تحریک منہاج القرآن کے سربراہ
ڈاکٹر طاہر القادری کی قیادت میں پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ منظم،
پُرامن لانگ مارچ اور دھرنے کی کامیابی سے عوامی طاقت اور عوامی شعور کی
ایک قابل فخر مثال سامنے آئی ہے جو تاریخ پاکستان کا ہمیشہ روشن باب رہے گی۔
لاکھوں لوگوں کے پُرامن مارچ اور دھرنے سے اقوام عالم میں پاکستانی قوم اور
پاکستان کا حقیقی امیج سامنے آیا ہے جسے طے شدہ منصوبے کے تحت پاکستان دشمن
قوتیں دہشت گردانہ رنگ دینے کے لئے دہشت گردی اور دہشت گردوں کی سرپرستی
کرتی ہیں۔
دھرنے میں پاکستان کی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے بے شمار ایسے افراد اور
شخصیات شامل تھیں جن کا براہ راست تحریک منہاج القرآن سے تعلق نہیں تھا نہ
ہی ان کی شناخت ڈاکٹر طاہر القادری کے عقیدت مندوں کے طور پر نمایاں تھی
البتہ ڈاکٹر طاہر القادری کے مطالبات پوری پاکستانی قوم کی آواز تھے جسے
عام طور پر رعایا یا عوام کہا جاتا ہے تاہم دو حصوں میں تقسیم پاکستانی قوم
میں سے عوامی جذبات اور مطالبات کا تذکرہ تو میں نے کردیا البتہ قوم کا
حکمران طبقہ آج تک صحیح معنوں میں عوامی حقیقی جذبات اور مطالبات کا ترجمان
جاگیردارانہ سوچ اور اشرافیہ کی مخصوص ذہنیت کی وجہ سے ثابت نہیں ہوسکا۔
ملک میں آج تک کوئی تبدیلی صحیح معنوں میں عوامی مفاد میں عملاً سامنے نہیں
آئی۔ تاہم چیف جسٹس آف پاکستان کے ان ریمارکس کے بعد کہ” ملک میں صرف
جمہوری نظام چلے گا“ اس باب میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ آج کی آزاد
عدلیہ آئین کے محافظ ادارے کی حیثیت سے جمہوری نظام کی بقا و استحکام کےلئے
پوری طرح چوکس ہے۔ بدھ کے روز سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات سے متعلق کیس
کی سماعت کے دوران تین رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس افتخار محمد
چوہدری کا کہنا تھا کہ” کسی اور نظام کی ہمارے ملک میں گنجائش نہیں
ہے“۔موجودہ عدلیہ کی طرف سے جمہوری نظام کی بقا و حفاظت کے عزائم کا اظہار
اس سے پہلے بھی کئی بار ہو چکا ہے۔پاک فوج نے بھی پچھلے پانچ برسوں کے
دوران حکمرانوں کی خراب کارکردگی و بے تدبیری اور عوام میں کئی امور پر
پائے جانے والے اضطراب کے باوجود امور مملکت میں عملی مداخلت سے اجتناب
برتا ہے ۔ تمام سیاسی و سماجی قوتوں میں بھی اس بات پر اتفاق رائے پایا
جاتا ہے کہ ملک میں جمہوری نظام کو جاری و ساری رہنا اور جمہوری اقدار کو
پروان چڑھنا چاہئے ۔ خرابی اس مقام سے شروع ہوتی ہے جہاں بعض افراد، گروہ
یا پارٹیاں جمہوری نظام کو کسی بھی جائز یا ناجائز طریقے سے انتخابات میں
کامیابی حاصل کر کے ایوان اقتدار میں پہنچنے اور من مانے طور پر ملکی وسائل
استعمال کرنے تک محدود سمجھتی ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں جمہوری نظام کی وسیع
تر مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی کے خیال میں یہ نظام، اس کے مفادات کا
تحفظ کر سکتا ، اسے استحصال سے بچا جا سکتا، اسے انصاف فراہم کر سکتا اور
اس کی فلاح و بہبود پر بھرپور توجہ دے سکتا ہے۔وطن عزیز میں کئی حلقوں کا
تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر جو نظام چلایا جا رہا ہے وہ
بعض گروہوں اور طبقوں کے استحصالی مفادات کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا
جا رہا ہے۔ پچھلے برسوں کے دوران انتخابی عمل اور نظم حکومت میں جس انداز
سے آئینی شقوں کی کھلی خلاف ورزی کی گئی اس کی وجہ سے عوام کے اضطراب میں
اضافہ ہوا۔ ضمنی الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن کی آئین کی خلاف ورزیاں
روکنے میں ناکامی نے اس مایوسی میں اضافہ کیا ہے جس سے عوام کے لئے ایسی ہر
تحریک پرکشش بن گئی ہے جوتبدیلی کی آواز بلند کرتی ہو ۔ایسے وقت کہ لانگ
مارچ دھرنوں اور احتجاج کا ماحول بن رہا ہے، معاملات انارکی کی طرف چلے
جانے کے خدشات بھی یکسر بے وزن نہیں ہیں۔ اس لئے آئینی طور پر انتخابات کا
انعقاد یقینی بنانے کے لئے حکومت اور اپوزیشن میں یگانگت پیدا ہوئی ہے تو
توقع کی جانی چاہئے کہ انتخابی قوانین کو عوامی امنگوں کے مطابق بنانے میں
تاخیر نہیں کی جائے گی۔اس ضمن میں انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمانی
کمیٹی کی تجاویز تیار ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی اپنے8جون 2012ءکے فیصلے
میںالیکشن کمیشن کو بعض انتخابی اصلاحات متعارف کرانے کی ہدایت کی ہے۔ ان
تجاویز و اصلاحات کو پارلیمینٹ میں منظوری کے لئے لانے سے قبل افہام و
تفہیم اور مذاکرات کا راستہ نکال لیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی ذات کے حوالے سے اٹھائے گئے کئی سوالات کے باوجود ان
کے بعض مطالبات کو پذیرائی ملی ہے تو اس کی بڑی وجہ عام آدمی کا یہ تاثر ہے
کہ وطن عزیز میں الیکشن صرف امیروں کا کھیل ہے ،کم وسیلہ فرد خواہ عوامی
شاعر حبیب جالب ہو یا مزدوروں کے لئے زندگی وقف کرنے والا مرزا ابراہیم، اس
کے لئے اس میدان میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے حکومتوں کی ناکامی کو جمہوری
نظام کے کھاتے میں ڈالنے کی بجائے ہمیں انتخابی طریق کار میں اصلاحات لانی
ہونگی۔سپریم کورٹ کا بھی یہی کہنا ہے کہ انتخابی طریق کار کو بہتر بنانے کا
سلسلہ جاری رہنا چاہئے۔یہ عمل چلتا رہے گا تو مستقبل کی حکومتوں سے عوامی
فلاح و بہبود اور گڈ گورننس کی توقعات وابستہ کی جا سکیں گی۔ اس کے لئے
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں شامل جماعتیں انتخابات میں
اپنے ٹکٹوں کے اجراءکے لئے سرمائے اور جاگیروں کی طاقت کی بجائے عوامی
خدمات ،دیانت داری اور اچھے کردار کی شہرت کو معیار بنائیں۔ |