مدثر عظیم قیصرانی
وطن عزیز میں بدامنی اور قتل و غارتگری کی تازہ لہر اور پھر اس کے رد عمل
میں احتجاجی مظاہرے، ہڑتالیں، اور لانگ مارچ ان سب کے پیچھے فکر و عمل کی
یہی لہر دوڑتی ہے کہ عوام اب ان ہرروز کے ٹارگٹ کلنگ،خودکش دھماکے،بوری بند
لاشیں،مہنگائی اور بیروز گاری سے تنگ آچکی ہے ایسے ہی حالات کو مدنظر رکھتے
ہوئے قادری صاحب نے عوام کی دکھتی رگ کو پکڑ کرانقلاب کا جھانسہ دینے کو
سودمند سمجھا۔
قادری صاحب کی ظاہری شکل وصورت شریفانہ دیکھ کرعوام نے سوچا کہ یقینا کوئی
انقلاب برپا ہوگا،کچھ لوگ تو ساتھ تھے مگر جھنگ سے اپنے 18بندوں کے ساتھ
بھاڑے پر آنے والا سلیم شاید ساتھ نہ تھا مگر مہنگائی کے اس دور میں ایک دن
کے 4سے5ہزار روپے مل جانا سونے پر سہاگہ کے مترادف ہوتا ہے اور بھی نہ جانے
کتنے سلیموں کا قسمت کھلا ہوگا۔
قارئین کرام! عوام نے پر امن احتجاج کر کے یہ تو ثابت کر دیا کہ واقعی ہمیں
ایک حقیقی انقلاب پسند اور عوامی مفاد پرست لیڈر چاہئے مگر نظام بدلنے کا
دعویٰ لیکر کینڈا سے آنے والے قادری نے بالآخر عوام کو انقلابی جھانسہ دے
کر اسلام آبد ریڈ زون میں جمع کر ہی ڈالا۔اور پھر دھرنے کے شرکاءسے مختلف
اوقات میں خطاب کے دوران موجودہ حکمرانوں کویزید قرار دیتے رہے لیکن بالآخر
بلی تھیلے سے باہر آ ہی گئی اور معاہدہ بھی کر لیا۔انہوں نے جب بھی خطاب
کیا ارکان پارلیمنٹ کے بارے میںڈاکو اور لٹیرے جیسے الفاظ استعمال کئے لیکن
پھر انہی ڈاکو اور لٹیروں سے مذاکرات بھی کئے اور معاہدہ بھی کر ڈالا،اور
چیخ چیخ کر اپنے آپ کوحسینیت کا پیروکار اور حکومت کو یزیدیت کا لشکر قرار
دیتے رہے اور اعلان کیا کہ جب تک وہ حاکموں کے خلاف آخری فتح حاصل نہیں کر
لیتے ان کا دہرنا جاری رہے گا۔اب کیا کہئے جناب کے،کہ کیاحضرت حسین نے بھی
یزید سے صلح کر کے واپسی کے کسی عہدنامہ پر ایسے دستخط کئے تھے جیسے قادری
نے نام نہاد یزیدوں سے معانقہ اور معترض شدہ وزیراعظم سے دستخط کرواکر عوام
کی وہ تمام تر تکالیفوں اور امنگوں پر پانی پھیر دیا؟
عجب تیری سیاست،عجب تیرا نظام
یزید سے بھی دوستی،حسین کو بہی سلام
قارئین کرام ! اب ڈرامہ ہوا توختم مگر جیسے جیسے اس ڈرامے کی دھول بیٹھتی
جارہی ہے کچھ نئے اور پرانے سوالات ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہے کہ خدارا کبھی ہمیں
بھی حل کر لیا کرو اگر کبھی اسکول میں سوال حل کئے تو۔۔۔
عوام بیچاری اب تک سمجھ نہ پائی کہ قادری صاحب کیاتھے۔کیوں آئے،اور اس
اربوں روپے کے خرچ کرنے کا مقصد کیا تھا؟
آپ نے کبھی کسی ڈھابے پر چائے بنتی دیکھی ہے تیز آنچ پر جب چائے ابلنے لگتی
ہے تو کاریگر چمچ سے ہلانا شروع کر دیتا ہے اور اسکا کمال یہ ہوتا ہے کہ
تیز آنچ کے باوجود چائے برتن سے باہر نھیں گرتی۔ قادری صاحب نے بھی عوام کے
جذبات میں ابلتے طوفان کو ایک مفاداتی لانگ مارچ کے چمچ نظر کر دیا اب کوئی
حقیقی مسیحا ہی اس مظلوم قوم کو حقیقی انقلاب کی راہ دکھا سکتا ہے۔
قارئین کرام!ہمیں نہ بے مقصد اور لا حاصل لانگ مارچ سے کوئی مقصد ہے اور نہ
ہی پہلے سے آئین میں موجود ان مطالبات سے۔
افسوس صرف یہ ہے کہ وطن عزیز پہلے ہی کئی طرح کے گھمبیر مسائل میں گھرا ہوا
ہے اب قادری کے لانگ مارچ میں جو اخراجات آئے ان کا ازالہ کون کرے گا؟
یزیدیت کے صلح گروپ میں ایک وہ بھی لیڈر تھا جس نے کبھی ٹیکس دیا ہی نہیں
اور نہ ہی امید رکھی جا سکتی ہے ، اب اس کھیل میں کم از کم40ارب کا نقصان
ہمارے حکمرانوں نے سیاسی کھیل تماشے میں خرچ کر دی۔ سیکیورٹی کے نام پر
25کروڑ، FBR کو 8 ارب کا خسارہ ٹیکسٹائل مل کو5سو ملین ڈالرکا خسارہ یقینا
عوام سے ٹیکس کی مد میں حاصل ہو گا۔
قارئین کرام ! وطن عزیز بہت سے مسائل کا شکار ہے جسمیں خصوصی طور پر لوڈ
شیڈنگ کا تزکرہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے اگر حکمران اپنی عیاشیوں اور کرپشن سے
باز رہیں تو یہ معمہ حل کرنا کچھ بعید نہیں۔رینٹل پاور پلانٹ کے نام پر
حاصل ہونے والی رقم بغیر ہاضمہ کی گولی کھائے ڈکار مارنے والوں کو اگر ڈکار
مارنے سے پہلے ہاضمے کی دوائی دینے کی کوشش کرو گے تو جیسے نیب نے کوشش کی
تو آپکو اس سے پہلے بدہاضمے کی گولی کھلا کر!!!
ایک اور بہت بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی دھشت گردی ہے کوئٹہ علمدار روڈ پر واقعہ
قابل مزمت ہے اور 86افراد کی ہلاکت رئیسانی حکومت کا تختہ الٹنے کا باعث
بنی ۔ مگر سوالیہ نشان یہاں اگر لگتا ہے کہ کراچی میں بھتہ نہ دینے پرپوری
فیکٹری کو جلا دینے پر فوجی آپریشن تک نہیں ہوا۔آئے روز دینی و سیاسی
قائدین کا اور معصوم طالب علموں کا قتل ، دن دیہاڑے منظرامام کا قتل
،اورنگزیب فاروقی پر قاتلانہ حملہ اور رضا حیدر پر حملہ مترادف سمجھا جا
رہا ہے تو پھر حکومت ابھی تک قاتلوں کو گرفتار کیوں نہ کر سکی؟کراچی میں
گورنرراج کے بجائے فوجی آپریشن کا آرڈر کیوں نہیں دیتی؟ےا پھر100افراد کے
قتل میں ملوث اجمل پہاڑی اور کئی ان جیسوں کو چھوڑکر کراچی کے مظلوم عوام
کا جینا محال کر کے الیکشن ملتوی کرنے کی سازش تو نہیں کی جا رہی ہے۔
صرف بلوچستان میں گورنر راج نافذکر دیا گیا‘آخر اس سے عوام کو کیا پیغام
ملتا ہے کہ بلوچستان کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہے یا پھر کراچی کے پیچھے!!!
قارئین کرام ! میں اکثر سیاسی گفتگو سے الگ ہی رہنا پسند کرتا ہوں
مگرانقلاب نامی فلم کا THE END دیکھ کرمجھے اس کے پیچھے کہانی کچھ یوں نظر
آئی کہ کوئی بھی لوکل ےاانٹرنیشنل ایکٹر چند ہزار لوگوں کواکھٹا کروا کر
احتجاج کروائے تو اسکے مطالبات چاھے بے مقصد کیوں نہ ہوں مان لئے جاتے
ہیں،اور اس سے ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ سادہ لوح عوام بے روزگاری
،مہنگائی اور دھشت گردی سے تنگ انقلاب کا نعرہ یا سونامی کا نعرہ لگانے
والے ہرشخص کے پیچھے چل پڑتی ہے ۔ بدلے میں انہیں صرف اذیتیںملتی ہیں اور
انکے تمام خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں کیا اس قوم کے نصیب میں کبھی کوئی
ایسا لیڈر نہیں آئے گا جو عوامی مفاد پرست ہو اور جمہوریت کو ایسا بنا دے
کہ جیسا جمہوریت کا حق ہے۔
ا ب سب کچھ سمجھنے کے بعد پاکستان اور آپکا مستقبل صرف ایک پرچی پر آگیا
ہے،آپکی سمجھ،اپکا مستقبل۔۔۔!!! |