ایمان کی حلاوت

تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایمان کی کیفیات اور نیک اعمال کی وجہ سے اس ایمان کے نور میں کمی و بیشی ہوتی ہے اس لیے قرآن و سنت میں بہت سے اعمال کے بارے میں فرمایا گیا ہے ان سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور بہت سے اعمال کے بارے میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ان سے ایمان کی حلاوت یعنی ایمان کی مٹھاس نصیب ہوتی ہے اور اسی سے ایمان کا کمال وابستہ ہے ، ہر دور اہل اللہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ان نیک اعمال کو زیادہ سے زیادہ بجا لائیں تاکہ ایمان کا کمال نصیب ہو۔ ذیل میں اسی موضوع پر ایک حدیث مبارک اور اس کی تشریح پیش کی جاتی ہے۔

حضرت انس(رض)سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص میں تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کی حلاوت پالے گا، ایک یہ کہ اللہ ورسول ﷺ کی محبت اس کو تمام دوسری چیزوں سے زیادہ ہو، دوسرے یہ کہ جس آدمی سے بھی اسے محبت ہو صرف اللہ ہی کیلئے ہو اور تیسرے یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف پلٹنے سے اس کو اتنی نفرت اور ایسی اذیت ہو جیسی کہ آگ میں ڈالے جانے سے ہوتی ہے۔﴿بخاری ومسلم﴾

شارحین حدیث نے لکھا ہے کہ حلاوت ایمان سے یہ مراد ہے کہ طاعات میں لذت محسوس ہو اور خدا و رسول اللہ ﷺ کی رضامندی کے لئے بڑی سے بڑی تکالیف بھی گوارا ہوں، حدیث میں تین چیزوں کا ذکر ہے ان میں سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ ورسول اللہ ﷺ کی محبت دوسری سب چیزوں کی محبت پر غالب ہو، اللہ تعالیٰ کی محبت تو اس لئے کہ وہ خالق و مالک اور منعم حقیقی ہے ساری نعمتیں اس کے فضل و کرم سے وابستہ ہیں، رسول اللہ ﷺ سے محبت اس لئے کہ روحانی انعامات اور علوم الہٰیہ کا وسیلہ اور واسطہ ہیں بلکہ آپ ﷺ ہی باعث تخلیق کائنات ہیں، پھر ان دونوں محبوبوں یعنی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جو نعمتیں حاصل ہوئیں ان میں سب سے زیادہ عزیز ترین دولت ایمان کی دولت ہے اور ان کی سب سے زیادہ مبغوض چیز کفرو شرک ہے،لہٰذا ایمان کی دولت کسی حالت میں ہاتھ سے نہیں دی جاسکتی اور کفر و شرک کے ادنیٰ شائبہ سے بھی پوری بے زاری اور نفرت ہونی چاہئے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا دل پر ایسا تسلط ہو کہ اگر کسی اور سے بھی محبت کرے تو اللہ ہی کیلئے کرے اور اللہ کا دین اس کو اتنا عزیز ہو کہ اس کے چھوڑنے اور اس سے پھرنے کا خیال اس کے لئے آگ میں گرجانے کے برابر تکلیف دہ ہو۔

علامہ ابن ابی جمرہ مالکی اندلسی﴿م ۹۹۶ھ﴾ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جس حلاوت کا اس حدیث میں ذکر کیا گیا ہے علمائ میں اس کے متعلق اختلاف ہے کہ یہ حلاوت حسی ہے یا معنوی، ایک جماعت نے جو کہ فقہائ ہیں اس کو معنوی اور غیر محسوس پر محمول کیا ہے اور ایک جماعت نے الفاظ حدیث کو ظاہر پر رکھا اس میں تاویل نہیں کی اور حلاوت کو حسی حلاوت ہی پر محمول کیا ہے، یہ حضرات صوفیا ہیں اور اس مسئلہ میں حق ان ہی کے ساتھ ہے﴿ واللہ اعلم﴾ کیونکہ حلاوت اور شیرینی سے محاورات میں حسی حلاوت ہی مراد ہوتی ہے، انہوں نے جو مطلب سمجھاہے اس میں حدیث کے الفاظ کو ظاہر پر رکھا گیا ہے کوئی تاویل نہیں کی اور جب تک ظاہر لفظ کے خلاف کوئی دلیل نہ ہواس وقت تک بہتر یہی ہے کہ حدیث کو ظاہر پر رکھا جائے تاویل نہ کی جائے اور صوفیا نے جو مطلب بیان کیا ہے اس کی تائید حضرات صحابہ(رض) اور سلف صالحین اور اہل معاملات کے احوال سے ہوتی ہے چنانچہ اس کے متعلق جو حکایات منقول ہیں ان میں سے ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ جب ان کو کفر پر مجبور کرنے کے لئے گرم پتھر پر لٹا کر سخت سے سخت تکلیف دی گئی تو وہ اَحَد اَحَد ہی کہتے رہے کیونکہ عذاب کی تلخی ایمان کی حلاوت کے ساتھ مل کر فنا ہو گئی تھی وہ حلاوت ایمانی کی چاشنی میں ایسے مست تھے کہ عذاب کی تلخی محسوس نہ ہوئی۔

اسی طرح ان کے انتقال کے وقت گھر والے تو وا کرباہ ﴿ہائے مصیبت﴾ پکار ہے تھے اور وہ واطرباہ﴿ہائے خوشی﴾ کہہ رہے تھے اور یوں فرمارہے تھے، غداًألقی الاحبہ محمداً وحزیہکل کو میں اپنے دوستوں سے ملوں گا محمد ﷺ اور ان کی جماعت سے ملاقات کروں گا، تو دیکھئے موت کی تلخی حلاوت لقاسے، جوکہ حقیقت میں ایمان کی حلاوت تھی مل گئی اور فنا ہوگئی تھی اس لئے وہ موت کے وقت خوش تھے اور دوسرے رورہے تھے، اس قسم کے صحابہ کرام(رض) کے اور عارفین کے متعدد واقعات ہیں۔﴿رحمۃ القدوس ترجمہ بہجۃ النفوس﴾

’’حضرات صوفیا کے نزدیک یہ مسئلہ بد یہی اور قطعی ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر سلاطین دنیا کو اس دولت کا پتہ لگ جائے جو ہمارے پاس ہے تو وہ تلواریں لے کر ہم پر چڑھ آئیں اور اس کو چھیننے کی کوشش کریں۔ ان کو ذکر اللہ اور حضوری دائم اور معرفت الٰہی میں ایسی حلاوت محسوس ہوتی ہے کہ دنیا کی کسی چیز میں وہ حلاوت نہیں ملتی،ذکر اللہ اور طاعت ان کی طبیعت ثانیہ اور غذا بن جاتی ہے پس یہ حدیث ہی طرق تصوف کے اثبات میں تنہا کافی ہے کیونکہ حلاوت ایمان کے مطلوب ہونے میں کسی کو کلام نہیں ہوسکتا اور یہ حلاوت بغیر طریق تصوف اور سچے صوفیا کی محبت و صحبت کے سوا نصیب نہیں ہوسکتی۔‘‘

رسول اللہ ö نے اس حدیث میں تین باتیں بیان فرمائی ہیں وہ سب درحقیقت پہلی ہی بات کی طرف راجع ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول سب سے زیادہ محبوب ہوں کیونکہ اللہ اور رسول کی محبت کو وہ باتیں لازم ہیں جو بعد میں ذکر کی گئی ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد جو دو باتیںبیان فرمائی ہیں ان کے ذکر سے مقصود یہ ہے کہ جو کوئی اللہ اور رسول اللہ ö کی محبت کا دعویٰ کرے اس کو ان دوموقعوں پر اپنے نفس کا امتحان کرنا چاہئے، اگر کسی سے محبت ہو تو دیکھے کہ اس سے کیوں محبت کرتا ہے، اور یہ دیکھے کہ اگر اس کو کفر اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا﴿نعوذباللہ﴾ تو اس وقت اس کے نفس کی کیا حالت ہوگی، کیونکہ بعض دفعہ نفس میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی محبت کادعویٰ پیدا ہو جاتا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے یہ دو علامتیں بیان فرمادی ہیں جو دعویٰ اور حقیقت میں فرق کو ظاہر کرتی ہیں۔‘‘﴿ایضاً﴾
ایمان کا ثمرہ عمل ہے اور عمل کی پختگی اتباع سنت سے ہے

علامہ ابن ابی جمرہ مالکی اندلسی(رح) مزید لکھتے ہیں:۔
’’حلاوت ایمان کی حقیقت کمال ایمان ہے اور کمال ایمان کی علامت وہی ہے جو حدیث میں بیان کی گئی ہے یعنی کسی سے اللہ کے لئے محبت کرنا اور کفر سے ایسا گھرانا جیسا آگ میں ڈالے جانے سے گھبرانا ہے اور پھل میں شیرینی اسی وقت آتی ہے جب وہ پختہ ہوجائے پس ایمان کا پھل عمل ہے اور عمل کی پختگی اتباع سنت سے ہے کیونکہ رسول اللہ ö نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی کا عمل قبول نہیں فرماتے جب تک پختہ نہ ہو جائے، صحابہ نے عرض کیایا رسول اللہ ﷺ! عمل کی پختگی کیاہے، فرمایا یہ کہ اس کو ریا اور بدعت سے پاک وصاف رکھے، پس عمل خلافت سنت ہونا اس کے لئے ایک آفت ہے جو پختگی سے مانع ہے اور جب پھل پختہ ہی نہ ہوگا تو ظاہر ہے کہ شرینی کے درجہ تک بھی نہ پہنچے گا، غرض جب عمل میں کوئی آفت آجائے گی، خواہ ریا سے بامخالفتِ سنت سے تو وہ پختہ نہ ہوگا لہذا قبول بھی نہ ہوگا، چنانچہ بعض عوام اسی دائرہ کے اندر ہیں کیونکہ وہ سنت سے جابل ہیں، اگرچہ ان میں سے بعضوں کو علم کا دعویٰ ہے مگر جس علم کا عالم سنت نبویہ سے جابل ہو وہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کا مصداق ہے‘‘ ان من العلم لجھلا‘‘ کہ بعض علم بھی جہل ہے، اور پوری پختگی اور عمدگی تو خاص ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے اور عمل کی کمال عمدگی یہ ہے کہ محض اللہ اور رسول اللہ ö کی محبت کی وجہ سے عمل کیا جائے اور کوئی غرض نہ ہو جیسا کہ اس حدیث میں وارد ہوا، اس وقت اس کے عمل کی اللہ تعالیٰ کے یہاں قدر کی جائے گی۔﴿ رحمتہ القدوس ترجمہ بہبمتہ النفوس﴾

شیخ ابن عطاء اللہ اسکندری(رح)﴿709ھ﴾ کا ارشاد
شیخ ابن عطاء اللہ نے لکھا ہے کہ ا س حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو قلوب تندرست ہیں یعنی غفلت و خواہشات نفسانیہ وغیرہ کے امراض سے محفوظ ہیں وہ روحانی لذتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، جس طرح ایک صحت مند آدمی کھانوں کے صحیح ذائقوں سے لطف اندوز ہوتا ہے اور مریض کوہر اچھی چیز کا ذائقہ بھی کڑوامعلوم ہوتا ہے، حتی کہ صفرا کے مریض کو شہد جیسی میٹھی چیز بھی کڑوی معلوم ہوتی ہے۔

نیز فرمایا کہ جو لوگ خداتعالیٰ کو رب حقیقی مان کر اس کے احکام کے پوری طرح مطیع و منقاد ہوجاتے ہیں وہی درحقیقت عیش کی لذت اور تفویض کی راحت محسوس کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو کر دینا میں بھی انعامات و کرامات کی بارش فرماتا ہے ایسے لوگوں کے قلوب امراض روحانی سے محفوظ رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا اور اک صحیح اور ذوق سلیم رہتا ہے اور وہ پوری طرح ایمان کا ذائقہ اور حلاوت محسوس کر لیتے ہیں﴿ فتح الملہم﴾

علامہ نووی(رح) نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ علما کے نزدیک حلاوت سے مراد طاعات کو لذید ومحبوب سمجھنا، خدا و رسول کے راستہ میں تکالیف و مصائب کو بخوشی برداشت کرنا اور ان کو دنیوی مرغوبات پر ترجیح دینا ہے۔﴿ شروح بخاری﴾

حلاوت ایمان پانے کا ایک عمل
حضورنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’ من غض بصرہ عن محاسن امراۃ اثابہ اللہ ایماناً یجد حلاوتہ فی قلبہ‘‘ یعنی جس نے اپنی نگاہ کسی اجنبی عورت کو کھورنے کے بجائے نیچی کرلی، اللہ تعالیٰ اس کے عوض ایمان میں ایسا اضافہ فرمادیتے ہیں جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔

نیزنبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:’’ من ترک شیاً عوضہ اللہ خیراً منہ من حیث لا یحسب‘‘ جو شخص اللہ کے واسطے کسی چیز کو چھوڑتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عوض میں اس سے بہتر چیز ایسی جگہ سے عطا فرماتے ہیں جہاں اس کا گمان بھی نہ کیا جا سکتا تھا ۔﴿ اور اللہ کا تو خوبصورت وعدہ ہی بڑی دولت ہے﴾ ۔ ﴿بہجۃ النفوس﴾

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں صاحبزادہ محمد حسین چشتی قادری رحمہ اللہ کی کتاب تجلیات نبوت سے استفادہ کیا گیا ہے۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372633 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.