ہٹ دھرمی اور بے حسی

سعودی اخبار ’’العربیہ‘‘ لکھتا ہے کہ پاکستان کو تباہی سے بچانے میں سعودی عرب اہم کردار ادا کر سکتاہے پاکستان میں پولیو، آئیوڈین کے متعلق افواہوں کے خاتمے ، عسکریت پسندانہ کاروائیوں اور خود کش دھماکوں کے خلاف مکہ اور مدینہ کی دو مقدس مسجدوں کے امام صاحبان اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ممکن ہے پاکستانی شیخ کے نام اور رتبے سے واقف نہ ہوں لیکن امام کعبہ اور امام مسجد نبوی ﷺ کی بات کو لازمی سنیں گے اور ان کی رائے کو اہمیت دیں گے۔

تاریخ کے اوراق گرداننے سے یہ باور ہو جاتا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کے مشکل ترین حالات میں سیاسی و معاشی مدد کی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت میاں برادران کو جدہ میں پناہ دینا اوراسی تناظر میں مشرف سے ڈیلنگ کرنابھی شامل ہے دوسرے دوست ممالک کی طرح سعودی حکومت کے پاکستان کے ساتھ مفادات بھی کم ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی عوام بھی سعودی حکومت کے ہر فیصلے کو من عن ماننے کے لیے تیار بھی ہوجاتی ہے ۔

وطن عزیز میں پھیلی عجیب سی بے چینی اور غیر یقینیت کی فضاء سے جہاں ملک کے باسی آشناء ہیں وہاں دوسرے ممالک بھی اسی بے چینی و اضطراب کی کیفیت سے بے پرواہ نہیں ہیں پاکستان کے وجود کے خلاف متحرک اندرونی و بیرونی قوتوں نے اپنے اوزار تیز کر لیے ہیں ایک طرف بھارت کنڑول لائین کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے تو دوسری طر ف افغانستان افواج پاکستان پر گولہ باری و فائرنگ کرنے کاکوئی موقع ضائع نہیں ہونے دے رہا ہے کراچی خون خون ہے اور ملک کی سیاست میں عجیب سا بھونچال ہے ملک کے بڑے ان تمام حالات میں بھی عجیب سی خاموشی اور ہٹ دھرمی سادھے ہوئے ہیں ہر کوئی اپنے اپنے کام دھندوں میں مصروف ہے اور ملک دن بدن بد سے بد ترین حالات کا سامنا کر تا جارہا ہے عوام سے لے کر حکمرانوں تک جو ہٹ دھرمی اور بے حسی کی لہر جاری ہے اس کا اندازہ لگاتے ہوئے ہی سعودی اخبار نے مذکورہ بالا یہ دردمندانہ اداریہ شامل کیا جسے پڑھ کر ایک محب وطن پاکستان یقیناً شرمندگی محسوس کرے گا کیوں کہ ملک کوآزاد ہوئے پینسٹھ سال بیت چکے ہیں مگر دوسرے ممالک کی پاکستان متعلق فکر دیکھ کراندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان ابھی آزاد نہیں ہے ۔

حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور بے حسی کا شاہکار اور کیا ہوگا کہ ملک کے دارلخلافہ کوئٹہ میں 3دن تک سو کے قریب لاشیں سڑکوں پر پڑی رہی مگر ان تین دنوں میں کسی حکمران کی رات کی نیند اڑی نہیں کسی نے یہ نہیں کہا کہ قیامت والے دن اﷲ پاک کو کیا جواب دینا ہو گا ۔میں نے بارہا سنا کہ وارث نہ ملنے پر لاش کو دفنا دیا گیا مگر یہ کیسا سما ں ہے کہ وارثین بھی ہیں اور لاشیں بھی کفن میں لپٹی ہیں مگر دفنایا نہیں جارہا یہ لاشیں تین دن ورثاء کی موجودگی میں لاوارث پڑی رہی اس دوران بارش بھی ہوئی درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گرا بھی مگر ان تین دن میں کسی حکمران کو احساس تک نہیں ہوا کہ مردے کوتکلیف دینا بھی عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے ۔کسی کواس سات سالہ معصوم بچی کااحساس نہ ہوا جوتین دن تک اپنے والد کی لاش کے پاس بیٹھی کانپتی رہی کیا ان کی اولاد نہیں کہ انہیں اولاد کے دکھ درد اور تکالیف کا اندازہ نہیں ہوتا ہے ؟کیا یہ روزقیامت کے منکر ہیں یا انہیں اقتدار و طاقت نے اندھا کر دیا ہے ؟نہیں یہ ہٹ دھرمی اور بے حسی ہے کہ انہیں’’ سب اچھا ‘‘دکھائی دیتا ہے ۔

یہ ہٹ دھرمی اور بے حسی صرف حکومت کا شیوہ نہیں ہے میں اپنے وطن کے حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور بے حسی کا کیا رونا روؤں مجھے تو اس عظیم وطن پاک میں روز ایسے بے شمار افراد سے واسطہ پڑتا ہے کہ جن سے مل کر مجھے حکمرانوں کی بے حسی اور ہٹ دھرمی اور شائبہ ملتا ہے اور جب حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور بے حسی کودیکھتا ہوں تو مجھے عوام کی ہٹ دھرمی اور بے حسی یاد آتی ہے ۔اسی ہٹ دھرمی اور بے حسی کا نظارہ کرنے کے لیے آپ کوزیادہ تردد اور مشکل پیش نہیں آئے گی کیوں کہ یہ ہٹ دھرمی اور بے حسی اب ہر کسی کا شیوہ بن چکا ہے۔اسی حوالے سے مندرجہ ذیل پیرا گراف کاباغور مطالعہ کریں آپ کو ہم ہی میں سے مشتمل افراد کی ہٹ دھرمی اور بے حسی کا اندازہ ہو جائے گا ۔

سی این جی بند ہوئی تو ٹرانسپورٹرز نے اپنی گاڑیاں پٹرول پر چلانا شروع کر دی اور کرایہ فی سٹاپ 5روپے سے 10روپے بڑھا دیا جبکہ انہی ایام میں کرایہ ایک شہر سے دوسرے شہر تک کا ڈبل کا بھی ٹرپل لیا گیا غر ض جس کا جہاں داؤ لگا اس نے وہاں ہی داؤ لگا دیا ۔راقم الحروف کو انہی دنوں نہ صرف اندرون شہر بل کہ بیرون شہر جانے کا اتفاق ہوا اور کرایہ میں ہونے والے چھپر پھاڑ اضافے پر ایسے ہی ششدر و حیران تھا جیسے دوسرے مسافر مگر پھر بھی دیا کیوں کہ ڈرائیورز اور کنڈکٹرز کے پاس میرے یا میرے جیسے اور مسافروں کے سوالات کا ایک ہی جواب تھا کہ جانا ہے تو اسی کرایہ پر جاؤ ورنہ اتر کر دوسرے گاڑی پر آجانا ۔مجبوراً انہی گاڑیوں پر بیٹھنا پڑا اور اس آگ کو ٹھنڈا کرتا رہا جو حکمرانو ں کی ہٹ دھرمی اور بے حسی کی وجہ سے انگ انگ میں لگی ہوئے ہے ۔

خیر عوام اور حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اور بے حسی کا رونا روتے ہوئے تقریبا ً پندرہ دن بعد سی این جی کھلی تو سکھ کر سانس لیا کہ جو کرایہ ان ایام میں بے پناہ حد تک بڑھا وہ کم ہوجائے گا مگریہ حروف قلم بند ہونے تک معاملہ جوں کا توں ہی ہے کیوں کہ پوچھنے والا ، روک ٹوک اور جزا و سزا کا نظام ملک عظیم میں ناپید ہو چکا ہے ۔انہی ایام میں سی این جی بھروانے کے لیے جب گاڑی سی این جی پمپ پر رکی تو سی این جی کے آپریٹر نے 100روپے جنریٹر چارجز کی مد میں اضافی رقم وصول کی ۔

ان تمام حالات و واقعات کے بعد سمجھ ہی نہیں آتی کہ کس سے گلہ کیا جائے۔ حکمران اگر ہٹ دھرمی اور بے حسی کا مظاہر ہ کر رہے ہیں تو عوام کون سا خدا ترسی اور با حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔وہ ہٹ دھرمی اور بے حسی جو صرف حکمرانوں تک ہی محدود تھی اب اس کا دائرہ کاراتنا وسیع ہو چکا ہے کہ ایسے افراد ملنا بہت مشکل ہو گیا ہے جو باحس ہیں ۔غیر یقینیت اور بے چینی کوئی آج کی بات نہیں ہے دس سال پہلے بھی کئی معاملات میں بے چینی و غیر یقینیت دل و دماغ میں ڈھیرے جما لیتی تھی مگر ہٹ دھرمی اور بے حسی تب ہر کسی کا شیوہ نہیں تھا بہت کم لوگ ہٹ دھرمی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتے تھے جو شاذو بانادر ہی میسر آتے تھے مگر اب باحس افراد شاذو نادر نظر آتے ہیں ۔یہ حقیقت ہے کہ ہٹ دھرمی اور بے حسی جگہ جگہ نظر آئے گی مگر اس کے لیے آپ کو اس حصار میں سے نکلنا ہو گا جس کی وجہ سے بے حسی اور ہٹ دھرمی دن بدن اسلامی جمہوریہ پاکستان کی رگ رگ میں سرایت کر رہی ہے اور یہ حصار اتنا مضبوط بن چکا ہے کہ ہر کسی کو اپنے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا ہے یہ حصار ٹوٹے تو اپنے علاوہ کچھ نظر آئے اور ہٹ دھرمی اور بے حسی کا کچھ مداوا ہو سکے ۔
Nusrat Aziz
About the Author: Nusrat Aziz Read More Articles by Nusrat Aziz: 100 Articles with 86122 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.