تھے۔
وُہ کم از کم بیس افراد تھے۔جنہوں نے نارنجی کلر کی دھوتیاں اپنے جسم پر
باندھ رکھی تھیں۔۔۔ جب کہ اتنی سردی کے باوجود بھی ایک بھی شخص نے قمیص
پہنی ہُوئی نہیں تھی۔ پیشانی پر لگے عیجب سے تلک کے نشان سے ظاہر ہُورہا
تھا۔ کہ وُہ سب ہندو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کامل نے ایک مرتبہ پھر ابو
شامل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کامل علی کی یہ کوشش بھی بے سُود ہی
ثابت ہُوئی ۔ اچانک کسی نےاُسکا تمسخر اُڑاتے ہُوئے نہایت گرجدار آواز میں
اُسے مُخاطب کیا۔۔۔ مورکھ کِسے سہایتا کے لئے پُھوتکار (پُکار) رہا ہے۔
مورکھ منش ہو کر منش کو گھائل کرنے چَلا تھا۔۔۔ اب اُس جن زادے کا نام جپنا
چھوڑ دے۔ کیول وُہ حرامزدہ اب یہاں نہیں پدھارے گا۔۔۔ پرنتو۔ نرکھ سُدھانے
سے پہلےایشور کو اَوشے یاد کرلے۔۔۔ کامل نے دیکھا کہ وُہ ایک سادھو تھا۔ جو
اُس سے مخاطب تھا۔ اُس کے سر پر ایک مُوٹی سی چُٹیا بندھی تھی۔ سر اُور
داڑھی کے تمام بال سفید ہُونے کیوجہ سے کامل علی کا ندازہ تھا کہ وُہ بوڑھا
سادھو کم ازکم عمر کی آٹھ دہایئاں دیکھ چُکا ہُوگا۔ لیکن اسکی پیشانی پر
ایک بھی سلوٹ موجود نہیں تھی۔ تمام چہرے پر بھبوت کی سفیدی میں سُرخ رنگ کے
تین تلک صاف نظر آرہے تھے۔۔۔ اُور اب وُہ اپنے ہاتھ میں خنجر لئے کامل علی
کی جانب ہی بڑھ رہا تھا۔ کامل علی نے اندازہ لگالیا کہ وُہی گھنشام داس ہے۔
جسکے شکار کیلئے وُہ یہاں آیا تھا۔ اُور خود شکار ہُوگیا تھا۔۔۔کامل علی نے
مدد کیلئے یہاں وہاں دیکھنے کی کوشش کی لیکن تبھی سادھو کے چند چیلوں نے
مضبوطی سے اُسے پکڑ کر زمین پراسطرح اُوندھا ڈال دیا۔ جیسے جانور کو ذبح سے
قبل پچھاڑا جاتا ہے۔
(جاری ہے)۔
اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے
مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے |