کراچی کے موجودہ حالات آج کی
پیداوار نہیں جیسے محض جھنڈے اتار نے کے بعد لپیٹ کر ایک کونے میں رکھ دینے
سے حل کردیا جائے گایا کسی مخصوص جماعت کو مورد الزام قرار دےکر بری الزما
ہوجائیں گے۔کراچی کی بے چینی دراصل اس کے احساس محرومی کا مجموعی اظہار ہے
جیسے موقع پرست اور مفاد پرست عناصراپنے مذموم مقاصد کےلئے استعمال کرتے
چلے آرہے ہیں۔کراچی میں قیام امن کی تجاویز کوبے موقع اعتراضات داغنے کی
موسمی سیاست کی نظر کردیا جاتا ہے۔ کراچی کے زمینی حقائق سے نا آشنا طالع
آزما اپنی سیاسی دوکان چمکانے کےلئے قوم سے محبت کے جذباتی لن ترانیوں کے
قلابے مارتے نظر آتے ہیں اور یہی موسمی سیاستدانوں بعد ازاں ہلاک ہونے
والوں کے جنازوں میں جانے سے گریز اس لئے کرتے تھے کیونکہ انھیں اپنے
کارکنان کو جواب دینے سے کوفت ہوتی رہی ہے ۔کبھی کوئی تجزیہ نگار ایسے قبضہ
گیری کی جنگ قرار دے دیتا ہے تو کوئی" اے بی سی ڈی" کرکے بھتہ کی جنگ قرار
دے دیتا ہے ۔ کوئی ایسے اپنے زاویئے سے اپنے نظرئےے کے خلاف جنگ قرار دیتا
ہے ۔لیکن کیا وجہ ہے کہ حکومتی رٹ ان علاقوں میں قائم نہیں کرتی جہاں جرائم
کی پرورش کی تدریس گاہیں اپنا کام بخوبی سے سر انجام دے رہے ہیں۔لاشوں پر
سیاسی قلابے مارنا بہت آسان اور عوامی جذبات کو بھڑکنا اس سے زیادہ آسان ہے
۔ کسی بھی قوم کو بے وقوف بنانا بہت مشکل ہے لیکن انھیں جذبات میں لانا بہت
آسان ہے۔جذبات کو مذہب سے یا لسانیت سے وقتی طور پر تو مفلوج بنایا جاسکتا
ہے لیکن دائمی تخیلاتی سیراب میں الجھانا ناممکن ہے۔کراچی میں سوچے سمجھے
منصوبے کے تحت قومیتوں کو لڑانے کی سازش کسی قوم کی نہیں ہوسکتی کیونکہ
قوموں کا ٹکراﺅ تاریخ میں خوں آشام لفظوں میں لکھا جاتا رہا ہے ۔ کراچی کے
مسئلے کا واحد حل خود مہاجر ،پختون، بلوچ، سندھی اور پنجابی قومیتوںکے پاس
ہے۔ حکومت کوان احساس محرومیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا جن کی وجہ سے مملکت خداد
داد پاکستان دولخت ہوا۔ آج اگر پنجاب میں سرائیکی عوام اپنے حقوق کی جد
وجہد کر رہے ہیں تو اسی طرح خیبر پختونخوا میں ہزاروال کر رہے ہےں۔ حقوق کے
حصول کےلئے جب آواز اٹھائی جاتی ہے تو منظم انداز میں کراچی میں بد امنی کی
فضا پیدا کرکے لسانیت و فرقہ وارےت کی آگ میں پٹرول ڈال کر ایسے مزید
بھڑکھا دیا جاتا ہے اور پاکستان کی معاشی شہہ رگ کو مفلوج کرنے کی کوشش میں
سازشی عناصر وقتی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔عوام کو اپنے معاشی ، سماجی
مسائل کا حل درکار ہے لیکن سازشی عناصر اپنے ایجنڈے کے تحت مصروف عمل ہوکر
تمام قومتیوں کو باہمی دست و گریباں کرنے کےلئے دن رات مشغول ہوجاتے
ہیں۔کراچی میں قیام امن کا واحد حل علاقہ امن کمیٹیاں ہیں جنھیں عوام کو
ازخود فعال کرنا ہوگا۔تمام قومیتوں کے درمیان اتحاد کا باہمی اظہار کینہ
پرور موسمی سیاست دانوں کو راس نہیں آتا اس لئے ان کے چیلے بد مستی میں شہر
میں امن کی فضا کو خراب کردیتے ہیں۔ علاقا ئی محلہ کمیٹیوں کا قیام ناگزیر
ہے کیونکہ اس کے بغیر مفاد پرستوں کی بیخ کنی ممکن نہیں ہے۔ علاقہ محلہ
کمیٹیوں میں تمام قومیتوں کے نمائندے شامل ہوں، امام مسجد ، اساتذہ،خواتین
سماجی تنظیمیں پر مشتمل کمیٹی صرف اپنے علاقے کے امن کی ترجمانی کریں اور
اپنی آنے والی نسلوں کو جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ رکھنے کےلئے فکر و تدبر
سے کام لیں۔علاقائی امن کمیٹیوں کی بنیاد اگر لسانیت پر رکھی گئی تو اس کے
نتائج کبھی بھی حوصلہ افزا نہیں ہونگے۔ ایسی شخصیات جو لسانی عصبیت کی
سیاست سے نالاں ہیں انھیں اپنے اوطاقوں اور ڈیروں سے باہر نکل کر آگے آنا
ہوگا۔نئی نسل کی فکری آبیاری کےلئے ایسے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ہمیں خود
اٹھنا ہوگا جنھوں نے نام نہاد سیاسی جھنڈوں کی آڑ لے رکھی ہے ۔ جس دن عوام
نے اپنی ذمے داری کا احساس کرلیا اس دن کراچی میں امن کےلئے مشکل حل آسان
ہوجائے گا۔لیکن عوام ان موسمی سیاستدانوں کے نام نہاد دعوﺅں پر الجھتے رہیں
گے تو امن کے لئے کوئی آپشن موجود نہیں ہوگا اور پھر احساس محرومی کا شکار
کراچی میں ہونے والی قبضے کی جنگ میں نفرت کا ایندھن بن کر اپنی نسل کو
تباہ کرتے رہیں گے۔جب کبھی کسی بھی قوم کو جبر کا سہارا لیکر دبایا گیا تو
اس قوم سے ایسی قوت نے جنم لیا جس نے اپنے حقوق کے حصول کے ہر وہ راستہ
اختیار کیا جیسے تاریخ نے انقلاب کا نام دیا۔فکری انقلاب سے خونی انقلاب تک
کا وقفہ اب بھی ہم سب کو میسر ہے اگر عوام نے اس حقوق کی جنگ میں اپنی مدد
آپ نہیں کی تو خونی انقلاب کا راستہ بھی کوئی نہیں روک سکے گا۔ہمیں اپنے
آنے والے کل کو محفوظ بنانے کےلئے آج ہی کام کرنا ہوگا اور جو کام آج کرنا
چاہتے ہیں ایسے ابھی سے شروعات کرنا ہوگی۔ بس حل یہی ہے فیصلہ مشکل نہیں
عمل کرنا دشوار ہے۔کراچی میں امن کے قائم کے معاملات کے لئے حکومت پرتوقف
کرنے کی روایتی بے حسی کو ختم کرنا ہوگا ۔عوام کو اپنی مدد آپ کے تحت خود
میدان عمل میں آنا ہوگا ۔ عوام کی مسلسل خاموشی خود ان کےلئے نقصان دہ ہے۔
آنکھیں بند کرنے کی روش سے خود کو نکال کر ہوش کی دنیا میں آنا ہوگا ۔ شہر
میں لگنے والی آگ اب گلیوں اور گھروں تک پہنچ چکی ہے۔ فیصلہ عوام کو ہی
کرنا ہے کہ بے حس حکومت کی بے حسی کے ہاتھوں مرنا ہے یا پھر جدوجہد کرتے
ہوئے ؟۔ |