واقعہ کربلا میں دین اسلام کو
بچانے والے نواسہ رسول ﷺ حضرت امام حسین ؑ کی شخصیت کا احترام دنیا کے ہر
مذہب اور فرقے سے تعلق رکھنے والا انسان خود پر واجب سمجھتا ہے‘ امام حسین
ؑ نے باطل کے سامنے ڈٹ کر حق و صداقت کا پرچم بلند کئے رکھا اور سر کٹا کر
یہ ثابت کر دیا کہ حق کو کبھی نہیں جھکایا جا سکتا‘ کربلا میں یزیدی فوج سے
حق و باطل کی اس جنگ میں نواسہ رسولﷺ امام حسین ؑ اور اُن کے جانثار
ساتھیوں کی اس عظیم قربانی کو دنیا کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جاتا
ہے‘ امام حسین ؑ کی صداقت اور آپ کے حسن کردار سے مسلمانوں سمیت سکھ‘
عیسائی اور کفار بھی متاثر ہیں جس کا اظہار انہوں نے اپنی کتابوں اور شاعری
میں برملا کیا ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری جو خود کو شیخ الاسلام کہلوانا پسند کرتے ہیں پاکستان
کی تاریخ کی متنازع ترین مذہبی شخصیت رہے ہیں‘ تحریک منہاج القرآن کے
سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پاکستان میں چاہنے والوں کی بھی بڑی تعداد
موجود ہے کیونکہ انہوں نے مذہبی سکالر ہونے کی حیثیت سے اور جوش خطابت کا
وصف لیکر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا گرویدہ بنا یا ہوا ہے‘ ڈاکٹر طاہر
القادری آج سے کم و بیش 6 سال قبل کینیڈا ”تبلیغ“ کی غرض سے مقیم ہو گئے
تھے اور بقول رانا ثناءاللہ انہوں نے وہاں ”عبدالشکور“ کے نام سے کینیڈا کی
شہریت بھی حاصل کر لی تھی‘ وقت گھوڑے پر سوار ہو کر تیزی کیساتھ گزرتا رہا
اور 6 برس بیت گئے اس دوران دوہری شخصیت اور دوہری شہریت کے مالک ڈاکٹر
طاہر القادری اپنی ”تبلیغ“ میں مصروف رہے‘ پھر اچانک موصوف نے 6 سال کے
”تبلیغی“ وقفے کے بعد سیاسی انگڑائی لی اور 18 دسمبر بروز اتوار صبح 10 بجے
پاکستان پہنچنے کا اعلان کر دیا اور اپنے جیالوں‘ مریدوں اور ساتھیوں کو
”سیاست نہیں۔۔۔ریاست بچاﺅ“ کے نعرے کیساتھ پاکستان میں لوگوں کو ”بیدار“
کرنے کا ٹاسک دیدیا‘ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ تیاریاں عروج پر پہنچتی گئیں
اور بلآخر 18 دسمبر کو طاہر القادری لاہور میں مینار پاکستان پر وارد ہوئے
اور لاکھوں شرکاءکے مجمعے سے خطاب بھی کیا‘ طاہر القادری چھ برس بعد جو
سیاسی ایجنڈا لیکر آئے ان میں بیشتر نکات درست تھے لیکن اس وقت میرا موضوع
وہ نکات نہیں بلکہ ”کچھ اور ہی ہے“ تاریخ شاہد ہے کہ لاہور میں لاکھوں
افراد کے مجمے کو اکٹھا کرنے اور ”سیاست نہیں ریاست بچاﺅ“ کی مہم چلانے پر
اربوں روپے خرچ ہوگئے‘ یہ بات تو وقت کیساتھ ہی سامنے آئے گی یہ پیسہ کہاں
سے آیا تھا؟
18 دسمبر کے جلسے میں ڈاکٹر طاہر القادری شرکاءکی اتنی بڑی تعداد کو دیکھ
کر ہکا بکا رہ گئے اور جذبات کی رو میں بہہ کر یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ہمارے
مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو 40 لاکھ افراد کا مجمع اسلام آباد کی طرف لانگ
مارچ کرے گا‘ شاید ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ خیال تھا کہ لانگ مارچ میں بھی
اسی طرح کرائے پر لوگ منگوائے جا سکتے ہیں اور چالیس لاکھ لوگوں کو اکٹھا
کرنا مشکل نہیں‘ خیر جلسہ ختم ہوا ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومت کو للکار کر
اپنے مطالبات عوام اور حکومت کے سامنے پیش کئے اور 14 جنوری 2013 ءتک کی
ڈیڈ لائن دی کہ اگر مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو ہم اسلام آباد کی طرف لانگ
مارچ کریں گے‘ دوسری جانب پاکستان کی تاریخ کی بد ترین جمہوریت اور کرپٹ
ترین حکومت جس پر ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلوں کا اثر نہیں ہوتا اس
پر طاہر القادری کی اس ڈیڈ لائن کا کیا اثر ہونا تھا؟ 18 دسمبر اور 14
جنوری کے درمیان حکومت کی طر ف سے مارچ کو روکنے کیلئے مذاکرات بھی کئت
جاتے رہے لیکن طاہر القادری اپنے فیصلے پر بضد رہے‘ قارئین کرام! دیگر عوام
کی طرح میں بھی خوش تھا کہ چلو قادر صاحب اس کرپٹ حکومت کو تھوڑا ٹف ٹائم
ضرور دیں گے لیکن آخر کار 13 جنوری کا دن بھی آ گیا اور لانگ مارچ لاہور سے
نکل کر اسلام آباد کیلئے روانہ ہوگیا اور 38 گھنٹوں پر مشتمل سفر طے کرتا
ہوا پنی منزل تک پہنچ گیا‘ اطلاعات کے مطابق قادر ی صاحب کے دعوﺅں کے برعکس
50 ہزار سے بمشکل1 لاکھ افراد کا ہجوم ہوگا‘طاہر القادری اپنے ابتدائی خطاب
میں موجودہ حکومت کو یزیدی حکومت اور حکمرانوں کو یزید وقت کہہ کر پکارا
اور بار بار کہتے رہے کہ ہم اسلام آباد کو کربلا سمجھ کر آئے ہیں اور ہم
حسینیؑ مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے عوام کو یزید سے چھٹکارا دلوا کر رہیں گے‘
نعوذ باللہ طاہر القادری خود کو وقت کا حسین ؑ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے
اور اپنی ناپاک سیاست میں امام حسین ؑ کا نام بار بار لیتے رہے‘ طاہر
القادری ڈیڑھ کروڑ روپے کی مالیت سے بنائے جانے والے بلٹ پروف بکتر بند
کنٹینر میں بیٹھ کر عوام کو یزیزدیوں کیخلاف آواز اٹھانے کا درس دیتے رہے
اور انقلاب کا راگ الاپتے رہے‘ میرا طاہر القادری سے یہ سوال ہے کہ کیا
امام حسین ؑ نے کربلا میں یہ کرادار ادا کیا تھا؟ اُن کے پاس کون سا بلٹ
پروف کنٹینر تھا؟ اگر قادری صاحب اتنے ہی عوامی لیڈر تھے تو عوام کے درمیان
رہ کر خطاب کرتے؟
آخر کار تین دن گزر جانے کے بعد طاہر القادری نے حکومت کو آخری ڈیڈ لائن دی
اور کہا کہ اگر حکومت نے مذاکرات نے کئے تو پتہ نہیں کیا ہو جائے گا۔۔۔۔
قادر صاحب کی ڈیڈ لائن کے فوراََ بعد حکومت نے مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کر
دیا اور قادری صاحب یزیدیوں سے مذاکرات کیلئے تیار ہوگئے‘ کئی گھنٹے کے بعد
مذاکرات کامیاب ٹہرے اور قادر صاحب جنہوں نے وزیر اعظم کو سابق وزیر اعظم
قرار دیا تھا اور انہی کے ساتھیوں کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے یزیدیوں سے
معاہدہ کر لیا‘ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس لانگ مارچ کا انعقاد قادری
صاحب کی این جی او منہاج القرآن کے تحت ہوا تھا لیکن معاہدے میں قادری صاحب
نے عوامی تحریک کا نام استعمال کیا‘ قارئین کرام! میری ناقص سوچ کیمطابق 6
برس قبل سیاست سے کنارہ کش ہونے والے طاہر القادری نے اپنی ذاتی سیاست اور
ایک ایم این اے کی سیٹ کو پکا کرنے کیلئے یہ سب ڈرامہ رچایا اور کوشش کی کہ
وہ کسی طرح اپنا نام سیاسی طور پر دوبارہ زندہ کر لیں‘ یزید وقت اور طاہر
القادری میں جو معاہدہ طے پایا اُس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قادری صاحب صرف
اپنے ذاتی مقاصد میں کامیابی حاصل کر سکے‘ انہوں نے معاہدے میں شق بھی رکھی
کہ نگران حکومت کیلئے قادری صاحب کا متفق ہونا ضروری ہے‘ دوسروں کو دین
اسلام کا درس دینے والے طاہر القادری بار بار ہزاروں افراد پر مشتمل
شرکاءکو لاکھوں کا مجمع قرار دیکر جھوٹ بولتے رہے اور یزید وقت سے معاہدہ
کرتے وقت یہ بھی بھول گئے کہ وہ یہ کہہ کر کسی بھی وقت معاہدہ توڑ سکتے ہیں
کہ ”معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے“ طاہر القادری حسینیت کا لبادہ اوڑھتے
ہوئے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے رہے اور آخر کا انہوں نے یزیدیوں
سے معاہدہ کر لیا اور پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی کروائی( عجب تیری
سیاست‘ عجب تیرا نظام۔۔۔۔حسین ؑ سے بھی مراسم‘ یزید کو بھی سلام) میں اپنے
اس کالم کے توسط سے طاہر القادری کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ خُدارا
اپنی اس ناپاک سیاست میں امام حسین ؑ جیسی عظیم ترین شخصیت کا نام نہ
استعمال کیا کریںاور پاکستانی عوام سے میری گزارش ہے کہ اب بیوقوف بننے کی
روایت کو توڑ ڈالیں۔ |