کہا کہ: "کسی مومن مرد اور کسی
مومن عورت کے یہ شایانِ شان ہے ہی نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی
معاملے کافیصلہ فرمادیں توپھر بھی اپنے معاملے میں ان کے پاس کوئی اختیار
باقی رہ جائے"(الاحزاب:35)۔مفہوم یہ ٹھہرا کہ اللہ اور رسول کا فیصلہ آخری
ہے اور اگر اس میں بھی اپنی رائے کو شمار کر لیا جائے تو پھر یہ بات قابلِ
اعتراض ہی نہیں بلکہ منافقانہ بھی ٹھہرے گی۔اور اگر یہ احساس ذہن میں پیدا
ہو جائے کہ اللہ اور رسول کے فیصلہ کے بعد بھی میرے پاس کچھ اختیار موجود
ہے تو پھر ایمان کہاں رہا؟ لہذا ایسی حالت میں ایمان کی نفی ہوگی۔اس ہی لیے
کہا گیا کہ:"اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا ارتکاب کرے گا
(تو وہ جان لے کہ )وہ بڑی صریح گمراہی میں مبتلا ہو گیا"(الاحزاب:35)۔اس سے
یہ نتیجہ نکلاکہ انسان کی انفرادی زندگی میں مختلف حالات و کیفیات رونما
ہوتی رہتی ہیں، کبھی خوش گوار تو کبھی ناگوار۔ان خوشگواری اور ناگواری کے
دونوں ہی حالات میںاللہ کی رضا شامل حال رہے ،اسی کے مطابق ہمیں اپنے اعمال
کا احتساب لینا ہے۔یہ آیت ایک خاص پس منظر میں نازل ہوئی تھی لیکن اس کا
پیغام ہر خاص و عام حالات پر منطبق ہوتا ہے۔کیونکہ انسان کے اعضاءو جوارح
سے مختلف اوقات میں کچھ نہ کچھ صادر یا خارج ہوتا رہتا ہے۔اور ان تمام
اعمال کے صحیح یا غلط ہونے کو اس ایک آیت کی روشنی میں جانچا اور پرکھا جا
سکتا ہے کہ آیا انسان کا عمل صحیح ہے یا غلط۔غور فرمائیے جب ہم بات کرتے
ہیں اور زبان سے الفاظ نکلتے ہیں تو اس سے بھی قبل دماغ میں تحریک پیدا
ہوتی ہے یعنی دماغ ان الفاظ کے نکلنے سے پہلے متحرک ہو جاتا ہے، ہونٹ حرکت
میں آتے ہیں اور زبان ہلنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔یہ دماغ کا حرکت میں آنا،
ہونٹوں کا ہلنا، زباںکی جمبش ،ایک طرف تواس پورے عمل میں انسان کی اپنی
مرضی شامل نہیں ہے مطلب یہ کہ اگر اللہ چاہے تبھی یہ ممکن ہے کہ یہ سارے
اعضاءجمبش کر سکیں ورنہ نہیں لیکن دوسری طرف الفاظ کی ادا ئیگی میںجو
احتیات برتنی ہے ،وہ ہمارے اختیارات میں شامل ہے۔اور وہ یہ کہ جو الفاظ بھی
نکلیں اور جو عمل بھی صادر ہو وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے سانچے
میں ڈھل کر صادر ہو۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو قدرتِ اختیار عطا کی ہے
اسی لیے کہا کہ:"اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُورًا۔۔۔"۔اختیار کیا دیا
گیا ہے اور کس چیز کا؟تواس میں پہلی چیز جذبات ہیں کہ ان کو صحیح رخ عطا
کیا جائے، پھر احساسات ہیں جو عام طور پر افکار و نظریات پر منحصر ہوتے
ہیں۔اور ان تمام چیزوں کے تعاون و اشتراک کا انحصار ہماری اس تربیت گاہ پر
منحصر ہے جو ہمیں ہر لمحہ اور ہر لحظہ پستی و بلندی پر گامزن رکھتی ہے۔
اَطِیعُو االلہ وَاَطِیعُواالرَّ سُولَ:
ارادہ و عمل کے اختیارکے بارے میں ایک متوازن نقطہ نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
ہمیں جو اختیارات حاصل ہیں وہ اتنے زیادہ بھی نہیں کہ جتنا عام آدمی سمجھتا
ہے، بلکہ ہماری مجبوری کا پہلو بھی یقیناً بہت بڑا ہے۔ مثلاً ہمارا
geneticsکا نظام ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ہمیں جو جینز(genes) ملے ہیں جن
سے ہمارے جسمانی نقش و نگار اور ہماری شخصیت کے خدوخال تیار ہوتے ہیں وہ
ہمارے معبودِ برحق کے عطا کردہ ہیں اور ہمیں اس معاملہ میں کسی انتخاب ِ
اختیار کا حق نہیں دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے معاملات میں ہم مجبور
ہیں اور وہ ہمارے اختیارات سے باہر کے معاملات ہیں، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ
اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ انسانی شخصیت میں اختیار کا ایک
عنصر بہر حال موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں یہ عنصر جس مقدار میں
رکھا ہے اسی نسبت سے وہ اس کا محاسبہ بھی کرے گا۔لہذا"اَطِیعُو االلہ
وَاَطِیعُواالرَّ سُولَ"کا تقاضا ہے کہ اللہ نے جو بھی اختیارات دیے ہیں
اسے اپنے اختیار سے اس کے قدموں میں ڈال دیا جائے۔وہیں سے اطاعت کے حقیقی
جذبہ و عمل کا آغاز ہوگا ۔معلوم ہوا کہ اگر اطاعت موجود ہے تو ایمان موجود
ہے، اور اگر اطاعت نہیں تو ایمان بھی نہیں۔یہ بات بھی عیاں رہنا چاہیے کہ
ایک حقیقی ایمان ہے اور ایک قانونی ایمان، یہاں ہماری مراد حقیقی ایمان سے
ہے نہ کے قانونی ایمان سے کہ جس کی بنا پر ہم دنیا میں مسلمان کہلائے اور
سمجھے جاتے ہیں۔لہذا حقیقی ایمان اور حقیقی اطاعت عمل سے ظاہر ہوگی کیونکہ
جس بات پر ایمان ہوگا اس کی نفی نہیں ہوگی ۔اسی سلسلے میں اللہ کے رسول
فرماتے ہیں:"کوئی زانی حالتِ ایمان میں زنا نہیں کرتا، کوئی چور حالتِ
ایمان میں چوری نہیں کرتا اور کوئی شراب پینے والا حالتِ ایمان میں شراب
نہیں پیتا"اسی لیے دیگر احادیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ گناہ کا
ارتکاب کرتے وقت ایسے شخص کا ایمان اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔اللہ کے رسول
فرماتے ہیں:"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس
کی خواہش نفس اس(ہدایت) کے تابع نہ ہوجائے جو میں لے کر آیا ہوں"(شرح
السنہ)۔یعنی ایمان کا تقاضا ہے کہ خواہش نفس دین کے تابع ہو جائے اور اپنے
آپ کو اطاعت کے سانچے میں ڈھال دے۔ کھانا ایک بنیادی اور فطری ضرورت ہے
لیکن اس کا حصول اسی طرح ہوگا جس طرح بتایا گیا ہے یعنی پیٹ میں وہی کچھ
جائے جو حلال ہو۔اسی طرح جنسی تسکین ایک جبلی خواہش ہے، لیکن اسے صرف اس
جائز راستے سے ہی پورا کیا جانا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے
معین کر دیا گیا ہے۔اپنے نفس کو بھی محض اس کے طبعی تقاضے سے مجبور ہو کر
کچھ نہ دیا جائے بلکہ اللہ کا معین کردہ حق سمجھ کر دیا جائے۔اسی لیے اللہ
کے رسول نے فرمایا:"تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے، تمہاری بیوی کا بھی تم
پر حق ہے، تمہارے ملاقاتی کا بھی تم پر حق ہے۔"
اطاعتِ رسول کی حیثیت:
اطاعت اصلاً اللہ کی ہے اور عملاً رسول اللہ کی۔رسول کی اطاعت کا مطلب اللہ
کے اس حقیقی نمائندے کی اطاعت ہے جس کو اس نے اس اہم ذمہ داری ادا کرنے کے
لیے منتخب کیا ۔معلوم ہوا کہ اطاعت اس ذات کی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ اس
نمائندے کی اطاعت کی جا رہی ہے جس کو اللہ نے اپنا پیغمبر پسند کیا ۔اس
نکتہ کی وضات اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں خود فرماتا ہے۔کہا کہ:"اور ہم نے
نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے اِذن سے"(النسائ:64)۔معلوم
ہو اکہ کسی رسول کی اطاعت اس کی ذاتی اطاعت نہیں ہے، بلکہ اس کی اطاعت اللہ
کے رسول کی حیثیت سے کی جاتی ہے۔ رسول، اللہ کا نمائندہ ہے جو انسانوں تک
اللہ کے پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔اور کیونکہ انسانوں تک
اللہ کا پیغام براہ راست نازل نہیں ہوتا اس لیے اللہ کی اطاعت رسول کی
اطاعت میں شامل ہے۔اور یہ رسول کی اطاعت در حقیقت اللہ ہی کی اطاعت ہے۔اس
ہی لیے کہا گیا کہ:"جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے درحقیقت اللہ کی اطاعت
کی"(النسائ:80)۔یہ اطاعت کس قسم کی ہونی چاہیے اور اس کے کیا تقاضے ہیں اس
کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: "اے محمد! تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں
ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان
لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس
کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں"(النسائ:65)۔دو انسانوں کے جب معاملات کسی
تیسرے کے سامنے فیصلہ کے تعلق سے پیش کیے جاتے ہیں تو وہ وقت بہت کٹھن ہوتا
ہے کیونکہ ہر مدعی دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش میں کرتاہے اور چاہتا ہے کہ
اس ہی کے حق میں فیصلہ کر دیا جائے۔ایسے وقت میں فیصلہ کرنے والا اگر کوئی
ہوگا تو وہ صرف وہی فیصلہ کرے گا جو اللہ اور اس کا رسول طے کر دے۔اللہ
رسول طے کردے کا مطلب ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی روشنی میں
ہی فیصلہ کیا جائے۔پھر چاہے کوئی اوپر اٹھ جائے اور کوئی نیچے ،کسی کو
فائدہ حاصل ہو اور کسی کو نقصان اٹھانا پڑے، لیکن کامیاب دونوں ہی رہے
کیونکہ دونوں نے بہ رضا و رغبت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں سر تسلیم
خم کر دیا۔لہذا اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے راضی ہوگا اور اس کو انعام و اکرام
سے نوازے گا۔
فتنہ منکرین حدیث:
قرآن حکیم میں اللہ فرماتا ہے:"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ
کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب ِ امر ہوں"(النسائ:59)۔یہاں
اللہ کے بعد رسول کے ساتھ بھی "اَطِیعوا"کے لفظ کو دہرایاگیا ہے لیکن
اُولِی الاَمر کے لیے لفظ"اَطِیعوا"نہیں دہرایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ رسول کی اطاعت بھی اپنی جگہ مستقل بِالذات اطاعت ہے اور ان کی ذمہ
داری صرف اللہ کے حکم کو پہنچا دینا ہی نہیں ہے۔انکار حدیث اس دور کا خاصا
بڑا فتنہ ہے اور ہمارے جدید تعلیم یافتہ لوگ اس کا جلد شکار ہو جاتے ہیں،
کیونکہ مغربی افکار کے زیر اثر اور مغربی تہذیب کے دلدادہ ہونے کے باعث ان
کے ذہن پہلے سے اس کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ عام طور پر ایسے ذہنوں میں حدیث
کے تعلق سے یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ ہم پر کچھ زیادہ ہی قد غنیں عائد کرنے
والی چیزیں ہیں۔ لہذا اسلامی فکر سے دوری رکھنے والے اس فتنہ کی گرفت میں
جلد آتے ہیں اور فوری اثر قبول کرلیتے ہیں۔ابوداﺅد ؓ سے مروی ہے کہ رسول
اللہ نے فرمایا:"لوگو آگاہ ہو جاﺅ مجھے قرآن بھی دیا گیا ہے اور اسی کی
مانند ایک اور شے بھی اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ کوئی پیٹ بھرا شخص اپنے چھپر
کھت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور لوگوں سے کہہ رہا ہو کہ دیکھو لوگو، تم پر
بس اس قرآن کی پابندی لازم ہے، جو کچھ تم اس میں حلال پاﺅ اسی کو حلال
سمجھو اور جو کچھ اس میں حرام پاﺅ اسی کو حرام سمجھو۔ جان لو کہ جس طرح
اللہ نے کچھ چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں اسی طرح اللہ کے رسول نے بھی کچھ چیزیں
حرام ٹھہرائی ہیں"(ابن ماجہ)۔
اس حدیث میں رسول اللہ سے مروی الفاظ بہت اہم ہیں کہ "انی اونیست القران
ومثلہ معہ۔۔۔"یہ الفاظ اس حقیقت پر نصِ قطعی کا درجہ رکھتے ہیں کہ وحیِ
جلی(قرآن) کے علاوہ محمدرسول اللہ کو ایک وحی خفی بھی عطا ہوئی ہے اور وہ
اپنی قطعیت کے اعتبار سے قرآن کے مثل ہے۔ اسی طرح "انما حرم رسول اللہ کما
حرم اللہ"کے الفاظ سے یہ صراحت ہوتی ہے کہ حدیثِ رسول احکامِ شریعت کا اپنی
جگہ پر ایک مستقل ذریعہ اور مستقل شعبہ ہے۔ اس اعتبار سے رسول کی اطاعت،
خواہ وحی جلیپر مبنی ہو یا وحی خفی پر، بہر حال لازم ہے اور اس ضمن میں ان
دونوں میں تفریق نہیں کی جائے گی۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں کہا گیا
کہ:"ایسا نہ ہو کہ میں پاﺅں تم میں سے کسی شخص کو کہ وہ اپنی کسی آرام دہ
نشست پر بیٹھا ہو اور اس کو میرا کوئی حکم پہنچے جو میں نے کوئی کام کرنے
کو کہا ہو یا کسی شے سے روکا ہو تو وہ کہے: میں نہیں پہنچانتا، ہم تو بس
اسی شے کی پیروی کریں گے جو کتاب اللہ میں ہے"(احمد مسند، سنن ابو داﺅد،
ابن ماجہ، ترمذی، بیہقی)۔ان دونوں احادیث میں ایک بات یکساں ہے اور وہ یہ
کہ ایسا کرنے والے لوگ عام طور پر خوشحال اوراونچی سطح کے لوگ ہوں گے ،اور
یہ وہی لوگ ہوں گے جو اللہ اور رسول کے احکامات میں تفریق کرنے کی بنا پر
گمراہی میں مبتلا ہو جائیں گے۔آج انکار حدیث کے علمبردار کون ہیں یہ بہت
آسانی کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اور یہ اس لیے بھی کیونکہ بے انتہا آرام و
آسائش انسان کو دین پر قائم رکھنے میں مزاحمت پیدا کرتا ہے لہذا ایسے لوگ
بہت جلد اس فتنے میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اس موقع پر بعض لوگ یہ شبہ پیش کر سکتے ہیں کہ تمام مسائل ِ زندگی کے فیصلے
کے لیے کتاب اللہ و سنت رسولاللہ کی طرف کیسے رجوع کیا جائے۔جبکہ میونسپلٹی
اور ریلوے اور ڈاک کے قواعدو ضوابط اور ایسے ہی بے شمار معاملات کے احکام
سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ شبہ اصول دین کو نہ
سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان کو جو چیز کافر سے ممیز کرتی ہے وہ یہ ہے
کہ کافر مطلق آزادی کا مدّعی ہے، اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف
اس دائرے میں آزادی کا متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اسے دی ہے۔ کافر اپنے
سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اصول اور قوانین اور ضوابط کے
مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند سمجھتا ہی
نہیں۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ہر معاملہ میں سب سے پہلے خدا اور رسول کی
طرف رجوع کرتا ہے ، پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا
ہے، اور اگر کوئی حکم نہ ملے تو وہ صرف اسی صورت میں آزادیِ عمل برتتا ہے ،
اور اس کی یہ آزادی عمل اس حجت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملہ میں شارع کا
کائی حکم نہ دینا اس کی طرف سے آزادی عمل عطا کیے جانے کی دلیل ہے۔ |