دُنیا بھر کے مُسلمانوں کے لیے
بارہ ربیع الاوّل کا دن عظیم خوشی کا دن ہے ۔اسی دن مُحسن انسانیت،آقائے کا
ئنات ،فخر ِ موجودات،نورِ مُجسم، نبی اکرم ،سرکارِدوعالمﷺخاکدانِ گیتی پر
جلوہ گر ہوئے۔آپ ﷺ کی بعثت اتنی عظیم نعمت ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی
نعمت نہیں کر سکتی۔
آپ قاسمِ نعمت ہیں ،ساری عطائیں آپ کے صدقے سے ملتی ہیں۔جیسا کہ حدیث پا ک
میں آتا ہے:
اَنَّمااَناقَاسِم واللہ یُعُطی یعنی میں بانٹتا ہوں اور اللہ دیتا
ہے۔(بخاری و مسلم)
ماہِ ربیع الاوّل کے آتے ہی پوری دنیا کے مُسلمان جوش وخروش سے آقائے
دوجہاں ﷺکی ولادتِ با سعادت کی خوشی میں پورے عالم اسلام میںمحافل ِ میلاد
منعقد کر تے ہیں اور عید میلادُ النبی ﷺ کی خوشیاں مناتے ہیں۔اس میں کوئی
شک نہیں کہ عید میلادُالنبی ﷺ منانا جائزو مستحب ہے اور محبت رسولﷺ کی
علامت ہے۔
اسی مبارک دن سے کائنات کی ظلمت و تاریکیاں نورانیت میں تبدیل ہونے
لگیں۔انسان کا مردہ دل پھر سے تازگی پانے لگا،کفر و شرک کی گھنگور گھٹائیں
ختم ہونے لگیں۔انسان کو انسانیت کے صحیح اور حقیقی مفہوم سے عملی آشنائی
ہونے لگی۔ہر قسم کے خرافات اور بے بنیاد رسم و رواج کی بندشوں میں جکڑا
انسان آزاد ہو کر اپنے مقاصد زندگی اور وجہہ تخلیق کو سمجھنے لگا۔یہی وجہ
ہے کہ ساری دُنیا کے مسلمانوں کے لیے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا عشق
غیر فانی دولت بن چکا ہے اور اس سے محبت کا ا ظہار شیدائیانہ کرتے رہتے ہیں
اور بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر مختلف طریقے سے ا ظہار ِ مسرت کر تے
ہیں۔جو گونا گوں احسانات ونوازشات کا ہلکا سا شکریہ ہے۔
بارہ ربیع الاوّل کی تاریخ انسانی تاریخ کا عظیم ترین دن ہے ،اس دن کو
شایان ِ شان طریقہ سے خراج ٍ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پوری انسانی
برادری اور انسانیت کو دُنیا و آخرت کی بھلائی کے حسین طریقوں کو نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنتوں کے آئنے میں اخذ کر نے پر گذرانا چاہیے۔ہر
جشن ِ مسرت،ہر جلسہ ِ میلادبا مقصد و موئثر ہونا چاہیے۔تمام مسلمانوں کو اس
دن کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے گذشتہ کا احتساب اور آئندہ کا لائحہ عمل
تیا ر کر کے فلاح و صلاح انسانیت کے لیے ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ مشغول
ہو جانا چاہیے۔
اس تاریخ کے تمام جلسوں،میلادوں اور اجتماعات میں سر کار دو جہاں صلی اللہ
علیہ وسلم کی سماجی، سیاسی، معاشی ،معاشرتی،اور عائلی زندگی کے تابناک
گوشوں کو ا جا گر کر نے اور بیان کرکے عوام ا لناس کو با مقصد عملی زندگی
کے آغاز کا سبق دینا چاہیے۔سرکارِ دوجہاں،رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی
رحمدلی،امن طلبی،احترامِ انسانیت،حقوق اللہ و حقوق العباد،تبلیغ ِ اسلام ،سماجی
بائیکاٹ ،ترک وطن و ہجرت ،کافروں و مشرکوں کے ظلم و ستم ،عنادو دُشمنی،طرح
طرح کی اذیت و فتنہ و فسادات جو وہ حضور اکرمﷺ اور اُنکے اصحاب کے ساتھ
کرتے تھے بیان کر نا چاہیے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رواداری،
مساوات ،عورتوں کے حقوق واحترام،بچوں کی تعلیم و تربیت و ذھنی تعمیر،حق کی
پاسداری ، برائیوں کی بیخ کنی کے حسین طریقے،آپسی بھائی چارگی،پڑوسیوں کے
حقوق،وغیرہ پر روشنی ڈالنا ،انہیں بیان کر نا بہت ضروری ہے۔تاکہ آج کے
بھٹکے ہوئے انسانوں کو تباہ ہوتے سماج و معاشرہ کو سدھارنے کے لیے سچا جذبہ
میسر آسکے اور عظمت محمدیہ بھی ا جا گر ہو سکے اور دیگر اقوام پر بھی اچھے
اثرات مرتب ہو سکیں۔فلسفہ و حکمت اور باریکیوں کو عام اجتماعات و اجلاس میں
بیان کرنے سے اپنی قابلیت صلاحیت کا دھاک بٹھایا جا سکتا ہے مگر فرد عام کے
ذہنوں کو صحیح سمت کا پتہ نہیں دیا جا سکتا۔
ہر مسلمان خواص و عوام تک کی ذمہ داری ہے اور عقیدت و محبت رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کا تقاضا ہے کہ آج کے دن سے یہ عہدکریں کہ اپنے آپ کو رسول پاکﷺ
کی سنتوں کے سانچے میں ڈھالنے کا عزم مصمم کر یںگے اور ہر منزل و موقع پر
انہیں سنتوں کی عملی تصویر بن کر سامنے آئیں....،دل زبان اور عمل میں
یکسانیت پیدا کریں....،ریا کاری و نام نمود سے بچیں،....خلوص و للّٰہیت کو
اپنائیں،....ایثار و قربانی پر کمر بستہ رہیں....،صبرو استقلال کا دامن
ہاتھ سے نہ چھوٹے،....صورت و شکل وضع قطع کو اسلامی تہذیب کا آئینہ بنائیں،....ہاتھ
پاﺅں اور زبان سے کسی کو اذیت نہ ہونے دیں،....کسی بھی غریب ناچار مجبور کی
طاقت بھر مدد کریں،....مظلوم کی حمایت،حق کی پاسداری کریں،....علماءکرام ،حافظ،
مساجد کے اماموں کی عزت و احترام کریں،....تعلیم کو عام کرنے میں بھرپور
کردار ادا کریں،.... اچھی اور نیک باتیں بلا جھجک مگر شفقت و احترام کے
ساتھ دوسرں کو بتائیں،....اختلاف و انتشار سے بچنے اور بچانے کی پوری کوشش
کریں،.... دینی اسلامی کتابوں کا مسلسل مطالعہ کر کے علم میں اضافہ کریں،....بے
حیائی،بے پردگی،اور عریانیت سے احتراز لازم رکھیں،....اپنی اولاد کو دینی
تعلیم بھرپور دیں،....جہاں کہیں رہیں جس مجلس میں رہیںجس سوسائٹی میں رہیں
مگر ایک سچے مُسلمان بن کر رہیں .... اسلامی تعلیمات ،ادب و اخلاق کی عملی
اور زبانی تبلیغ میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکّی و مدنی زندگی اگر سامنے رہے تو تمام
مسائل ہوجائیں گے۔اللہ تعالیٰ ہر عید میلادُ النبی کے موقعہ پر تمام
مُسلمانوں کو نیا عزم ،حوصلہ اور عملی جذبہ عطا فرما کر سنتِ پاک رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کا آئینہ بنائے ۔آمین ثم آمین! |