ایک اور چراغ گل ہو گیا

"عزیزان محترم ! ملک پا کستان ایک نظریاتی اور اسلامی ملک ہے ۔آئین و قانون کی بالا دستی کے لیے ہمیں مل کر جد وجہد کرنی ہوگی ۔ہمیں فروغی اختلافات کو بھلا کر اسلامی نظام کے لیے منظم جدو جہد کرنے ہوگی ۔اس ملک میں سیکولر ازم اور لادینیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کو شریعت محمدی ﷺ کے عملی نفاذ کے لیے ایک ہونا پڑے گا ۔۔۔۔۔!!ایک ایسا نظام تیارکرنا ہوگا جس پر تمام دینی سیاسی جماعتیں متفق ہوں ۔۔۔۔۔دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری جنگ نہیں ہے ۔یہ امریکہ کی جنگ ہے ۔مشرف کہتا ہے کہ ہم امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی ہیں۔اور بش میرا Buddyیار ہے۔جبکہ قرآن کہتا ہے کہ وہ ہمارے دوست نہیں ہو سکتے ۔"شاعر مشرق علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے اشعار ببانگ دہل شامل تقریر کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں سامعین کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی یہ آواز سابق امیر جماعت اسلامی جناب محترم قاضی حسین احمد کی تھی جو اپنے طالب علمی کے دور سے موت تک ہر پلیٹ فارم پر گرجتی رہی۔اس آواز میں جو درد چھپا تھا وہ اہل دل ہی محسوس کر سکتے تھے۔ساری زندگی ایک ہی نظریے کی بات کرنے والا یہ مرد قلندر پوری مسلم امہ کی بیداری کے لیے ہم تن گوش رہتا تھا ۔ایک وقت تھا کہ لوگوں میں یہ مشہو ر ہو چلا تھا کہ" ظالمو!قاضی آگیا ہے "قاضی نے جو دھرنے ملکی سلامتی کے لیے دئیے وہ کامیاب ترین تھے ۔قاضی صاحب نے ہر دور میں سول اور فوجی ڈکٹیٹر شپ سے ٹکر لے کر یہ ثابت کیا کہ وہ اس ملک کے حقیقی محافظ اور محب الوطن شہری ہیں ۔اعلاءکلمتہ اللہ کے لیے سلطان جابر کے سامنے ڈٹنا قاضی صاحب کا خاصا تھا ۔امور ریاست ہوں یا سیا ست کا میدان ،رسالت ہو یا مذہب کی وکالت آپ نے ہر آن ہر گھڑی اپنا فعال کردا ر ادا کیا اور راستے کی تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے آواز حق کو پہچانا اپنا فریضہ سمجھا ۔انھوں نے جماعت اسلامی کو ترقی و ترویج کی اوج بلندیوں پر فائز کیا اور ایسے کارکن تیار کیے جو کٹ تو سکتے ہیں مگر جھکنا انھوں نے سیکھا ہی نہیں۔

قاضی حسین احمد 1938کو نوشہرہ کے ایک نواحی گاﺅں زیارت کاکا صاحب میں مولانا عبدالرب کے گھر پیدا ہوئے۔ وہ اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم والد محترم سے حا صل کی ۔ آپ نے ایم ایس سی جیو گرافی کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی ۔طالب علمی کے دور سے ہی اسلامی انقلاب کی جدو جہد کے لیے طلباءکے ایک منظم پلیٹ فارم اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکن اور عہدیدار بھی رہے۔ان کی اپنے کا ز سے لگن نے انھیں جماعت اسلامی سے منسلک کر دیا ۔آپ 1978جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی جنرل سکریٹر ی اور 1987میں امیر جماعت اسلامی مقرر ہوئے۔ آپ کو چار دفعہ مزید جماعت اسلامی پاکستان کا امیر مقرر کیا گیا۔آپ 1986میں 6سال کے لیے سینٹ آف پاکستان کے ممبر بھی رہے ۔پھر 1992کو بھی سینٹر منتخب ہوئے لیکن حکومت کی پالیسوں کی بنا پر احتجاج کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا ۔یہ ایک نظریہ کا داعی ہونے کی وجہ سے کیا گیا اگر ایسا نہ ہوتا تو کتنے ہیں جو بے غیرت بن کر اسمبلیوں کی سیٹوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مرحوم کے اندر حرص ولالچ بالکل نہ تھی۔اس کے علاوہ قاضی صاحب کی زندگی کا ایک اہم پہلویہ تھا کہ انھوں نے قید وبند کے صعوبتیں برداشت کیں اور اس دوران انھوں نے کئی تحقیقی مقالہ جات قلم بند کیے جو بعد میں شائع بھی ہوئے۔آپ کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ عربی ،فارسی ،انگریزی اور اردو پر مکمل عبور حاصل تھا ۔آپ نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کی علمی وعملی تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔وہ خود بھی علم کے سمندر تھے ۔ہر مسئلہ کا حل اسلام اور اسلامی نظام کو گردانتے تھے۔انھوں نے تفرقہ بازی کی ہر پلیٹ فارم پر حوصلہ شکنی کی ۔انھوں نے اپنی اولاد کو بھی اپنے مشن کا وارث بنایا ۔چند روز پہلے ایران میں ہونے والی انٹرنیشنل اسلامک ویمن کانفرنس میں قاضی صاحب کی صاجزادی کو پاکستانی خواتین کی نمائندگی کے لیے چنا گیا تھا۔

پاکستان اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا۔ تحریک پاکستان کے دوران جو نعرہ قوم کو دیا گیا وہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ تھا ۔یعنی اس ملک کا سپریم لاءاسلام ہو گا ۔اور اسلام ہی مطابق اس ملک کے قوانین وضع ہوں گے ۔اسلام ہی وہ دستور حیات ہے جسے ہم اپنے ملک میں نافذ کر کے تمام اختلافات کو رفع کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ قرداد مقاصد سے واضح ہے کہ اس ملک میں اسلام کی اصولوں کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔لیکن کاش اسکی عملی تصویر آج تک نہیں سامنے آ سکی ۔آج کے سیاستدان نے عوام کے بارے میں سوچنا چھوڑ کر اپنی جیب کی فکر کی ہے اور لو گوں کو مایو س کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی ،بےروز گاری ،غربت و افلاس کا دور دورہ ہے۔اور بیرونی قرضے چکانا ہماری آنے والی نسلوں کے بے بس کی بھی بات نہیں ہے۔ہمارا ملک معدنیات اورقدرتی وسائل سے بھرا پڑا ہے مگر سیاستدانوں کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ان محضوص مسائل کے ساتھ ساتھ عالمی سامراجی قوتیں پاکستان کو ٹارگٹ کیے ہوئے ہیں اور لڑاﺅ اور حکومت کرو کی پالیسی پر گامزن ہیں اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتی ہیں۔قاضی صاحب عالمی سطح پر ہونے والی اسلام دشمن پالیسیوں کو بھانپ چکے تھے ۔اور اسی لیے وہ امریکہ کی غیر قانونی مداخلت ،ڈراﺅن حملوں کو دہشت گردی کی وجہ قراد دیتے تھے ۔ان کے مطابق موجودہ سیاسی نظام فرسودہ اور بوسیدہ ہو چکا ہے۔ان حالات میں مذہبی جماعتوں اور کارکنوں کی ذمہ داریاں دوگنی ہو جاتی ہیں۔اب وقت آن پہنچاہے کہ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا۔لوگوں کو بیدار کرنا ہوگا ۔اور اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے والوں سے زیادہ محنت کر کے ہمیں اسلام و امن کی محنت کرنی ہوگی ۔بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق" جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد نے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام کے لیے اسلام آباد میں ایک بین الفقھی اجلاس طلب کیا ہے۔اس اجلاس میں انھیں جماعت اسلامی کی تائید بھی حاصل ہے۔قاضی حسین احمد نے بتایا کہ اجلاس کے چار نکات ہیں جن میں باہمی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا ،خطبات جمعہ میں ہم آہنگی اور علمی گہرائی پیدا کرنا ،اسلامی نظریاتی کونسل کی متفقہ طور پر منظور شدہ سفارشات کو نافذ کرنا اور آخر میں مختلف فقہ کے لوگوں کو قریب لانا اور ایسا ماحول پیدا کرنا کہ وہ اختلافات کو نظرانداز کریں اور مشترکات پر زور دیں۔"

ہمارے ہاں شاید قاضی صاحب جیسے لوگوں کی قدر نہ ہو کیونکہ گھر کے پیر کی قدر دانی کم ہوا کرتی ہے ۔ لیکن ترکی اور مصر کے لوگوں سے قاضی صاحب کی قدر پوچھی جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ قاضی صاحب جسیے لوگوں کو اپنا مرشد و مربی مانتے تھے اور نفاذ اسلام کے لیے ان کے ویژن روشنی لینے کے قائل تھے ۔اسی لیے آج پورا عالم اسلام سوگوار ہے کہ آج امہ ایک عظیم لیڈر اور مربی سے محروم ہوگئی ہے ۔اسلامی انقلاب کے لیے جد وجہد کرنے والا ایک اور مینار نور گل ہو گیا ۔اس پر اتنا کہوں گا کہ ۔۔
وہ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا ۔
Abdul Basit Farooqi
About the Author: Abdul Basit Farooqi Read More Articles by Abdul Basit Farooqi: 3 Articles with 2764 views میرا نام عبد الباسط فاروقی ہے ۔میرا تعلق آزادکشمیر کے ایک پسماندہ ضلع باغ سے ہے۔میں نے ایم۔بی۔اے کر رکھا ہے۔میں سیاست اور امور حکومت کے علاوہ اسلام کے.. View More