حسینیت کے علمبردار اور یزید کی بیعت ۔ ۔ ۔
۔ ۔
بالآخر17جنوری کو حکومتی ٹیم سے مذاکرات کے بعد حضرت شیخ الاسلام کے 14
جنوری سے شروع ہو نے والے انقلابی دھرنے کا نہ صرف ڈراپ سین ہوگیا بلکہ
انقلابی غبارے سے ہوا بھی نکل گئی،حیرت ہے اِس شرمناک ناکامی کے باوجود
امام انقلاب نے مبارکبادیں اور دھرنے کے شرکاءنے جشن منایا، بھنگڑے
ڈالے،قارئین محترم !اِس ڈراپ سین پر کسی اظہار خیال سے پہلے عوامی حلقوں کی
جانب سے اٹھائے گئے کچھ سوالات بہت اہمیت کے حامل ہیں، جناب طاہر القادری
اور زرداری حکومت سے معاہدے پر عوام میں کیا تبصرہ کیاگیا،آئیے دیکھتے
ہیں،عوامی حلقوں میں یہ سوال شدت سے گردش کرتا رہا کہ کیا امام حسین نے
یزیدیوں سے سمجھوتہ کیا تھا؟ کیا یہ یزدیوں سے حسینیوں کا سمجھوتہ ہوسکتا
ہے؟ واضح رہے کہ طاہر القادری 10جنوری سے 17جنوری کی رات تک اپنے ہر خطاب
میں صدر اور وزیر اعظم راجا پرویز اشرف کی حکومت کویزیدی،فرعون،بدبخت اور
ڈاکو کہتے رہے،انہوں نے کہا کہ کربلا میں حضرت حسین پر پانی بند کر دیا گیا
تھا،اِس دور کے یزیدیوں نے کیبل بند کر دیئے ،بجلی بند کر دی،طاہر القادری
اپنے لانگ مارچ کو حسینی قافلہ اور خود کو حضرت امام حسین کی جدوجہد کا
نمونہ قرار دیتے رہے،انہوں نے بار بار دعویٰ کیا کہ حکومت کا خاتمہ کیے
بغیر دھرنا ختم نہیں ہوگا،انہوں نے 14جنوری کو اپنے پہلے خطاب میں صدر،
وزیر اعظم،اسمبلیوں اور تمام وزرا کو برطرف کر دیا تھا،لیکن پھر اسی یزیدی
لشکر سے حسینیت کے علمبردار نے معاہدہ کرلیا،حسین کا پیروکار مسلسل بم پروف
اور بلٹ پروف بنکر میں ہر طرح کی سہولتوں سے محظوظ ہوتا رہا اور اُس کے
پیروکار سخت سردی اور بارش میں کھلے آسمان تلے پڑے رہے، کیا یہی حسینیت
ہے۔؟جبکہ اسلام آباد میں داخلے سے قبل انہوں نے یہاں تک کہا تھا کہ وہ اب
کسی سے مذاکرات کرنے نہیں جارہے، بلکہ فیصلہ کریں گے، سنائیں گے اور عمل
کرکے دکھائیں گے،جناب طاہر القادری اپنے حامیوں سے مخاطب ہوکر یہ دعویٰ بھی
کرتے رہے کہ حکومت آج یا کل میں ختم ہونے والی ہے،اِس ضمن میں دلچسپ بات یہ
ہے کہ جب سپریم کورٹ نے راجہ پرویز اشرف سمیت کئی لوگوں کے گرفتاری کے
احکامات جاری کیے تو انہوں نے دوران خطاب اپنے حامیوں کو مبارکباد دی اور
کہا کہ آدھا کام ہوگیا ہے ،آدھا کل ہوجائے گا،مگر چوتھے روز اچانک امام
انقلاب نے اُس حکومت سے معاہدہ کرلیا جسے وہ مسلسل یزیدی لشکر قرار دیتے
رہے۔
واقفان حال بتاتے ہیں کہ جمعرات کو اسلام آباد میں موسم کے بدلتے ہوئے تیور
طاہرالقادری اور حکومت دونوں کے لئے پریشانی و فکرمندی کا باعث بنے رہے،
طاہرالقادری کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ بارش شروع ہو گئی تو مارچ میں
شریک افراد کیلئے مزید ٹھہرنا محال ہو جائے گا، لوگ بکھر جائیں گے اور
اصلاحات کے حوالے سے رسمی مذاکرات اور لیپاپوتی کا بھی موقع نہیں ملے گا،
جبکہ حکومت کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ اگر اور کچھ نہ بھی ہو تو صرف سخت
سردی کا موسم ہی ہلاکتوں کا سبب بن سکتا ہے، جمعہ کے روز یہ راز بھی منکشف
ہوا کہ ڈاکٹر صاحب پر مزید دباؤ کینیڈا کی حکومت کی طرف سے آ رہا تھا،
کینیڈا کی حکومت نے انہیں اس اَمر کی جواب دہی کے لئے طلب کر لیا تھا کہ وہ
ایک ایسے ملک میں کیوں گئے ہیں جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی جان کو خطرہ
لاحق ہو سکتا ہے، مزید انکشاف یہ بھی ہوا کہ وہ اپنے بیٹوں اور اہل و عیال
کے ہمراہ 27 جنوری کی پرواز کیلئے ٹکٹ بھی حاصل کر چکے تھے،اس صورتِ حال
میں حالات سے فرار اور مذاکرات کا انعقاد ہی اُن کے نقطہ نظر سے ایک بڑی
کامیابی تھی،دوسری جانب حکومت کے لئے بھی پریشان کن مسئلہ یہ تھا کہ چالیس
سے پچاس ہزار لوگوں کا چار دن سے دارالحکومت میں کھلے آسمان تلے احتجاجی
دھرنا اُس کے اعصاب پر بوجھ بنتا جا رہا تھا،لہٰذا اپنے اپنے مفادات کے
تحفظ کیلئے فریقین مذاکرات پر تیار ہو گئے۔
اوریوں ڈی چوک اسلام آباد میں دس رکنی حکومتی مذاکراتی ٹیم اور تحریک منہاج
القرآن کے قائد کے مابین لانگ مارچ ڈیکلریشن کے تحت 16 مارچ سے قبل
اسمبلیاں تحلیل کرنے، انتخابی امیدواروں کی آئین کی دفعات ،62,63 کے تحت
مکمل جانچ پڑتال کرنے کے بعد انہیں بطور امیدوار انتخابی مہم شروع کرنے کی
اجازت دینے اور نگران وزیراعظم کیلئے حکومت کی جانب سے بھجوائے جانیوالے دو
ناموں پر ڈاکٹر طاہرالقادری سے رضامندی کرنے پر اتفاق ہو گیا اور اِس
ڈیکلریشن کی بنیاد پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے ڈی چوک اسلام آباد میں چار روز
سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیااور ا ِس معاہدے کو جمہوریت کی فتح
قرار دیکر ایک دوسرے کو گلے مل کر مبارکبادیں دی گئیں۔
ساتھ ہی ایک دوسرے کیخلاف کسی قسم کی الزام تراشی اور انتقامی کارروائیوں
سے گریز کا عہد بھی کیا،تعجب خیز بات یہ کہ تمام تر ناکامی کے باوجود ڈاکٹر
طاہرالقادری اِس معاہدے کو اپنے مشن کی کامیابی قرار دے رہے ہیں،حقیقت یہی
ہے کہ متذکرہ ”معاہدہ لانگ مارچ“ کے تحت وہ اپنے ایجنڈے کے چاروں میں سے
ایک نکتہ بھی تسلیم کرانے میں کامیاب نہیں ہوپائے اوردھرنا مذاکرات کے
باوجود اپنے ا علانیہ مقاصد کے حصول میں قطعی ناکام ثابت ہوا،ساتھ ہی انہیں
سسٹم کی تبدیلی کے حوالے سے بھی کوئی ریلیف نہیں ملا اورانہیں حکمرانوں کے
لالی پاپ پر ہی خوش ہو کر اپنے دھرنے کے خاتمے کا اعلان کرنا پڑا، جس سے
بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ دھرنا ختم کرنے کیلئے کسی جواز کی
تلاش میں تھے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اسمبلیوں اور حکومت کے فوری خاتمے کا
تقاضا پورا کرا پائے، نہ الیکشن کمیشن کی ازسرنو تشکیل سے متعلق اُن کا
مطالبہ فوری طور پر تسلیم ہوا، البتہ انہیں یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ انہوں
نے اِس معاہدے کے تحت اپنی مستقبل کی سیاست کی راہ ضرور نکال لی ،جبکہ
انہیں حاصل ہونیوالا یہی فائدہ حکمران طبقات کیلئے غور و فکر کا متقاضی ہے
کہ لانگ مارچ اور دھرنوں کے ذریعے اپنی حیثیت اور مطالبات بزور طاقت تسلیم
کرانے کی اِس روایت سے مستقبل میں انتہائی سنگین نتائج مرتب ہو سکتے ہیں
اور کل کوئی بھی شخص یا گروہ مذہبی اور لسانی بنیادوں پر یا کوئی اور ایشو
کھڑا کرکے لانگ مارچ اور دھرنے کی صورت میں اقتدار کے ایوانوں کا گھیراؤ کر
کے حکمرانوں سے کوئی بھی بات منوا لے کھڑا ہوسکتا ہے،آج اگر ڈاکٹر
طاہرالقادری سادہ لوح عوام اور جذباتی خواتین و بچوں کو اپنے مقاصد کیلئے
استعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو کل کو کوئی متشدد گروپ بھی یہی راستہ
اختیار کرکے اقتدار کے ایوانوں سے جو چاہے گا، تسلیم کراتا پھرے گا۔
یہ درست ہے کہ سسٹم میں تبدیلی اور موروثی سیاسی انتخابی نظام سے نجات
یقیناً ملک کے ہر باشندے کی خواہش ہے اور اِس میں کوئی دو رائے نہیں کہ
عوام اپنے حقیقی نمائندے منتخب ایوانوں میں پہنچانے کے متمنی ہیں، جبکہ
موجودہ انتخابی نظام انکی حقیقی نمائندگی کی خواہش کی راہ_ میں رکاوٹ ہے،
اِس تناظر میں ڈاکٹر طاہرالقادری کو تبدیلی اور انتخابی نظام کی اصلاح کا
نعرہ لگانے پر عوامی پذیرائی حاصل ہوئی،لیکن اُن سے تبدیلی کی توقعات
وابستہ کرنیوالے لوگوں کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ وہ جن
کیخلاف تبدیلی لانے کے دلپذیر نعرے بلند کر رہے تھے،انہی کے ساتھ معاہدہ
کرکے انہوں نے موجودہ سسٹم ہی کے ماتحت انتخابات کا انعقاد قبول کرلیا
ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ دھرنا پارٹی اور اُس کے محترم قائد عام انتخابات میں
کیا تیر مارتے ہیں،مگر اِس سے قبل انہیں ایک مصلح اور دینی ا سکالر کا
لبادہ اتار کر براہ_¿ راست سیاسی انتخابی میدان میں آنا ہوگا اوروہ تمام
قانونی اور آئینی تقاضے پورے کرنا ہونگے،جس کا مطالبہ وہ حکمرانوں اور
دوسری سیاسی قیادتوں سے کرتے رہے ہیں،اُس کے بعد ہی وہ جس نظام کی تبدیلی
کا جو ایجنڈہ رکھتے ہیں، انتخابات کے ذریعے منتخب ایوانوں میں پہنچ کر اُس
کیلئے موثر کردار ادا کرنے قابل ہو سکیں گے۔
قابل غور بات یہ ہے کہِ اس سارے کھیل میں ملک وقوم کے ہاتھ کیا آیا؟ جبکہ
اِس مہم نے طرح طرح کی قیاس آرائیوں کو بھی جنم دیا اور اِس دوران میں
مسلسل ماورائے آئین مداخلت کا خدشہ بھی محسوس کیا جاتا رہا،جبکہ خود موصوف
نے ماورائے آئین مطالبات پیش کئے اور فوج او رعدلیہ کو بھی سیاست میں
گھسیٹنے کی کوشش کی،جبکہ لانگ مارچ اور دھرنے میں شریک لوگوں میں سے اکثریت
کو اصل سیاسی صورتحال کا علم نہ تھا، وہ مہنگائی، غربت، بے روز گاری، بجلی
اور گیس کی لوڈشیڈنگ اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے ستائے ہوئے تھے
اور اِس لیے دھرنے میں شریک ہوئے کہ شاید اِس طرح اُن کے دکھوں اور
پریشانیوں کا مداوا ہو سکے گا، مگر دھرنے کا اختتام اُن کے مسائل کے حل کے
بجائے طاہر القادری کے سیاسی مطالبات کی قبولیت پر ہوا اور دھرنے کے
شرکاءخالی ہاتھ ہی گھروں کو لوٹ گئے، یوںدھرنے میں شریک مسائل زدہ عوام جو
امیدیں لے کر آئے تھے وہ کامیاب نہ ہو سکیں اور حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے
آنے والے انقلابیوں نے اسلام آباد کے میدان کربلا میں ” حسینیوں کی یزید کے
ہاتھ بیعت “کی ایک نئی تاریخ رقم کرڈالی۔ |