لانگ مارچ اور عوامی مسائل

وطن عزیزمیں جس طرح کے حالات پیدا کیے گئے یا بنائے اور دکھائے گئے ان کی وجہ سے وطن عزیز کی عالمی برادری مین ناصرف بدنامی ہو ئی ہے بلکہ اس کی وجہ سے ملکی معیشت کا بیڑا بھی غرق ہو ا ہے ڈاکٹر طاہرالقادری کے لانگ مارچ سے اسلام آباد کے شہریوں کا جینا محال ہو چکا تھا اوپر سے رہی سہی کثر اسلام آباد کی انتظامیہ کی غلط سیکیورٹی پالیسی کی وجہ سے خراب ہو گئی تھی اور اسلام آباد کو ایک مکمل فوجی چھاونی میں بدل دیا گیا تھا جس کی قطعا کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس سے پہلے ہونے والے لانگ مارچ اور اور جلسے جلوسوں میں لوگوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوتی تھی مگر یہ خاص قسم کا پروٹوکول اور خاص قسم کی نوازشیں صرف ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے مارچ کے لئے ہی کیوں یقینا اس کے پیچھے بہت سے خفیہ ہاتھ سرگرم تھے جو پاکستان اور یہاں کے جمہوری سسٹم کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے اور اس لانگ مارچ کا اگر موازنہ اس سے پہلے دفاع پاکستان کونسل کے مارچ سے کیا جائے تو یہ اس کے ایک تہائی کے برابر بھی نہیں ہے ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی جانب سے کیے جانے والے مطالبات بے تکے ہیں جن کا یہ وقت نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ سے ماورا کسی تبدیلی کا امکان تھا سو ان کی طرف سے کیے جانے والے مطالبات ہوا میں تیر چلانے کے مترادف تھے ان کے ساتھ جو ہمدردیاں لوگوں کی طرف سے لانگ مارچ کے شروع ہوتے وقت تھیں ان کے غیر جمہوری مطالبات کی وجہ سے کافی حد تک کم ہو گئی تھیں جس کا احساس ان کو بھی ہو رہا تھا اور اگر دیکھا جائے تو منہاج القران ایک مذہبی جماعت ہے مگر پاکستان کی جتنی بھی مذہبی جماعتیں ہیں ان میں سے کسی نے بھی ان کی حمایت نہ کر کے ثابت کر دیا کہ پاکستان کی تمام سیاسی مذہبی جماعتیں ناصرف جمہوریت پسند ہیں بلکہ غیر جمہوری قوتوں کو ناپسند بھی کرتی ہیں جو کہ خوش آئیند بات ہے بہت سے لوگوں کی جانب سے اس بات اشارہ دیا جا رہا تھا کہ کچھ خاموش قوتیں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کی پشت پناہی کر رہی ہیں جس کی وجہ سے ایک بہت سے جمہوریت پسندپاکستانیوں کو شدید تشویش لاحق ہو گئی تھی اور لمحہ ب لمحہ تبدیل ہوتی صورتحال کافی حد تک پریشان کن تھی کیونکہ میڈیا ہر وقت مرچ مصالحہ لگا کر خبروکو ایسے پیش کر رہا تھا کہ جیسے بس حکومت گئی کہ گئی لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا لوگوں کی تشویش میں کمی ہو تی گئی کیونکہ کہ اب کسی بھی غیر جمہوری قوت کے لیے جمہوریت پر شب خون مارنا اتنا آسان نہیں تھاکیونکہ آزاد عدلیہ باشعور عوام ایک جیتا جاگتا میڈیا یقینا وہ بڑی طاقتیں ہیں جو کہ غیر جمہوری قوتوں کے راستے کی سب سے بڑی دیوار ہیں اس حوالے سے جس طرح اپوزیشن جماعتوں نے جمہوریت کے فروغ اور اسکی حفاظت کے لئے مشرکہ اعلامیہ جاری کیا اس سے ان خفیہ طاقتوں کو ایک پیغام ضرور مل گیا کہ پاکستان کے عوام اور یہاں کے لیڈر اور تمام سیاسی جماعتیں کسی بھی صورت میں غیر جمہوری رویوں کو آگے آنے کا موقع نہیں دیں گی ایک بات اور واضح ہو گئی کہ جب سے اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا ہے ڈاکٹر طاہرالقادری کے رویے میں ایک عجیب قسم کی مایوسی اتر آئی تھی وہ لوگوں کو قسمیں دے دے کر اپنا ساتھ دینے کا کہہ رتھے اور ان جماعتوں کو جن کا ان سے ایجنڈا ملتا جلتا ہے ان کو اپنے ساتھ آنے کی دعوت دے رہے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح ان کے لانگ مارچ کواور زیادہ تقویت مل سکے لیکن یہ بات یقینا ڈاکٹر طاہرالقادری کے لئے پریشان کن تھی کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پوزیشن کمزور ہو رہی تھی کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو منظم رکھنا اور ان کے رہن سہن اور کھانے پینے کا نتظام کرنا یقینا منہاج القران کے لیے مشکلات کا باعث بن رہا تھا اور ان خفیہ قوتوں کے لئے بھی پریشان کن تھاجن کا خیال تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے مارچ کے دو تین دن بعد وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گے یوں ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب اس لانگ مارچ کے ہیرو کے طور پر عوام میں اور ان طاقتوں کے سامنے آ جائیں گے لیکن پاکستان کی سیاسی جماعتیں جو کہ اب پہلے سے زیادہ ہوشیار ہو چکی ہیں انھوں نے آنے والے خطرات کو بھانپ لیا اور بر وقت اقدامات اٹھاتے ہوئے ان طاقتوں کا راستہ روکنے میں اہم کردار ادا کیا اپوزیشن جماعتوں کے حالیہ فیصلوں کے بعد حکومت کو بھی اطمینان نصیب ہوا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے مارچ کی وجہ سے ایک بار پھر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو جو چاہیے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں اسمبلی کے اندر ہوں یا باہر ایک دوسرے کے بہت قریب کر دیا ہے لیکن یہ سب کچھ عوام کے لئے نہیں ہے بلکہ ان سیاسی جماعتوں کے اپنے مفادات کے لئے تھا ان کے اس اکھٹا ہونے میں کوئی بھی عوامی مسئلہ جیسا کہ لوڈشیدنگ ،گیس کا بحران ،آتے کا بحران امن و امان کا مسئلہ یا دوسرے دیگر مسائل کے بارے میں کوئی غور نہیں ہوا ہاں مگر؟غور ہوا تو ضرور مگر اپنی اپنی باری کا کسی ایک ایجندے میں بھی عوامی مسائل کا کوئی تذکرہ دیکھنے کو نہیں ملا کیا ہی اچھا ہوتا کہ اپوزیشن کا یہ اکھٹ عوامی مسائل کے حل کے لئے ہوتا عوام کو اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے کہ جب بھی ان سیاسی جماعتوں کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو وہ سب ایک ہو جاتے ہیں کھبی میثاق جمہوریت کی شکل میں کھبی این آر او کی شکل میں لیکن کیا وجہ ہے کہ کھبی یہ تمام جماعتیں ملک کے غریب عوام کو ریلیف دینے کے لئے ایسے معاہدے نہیں کرتی کیا ہم عوام ان کے لئے کچھ نہیں ہیں اگر حکومت یا اپوزیشن جماعتوں کو اپنی نوکری خطرے میں لگے تو یہ لوگ فورا ایک ہو جاتے ہیں اس کے بر عکس اگر معاملہ عوام کے فائدے کا ہو تو یہ اس کو طول دے دے کر اتنا لمبا کر دیتے ہیں ہیں کہ اس کے فوائد ایک غریب تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنی افادیت کھو دیتے ہیں حالیہ ہونے والے مارچ سے نہ تو حکومت کا کوئی نقصان ہوا ہے اور نہ اپوزیشن جماعتوں کا نہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا اور نہ ان کی جماعت کا اس میں نقصان تو صرف اور صرف پاکستان کا اور یہاں کے عوام کا ہوا ہے جو کہ سٹاک مارکیٹ کریش کرنے بعد ازاں اسلام آبادکے تجارتی حب بلیو ایریا کو کئی دن سے یرغمال بنانے کی وجہ سے جو نقصان ہو ا وہ عوام کا ہی تو نقصان ہے اور جس طرح کے مذاکرات ہوئے وہ تو لانگ مارچ کے بغیر بھی ہو سکتے تھے یوں پورے ملک کو بلاک کرنے سے نہ تو قادری صاحب کو کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی پاکستان کے عوام کو ہاں مگر کچھ لوگوں کو یکجا کرنے کے لئے یہ ضرور فائدہ مند ہوا ہے ۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 227316 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More