خیر کی کنجی بنئے!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ، نبی کریم ﷺ کی ایک سبق آموز، حکمت سے بھرپورحدیث روایت کرتے ہیں :
’’قال رسول اللہ ﷺ : ان من الناس مفاتیح للخیر،مغالیق للشر، وان من الناس مفاتیح للشر، مغالیق للخیر، فطوبی لمن جعل اللہ مفاتیح الخیر علی یدیہ، وویل لمن جعل اللہ مفاتیح الشر علی یدیہ‘‘﴿سنن ابن ماجہ:237﴾
’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا:لوگوں میں کچھ ایسے ہیں جو خیر کی کنجیاں اور شرکے تالے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو شر کی کنجیاں اور خیرکے تالے ہیں۔ چنانچہ جس شخص کو اللہ تعالی خیر کی کنجی اور شر کاتالابنادیں وہ بڑا خوش نصیب ہے اور وہ شخص بڑابرباد ہے جسے اللہ نے شر کی کنجی اور خیرکاتالابنادیا ہو‘‘

ہم نے یہ حدیث مبارک پڑھ لی اس میں کتنی حکمت افروز بات ارشادفرمائی گئی جو ہر انسان کو اپنے کرداروگفتار کامحاسبہ کرنے پرآمادہ کرتی ہے، کیوں کہ دنیا میں انسانوں کی طبیعت اورمزاج اللہ نے ایسا بنایا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان سے ضرورمتاثرہوتا ہے مثلاًملازم اپنے آفیسر سے، اولاد اپنے والدین سے، محب اپنے محبوب سے، شاگرد اپنے استاذسے، مریداپنے مرشدسے ،مقتدی اپنے امام سے اور رعایااپنے نگران اورحکمران سے الغرض ہرچھوٹااپنے بڑے سے ضرورمتاثرہوتا اور اس کی نقالی کرتا ہے چنانچہ اگر بڑے میں خیر کا پہلو ہے تو چھوٹا اسی خیرکواپناتا ہے اور اگر اس بڑے کا رجحان شراوربرائی کی طرف ہے تو چھوٹے میں اسی شر کی طرف رغبت پیداہوتی ہے۔ اس حدیث میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اورصاف بتایاگیا ہے کہ تمام انسان خیراورشر کے اعتبارسے دوقسم کے ہیں:
۱:وہ انسان جو خیر کوپھیلاتے اورشرکومٹاتے ہیں اوران کے کرداروگفتار سے بھی خیرکے دروازے کھلتے اورشرکے دروازے بندہوتے ہیں اور ایسے لوگ بڑے خوش نصیب اور سعادت مند ہیں۔
۲: وہ انسان جو شرکوپھیلاتے اورخیرکومٹاتے ہیں اوران کے کرداروگفتار سے بھی شرکے دروازے کھلتے اورخیرکے دروازے بندہوتے ہیں اورایسے لوگ بڑے نقصان تباہی اورہلاکت وبربادی میں ہیں۔

اب دیکھنا ہے یہ کہ ایک انسان کس طرح خیرکی کنجی اورشرکاتالابن جائے تاکہ اس کاشمار خوش بختوں میں اور وہ ہلاکت سے بچ جائے۔ اس مقصد کے لیے اسے درج ذیل امورکااہتمام کرنا ہوگا:
﴿۱﴾اپنے تمام اقوال اورافعال میں اخلاص پیداکرے کیوں کہ اخلاص ہرخیراور ہر فضیلت کی جڑ اورسرچشمہ ہے اس کے بغیرتمام نیک اعمال بے کاراور رائیگاں بلکہ بہت دفعہ وبال کاباعث ہوتے ہیں۔امام ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں: تم نیت کی درستی اوراس کی حقیقت اچھی طرح سیکھ لو کیوں کہ یہ عمل سے زیادہ طاقت ور ہے اوریہ اچھی نیت بسااوقات انسان کو اتنی بلندی اوررفعت تک پہنچا دیتی ہے جہاں تک عمل نہیں پہنچا سکتا۔
﴿۲﴾اس سعادت کے حصول کے لیے خود کومحتاج سمجھ کر اللہ تعالی سے خوب عاجزی وانکساری کے ساتھ دعائیں کرے، کیوں کہ دعا بہت سی خیروں کولاتی اور بہت سی ہلاکتوں کودورکردیتی ہے ۔ اللہ تعالی اس بندے کو کبھی خالی نہیں لٹاتے جو اللہ سے مانگتا رہتا ہو اور نہ ہی ایسا مومن بندہ کبھی نامراد رہتا ہے جو اللہ ہی کو پکارتا ہو۔دیکھیے اللہ کے رسول ö نے ہمیں ہرمرتبہ جب بھی ہم اللہ کی بارگاہ میں مسجد حاضر ہوں یہ دعاسکھلائی ہے کہ یوں کہیں:اللہم افتح لی ابواب رحمتک.یعنی اے اللہ! میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دیجیے۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اتھزأ بالدعائ و تزدریہ. وماتدری بماصنع الدعائ
سھام اللیل لاتخطی ولکن. لھاامد وللامد انقضائ
فیمسکھا اذا ما شائ ربی. و یرسلھا اذا نفذ القضائ
﴿۱﴾تم دعا کامذاق اڑاتے ہواور اسے حقیر سمجھتے ہو؟ تمہیں معلوم نہیں کہ دعا نے کیا کام انجام دیا؟
﴿۲﴾رات کی دعاوں کے تیر غلطی نہیں کرتے لیکن ان کاایک وقت ہے اوراس وقت کاگزرنا ضروری ہے۔
﴿۳﴾میرارب جب تک چاہے ان کوروکے رکھتا ہے اور جب فیصلہ کردیتا ہے تو ان تیروں کونشانے پربھیج دیتاہے۔
﴿۳﴾تیسرا کام یہ ہے کہ انسان شرعی علم کی تحصیل میں ہردم کوشاں رہے کیوں کہ یہی علم انسان کو خیراورشرکی تمیزکراتاہے اور اسی علم سے انسان کے لیے فضائل وکمالات کاحصول اور رذائل وبری خصلتوں سے چھٹکاراملتا ہے۔علوم شرعیہ سے ہی حق اورباطل کی پہچان ہوتی ہے، سنت اوربدعت میں تمییز ہوتی ہے اور ہدایت اور ضلالت کافرق پتہ چلتاہے۔ اگرعلم شرعی نہ ہوگا تو نہ معلوم کتنی گمراہیوں، بدعات ورسوم اور سرگردانی کی وادیوں میں بھٹکتا رہے گا اور اسے اپنی اس گمراہی اور ہلاکت کی خبر تک نہ ہوگی!۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن فاتہ التعلیم وقت شبابہ .فکبرعلیہ اربعالوفاتہ
وذات الفتی واللہ بالعلم و التقی. اذا لم یکونا لااعتبار لذاتہ
﴿۱﴾جس نے عہدشباب میں علم حاصل نہیں کیا، تو اس کے مرجانے کی وجہ سے اس پرچارتکبیریں کہہ دو ﴿یعنی علم سے محرومی کی وجہ سے وہ مردے کے مانند ہے﴾
﴿۲﴾اللہ کی قسم نوجوان مرد کی شخصیت علم اورتقویٰ کی وجہ سے ہے، یہ دونوں نہ ہوں تو اس کی شخصیت غیرمعتبر ہے۔
﴿۴﴾عبادات کی ادائیگی پرخاص توجہ دی جائے اورپورے شوق ورغبت کے ساتھ فرائض کواداکرے، نماز کاسب سے زیادہ اہتمام کرے کیوں کہ یہ عمل خود انسان کو بھی برائیوں اورمنکرات سے روکتا ہے اور جب کوئی بڑا خود ان عبادات کی ادائیگی پرمدوامت اختیار کرے گا تو اس کے ماتحت افراد خواہ شاگرد ہوں یامریدین یاملازم وغیرہ وہ بھی ان عبادات کی طرف باآسانی مائل ہوسکیں گے۔
﴿۵﴾انسان خودکو اعلیٰ اقدار اور حسن اخلاق سے آراستہ کرے اور رذیل اخلاق وگھٹیاصفات سے خود کودوررکھے کیوں کہ خوش اخلاق انسان اگر کوئی نیکی کی بات نہ بھی کرے تو اس کے اس اعلی کردار سے ہی خیر کے بہت سے چشمے پھوٹتے ہیں اور اسی طرح اگر کوئی بداخلاق انسان کچھ نہ بھی بولے تو اس کی بداخلاقی ہر جگہ شر پھیلاتی پھرتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صن النفس و احملھا علی مایزینھا. تعش سالما و القول فیک جمیل
و لاتولین الناس الاتجملا. نبابک دھر او جفاک خلیل
﴿۱﴾ نفس کی حفاظت کرو اور اس کو محاسن کے اپنانے پرابھارو، زندگی پرامن گزارو گے اور اچھائی کے ساتھ ذکر کیے جاوگے۔
﴿۲﴾لوگوں سے کشادہ پیشانی سے پیش آؤ، زمانہ تم سے منہ موڑے یا دوست بے وفائی کرے﴿یعنی تم ہرحال میں اپنا اخلاقی معیار اونچا رکھو﴾
نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث مبارک ہے کہ:’’ تم میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب اورقیامت کے دن میری مجلس میں مجھ سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جس کے اخلاق تم میں سب سے اچھے ہوں گے‘‘۔ ﴿ترمذی﴾
﴿۶﴾اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت ورفاقت بھی ایک ایسی چیز ہے جس سے انسان میں خیر کے جذبات بڑھتے اوربرائی کے خیالات دورہوتے ہیں کیوں کہ نیک لوگوں کی مجالس کو فرشتے گھیرلیتے ہیں اور ان کو رحمت الٰہی ڈھانپے رکھتی ہے جبکہ برے اور شریر لوگوں کے ہم نشین شیطان ہوتے ہیں اور وہاں اللہ کی ناراضی اور غضب کے اثرات ہوتے ہیں جو انسان کے باطن میں سیاہی اور نیک اعمال سے بے رغبتی کاذریعہ بنتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ بہترین دوست کے آداب یوں بیان کرتے ہیں:
احب من الاخوان کل مواتی. وکل غضیض الطرف عن عثراتی
یوافقنی فی کل امراریدہ. ویحفظنی حیاوبعد مماتی
فمن لی بھذا لیت انی اصبتہ. لقاسمتہ مالی من الحسنات
﴿۱﴾ہراس دوست کومیں چاہتا ہوں جو میری حمایت کرے اورمیری لغزشوں سے چشم پوشی کرے﴿یعنی میری لغزشوں کواچھالتا نہ پھرے﴾
﴿۲﴾میری منشا کے کاموں میں میری تائید کرے، میری زندگی میں اورمرنے کے بعد بھی﴿میرے حقوق﴾ کاپاس ولحاظ رکھے
﴿۳﴾پس کوئی ہے میرے لئے اس وصف کاحامل؟ کاش میں اسے پالوں تو اپنی نیکیوں میں برابر کاحصہ داربنالوں۔
اور برے دوست سے بچنے کے بارے میں فرماتے ہیں:
اذا لم اجدخلاتقیا فوحدتی. الذ واشھی من غوی اعاشرہ
واجلس وحدی للعبادۃ آمنا. اقرلعینی من جلیس احاذرہ
﴿۱﴾جب نیک دوست میسر نہ ہوتو برے دوست کی ہم نشینی کے بجائے مجھے تنہا رہنا پسند ہے۔
﴿۲﴾اطمینان کے ساتھ اکیلے عبادت کے لیے بیٹھنا میری آنکھوں کے لیے زیادہ سکون بخش ہے اُس برے ہم مجلس سے جس سے میں پرہیز کرتا ہوں۔
﴿۷﴾لوگوں کے ساتھ میل جول اور دیگر معاشرتی معاملات میں خیرخواہی والابرتاؤ کریں اور جہاں تک ممکن ہوانہیں نیکی کی طرف راغب کریں اوربرائی سے ان کودور کریں۔یہ ایمان والوں کی خاص صفت اورنمایاں شعارہے جوانہیں منافقین سے جداکرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
والمومنون والمومنات بعضھم اولیائ بعض یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر﴿سورۃ التوبۃ﴾
اورایمان والے مرداورایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں، نیکی کاحکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔
﴿۸﴾اپنی آخرت اور اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونے کویاد رکھیں جہاں اچھے اعمال کااچھا بدلہ اوربرے اعمال کی سزا کو فیصلہ پورے عدل وانصاف اور بغیر کسی زیادتی کے کیاجائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ﴿سورۃالزلزال﴾
جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے قیامت کے دن دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی اسے بھی دیکھ لے گا۔
﴿۹﴾اس سعادت کے حصول کے لئے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ انسان خیر کے اسباب خواہ تحریر کی شکل میں ہوں یاتقریر وغیرہ کی شکل میں انہیں اپنے پاس زیادہ سے زیادہ جمع کرتا رہے اور جہاں بھی موقع ملے انہیں فی سبیل اللہ موقع کی مناسبت سے تقسیم کردے مثلاً دینی رسائل، دینی اخبارات، دینی پوسٹرز اور مستنددینی وشرعی معلومات پرمشتمل سی ڈیز یا کیسٹس وغیرہ اپنے دوستوں کو فراہم کرے اور اسی طرح عام اصلاحی لٹریچر عوامی مقامات پر احسن انداز سے تقسیم کرے یا اسی طرح کی کوئی بھی مناسب اور اصلاحی تدبیر بروئے کار لاکر خیر کو زیادہ سے زیادہ پھیلاسکتا ہے۔ مثلاً اگر اچھا لکھنے کی صلاحیت ہے تو نفس پرجبر کرکے اچھی اور دینی تحریرات لکھ کر مختلف جرائدورسائل وغیرہ کوبھیج دے اور اگر حسن بیان کی نعمت سے نوازا گیا ہے تو اس نعمت کے دعوت الی الخیر کے لیے خوب خوب استعمال کرے اور اس دعوت الی الخیر کی راہ میں جو مشکلات اورمصائب پیش آئیں ان پراجر کی امید رکھ کرصبر کرے تو اس کایہ عمل اس کے لیے بھی نفع بخش ہوگا اور اس عمل کانیک رنگ زمین پر بھی ضرورنمایاں ہوگا ۔ ان شائ اللہ
﴿10﴾ان تمام کاموں کی جڑ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خیر کی رغبت اور لوگوں کو نفع رسانی کے جذبے سے اس کادل معمور ہو چنانچہ جب دل میں رغبت موجود ہو، نیت اچھی ہواور عزم مضبوط ہواور انسان کو اللہ تعالیٰ پرکامل بھروسہ ہوتو وہ جس خیر کے کام کی طرف توجہ کرے گا اس میں برکت ہوگی اور ایسا انسان اندھیروں میں ہدایت کا چراغ بن کر نمودارہوگا، اس کی محنت اور دعوت سے خیر پھیلے گی اور شر کے دروزے بندہوں گے۔ان شاء اللہ

ہم یہ یقین رکھیں کہ ہرکام کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں اس پر خیر اوربھلائی کے دروازے کھول دیتے ہیں اور اللہ ہی بہتر طور پردلوں کو خیر کے لئے کھولنے والے ہیں۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 345034 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.