جامعہ ملیہ لائبریری کے آنسو

کتابوں سے استفادہ بنا چیلنج

جامعہ ملیہ اسلامیہ نہ صرف ایک منفرد شناخت رکھتا ہے ، بلکہ پورے ملک وقوم کو اس پر ناز ہے، اپنے قیام کے اول دن سے ہی اس نے حسب ضرورت ملکی خدمات میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے ، اس نے نہ فقط علمی ضرورتوں کو پورا کیا ، بلکہ فکری تنوع اورکردارسازی کا بھی فریضہ انجام دیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے سند یافتگان ہندوستان سمیت بیرون ممالک میں بھی افادئہ عام اورفیض رسانی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ،اس کا ماضی بھی شاندار تھا اورحال بھی ہے ، امیدہے کہ مستقبل بھی تابناک رہے گا ۔
ادارہ خواہ کوئی بھی ہو، اس کے چمکانے میں پورے ذمہ داران وکارکنان کا تعاون ہوتاہے ، ہر ایک شعبہ کی مدد ہوتی ہے ، ظاہر ہے جامعہ کی اس قابل قدر شناخت میں تمام ارباب جامعہ کی نیک نیتی ، بلند حوصلگی ، اعلی ظرفی اور جانفشانی شامل ہے ، تمام شعبہ جات کا تعاون رہا ہے ، یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ علمی گہواروں کی شان کتابی ذخیزوں سے دوبالا ہوتی ہے ، اس کے حسن کو نکھارنے میں لائبریری اہم رول ادا کرتی ہے ، یہ ایک ایسا اثاثہ یا کیمیا ہے جو غیر محسوس طریقہ سے طلباکے اندر خود اعتمادی ، جراتمندی اوراولو العزمی کی روح پھونکتا ہے ، جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کتابیں کثیر تعداد میں موجود ہیں ، بے شمار نادر کتابیں دستیاب ہیں ، جوہمارے لئے ایک قیمتی اثاثہ سے کم نہیں ، لہذااس کی حفاظت ازحد لازم وضروری ہے ، تاکہ طلبا اس سے خوب خوب استفادہ کرسکیں ۔ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ انتظامیہ کی تساہل پسندی کے سبب نادر کتابوں سے استفادہ ایک چیلنج بنتا جارہا ہے ۔

گذشتہ دنوں ایک آرٹی آئی درخواست کے ذریعہ جامعہ کی ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری کے متعلق جو معلومات حاصل ہوئیں ، ان سے لائبریری کی موجودہ صورتحال پر حیرتناک افسوس ہوتا ہے اور چند ایک سوالات بھی ڈستے ہیں ۔ آرٹی آئی کے مطابق 2007میں جامعہ کے کل طلباءکی تعداد 12,5,54اورکورسیز کی تعداد 179تھی ، تاہم میں 2012میں طلباءکی تعداد بڑھ کر 15,010اور کورسیز کی تعداد 225ہوگئی ، جہانتک لائبریری اسٹاف کی تعداد کا تعلق ہے تو 2007میں 59تھی اور 2012میں بھی اتنی ہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب طلبا کی تعداد میں اضافہ ہوا تو اساتذہ بھی بڑھے ہوں گے ، کتابوں کے موضوعات میں اضافہ ہواہوگا ، مگر لائبریری اسٹاف کی تعداد میں اضافہ کیوں نہیں ؟ کس کی کوتاہی ہے ؟ آخر کو ن نہیں چاہتا ہے کہ اس کے اسٹاف میں اضافہ کو ؟لائبریری اسٹاف کی تعداد کے متعلق لائبریرین سے گفتگو کی گئی تو انہوں نے کہا :”آج سے نہیں برسوں سے ہم اسٹاف کی کمی کا رونا رورہے ہیں ، پروپوزل تیار کرکے ایدمنشٹریشن ڈپارٹ کو دے دیا ہے اورانہوں نے شاید یوجی سی کو بھی ، مگر اب تک کچھ نہیں ہوا ، ہوسکتا ہے چند دنوں میں یوجی سی کی کوئی ٹیم آئے اس مسئلہ کو لے کر “۔ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیاوی سی کی کوتاہی بھی ہوسکتی ہے ؟ انہوں نے جواب دیا:”دیکھئے سر!وی سی کو کیسے قصوروارٹھہراسکتے ہیں ، ہاں ، اتنا ضرورہے کہ تدریسی عملہ کی تقرری میں سب دلچسپی دکھاتے ہیں ، مگر غیر تدریسی عملہ کی تقرری سب کو کھٹکتی ہے ، یہانتک کہ یوجی سی کو بھی “۔

جامعہ کی لائبریری میں کوئی تین سے چارلاکھ تک کتابیں ہیں ، چنانچہ مزیدکوئی 60 اسٹاف کی ضرورت ہے ۔یوجی سی کے مطابق تقریباکوئی 7ساڑھے 7ہزار کتابوں پر ایک ایٹنڈیڈکاہونا لازمی ہے ، تاکہ کتابوں کی صحیح دیکھ ریکھ ہوسکے اور ان سے استفادہ کرنے والوں کو کوئی دشواری نہ ہو ، مگر جامعہ کی لائبریری میں صرف اور صر ف (وہ بھی بہ مشکل تمام )تین چارلاکھ کتابوں کے لئے 20ہی ہیں ۔ اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ طلبا کس طرح استفادہ کرتے ہوں گے ؟ کیسے کتابوں کی صحیح دیکھ ریکھ ہوتی ہوگی ؟ کیسے کتابیں محفوظ ہوں گی ؟ شاید یہی وجہ ہے کہ کتابیں جہاں تہاں پڑی رہتی ہیں ، وہ بھی اس حد تک کہ لائبریرین کو بھی کچھ علم نہیں کہ آخر کتابیں ہیں تو کہاں ؟جامعہ کے طلباءکے مطابق بے شمار ایسی کتابیں ہیں جو Data bese میں تو موجود ہیں ، مگر Stake سے غائب اور یہ کتابیں برسوں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ہیں ، جب لائبریرین سے اس موضوع پر گفتگوہوئی تو انہوں نے کہا :”یہ الزام ہے طلباءکا سراسر ، ہوسکتا ہے وہ کتاب ان دنوں ایشو ہو “۔حالانکہ طلبا کا کہنا ہے کہ چند ایک کتابوں کا یہ معاملہ نہیں ، سیکڑوں کتابیں ایسی ہی ہیں ، جب طلبا سے کہا گیا کہ لائبریرن یہ کہتے ہیں تو کئی ایک قدیم طلبا نے کہا :”برسوں ایسی کتابیں ملتی ہی نہیں ، کیا ہمیشہ کے لئے یہ ایشو ہوگئی ہیں ؟“۔طلبا سے حاصل شدہ Accession نمبرات کی کتابیں راقم نے خود جاکر دیکھی تو وہ کتابیںوہاں موجود نہیں تھیں ، لاپتہ چند ایک کتابوں کے نمبرات درج کئے دیتے ہیں :”411339,120408,6831,201280,61236,113280,186325,198275,197029,52860,184548,6443“طلباکا کہنا ہے کہ یہ کتابیں برسوں سے لاپتہ ہیں اور ایسی سیکڑوں کتابیں ہیں ، جن کے متعلق اسٹاف سے پوچھنے پر کوئی معقول جواب نہیں ملتا ہے ، سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر Stock verification کیوں نہیں کی جاتی ہے ؟ آخر کسی کو کیوں نہیں پتہ کہ ان کتابوں کو زمین نگل گئی یا آسمان ؟ کیا عالیشان لائبریری کی عمارت ہی کافی ہے طلبا کو نکھارنے کے لئے ؟ طلبا کا یہ بھی کہنا ہے :”میپ لائبریری کا اہم اثاثہ ہے ، مگر اب دیکھنے تک کو دستیاب نہیں ، وہاں موجودافراد سے گفتگو کی جاتی ہے تو ٹال مٹول کاکھیل ہونے لگتا ہے اور کوئی معقول جواب نہیں ملتا ، اسی طرح Help Desk پر بھی کوئی نہیں ہو تا ہے “۔جب لائبریرین سے اس کے متعلق گفتگو کی گئی تو کہا :”ہیلپ ڈیکس پر کوئی پانچ افراد بیٹھتے ہیں “۔ طلبا کے علاوہ بھی کئی ایک لوگوں نے بتا یا کہ ہیلپ ڈیکس واقعی تنہائی کے آنسو ہی بہاتا رہتا ہے ۔ لائبریرین سے جب یہ پوچھا گیا کہ آپ خود اسٹاف کی کمی کا رونا روتے ہیں ، اس کے باوجود یہاں کے لئے کیسے پانچ افراد نکل آتے ہیں تو انہوں نے کچھ تسلی بخش جواب نہیں دیا ۔

Opaike کا بھی بر حال ہے ، اس میں کوئی 20کمپیوٹر لگے ہیں ، مگر ان میں سے بہ مشکل تمام کوئی تین چار ہی قابل استعمال ہیں ، ورنہ تو بقیہ تمام ہاتھی کے دانٹ !!جب اس تعلق سے ڈپٹی لائبریرین سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا :”نئی بلڈنگ میں شفٹنگ ہوئی ہے ، یہی وجہ ہے کہ فٹنگ نہیں ہو پائی ہے “۔ حالانکہ اس بلڈنگ میں شفٹ ہوئے برسوں کا عرصہ دراز ہوچکا ہے ۔

User Educationکا مطلب کچھ یہ ہے کہ ارباب لائبریری تمام ڈپارٹمنٹ میں جا کرورکشاپ کریں اور طلبا کو مطالعہ کی ترغیب کے ساتھ ساتھ لائبریری کے استعمال کا طریقہ بھی بتائیں ، سیشن شروع ہوتے ہی ایسے پروگرام ہونے چاہئے ،تاکہ نئے طلبا کے لئے بھی لائبریری سے استفادہ آسان ہوسکے ، جامعہ کے سیشن کی شروعات اخیر اگست سے ہوتی ہے اور اختتام 15مارچ کو ، اس کے بعد امتحانات کی کارروائی چلتی ہے ، اس درمیان User Educationکا کوئی جواز نہیں نکلتا ہے ، مگر جامعہ لائبریری سے آرٹی آئی کے تحت جو تاریخ کی فہرست ملی ہے، اس میں کئی ایک تاریخ محل نظر ہے ، اس کے مطابق 15,4,2009-15,7,2009اور 5,8,2009کو بھی اس کا پروگرام ہواہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان ایام میں اس کی ضرورت ہی کیا ؟ جب اس بابت لائبریرین اور ڈپٹی لائبریرین سے رابطہ کیا گیا تو دونوں نے کچھ الگ الگ معلومات دیں ، جو کہ واقعی مضحکہ خیز ہیں ۔ عز ت مآب لائبریرین کہتے ہیں :” اس کامفہوم کا اور دائرہ بہت وسیع ہے ، ماناکہ 15مارچ کو جامعہ کا سیشن بند ہو جاتا ہے ، مگر لائبریری اور یونیورسٹی بند نہیں ہوتی ہے ، اگر ہم پانچ اسٹاف یا دیگر اساتذہ مل کر لائبریری کے تعلق سے جو بھی کفتگو کریں ، دراصل وہ بھی یوزر ایجوکیشن کے تحت ہی آئے گا ، مارچ ، اپریل یا اگست کی ابتدائی تاریخ کی جو تفصیل آرٹی آئی کے جواب میں دی گئی ہے ، وہ اسی قبیل سے ہے “۔ مگر جب عالی جناب ڈپٹی لائبریرین فرماتے ہیں :”سوری سر!اگر آپ کے پاس ایسی کوئی تاریخ ہے تو وہ ٹائپنگ ایرر ہے ، چونکہ ٹائم شارٹ ہوتا ہے ، شاید اس لئے ایسی کوتاہی ہوگئی ہے ، ورنہ تو سیشن کے اندر اندر ہی اس کے پروگرام ہو ئے ہیں ، دوبارہ آرٹی آئی بھیج دیں ، صحیح انفارمیشن دیں گے “۔ سبحان اللہ ! تاویلات پر صدقے جاﺅں حضرات کے !!

اخیر میں آرٹی آئی ، اردو اور عالی جناب شیخ الجامعہ (وی سی)کے متعلق انتہائی مختصر گفتگو بھی مناسب ہے ، شیخ الجامعہ نے ایک ایسا تاریخ ساز فیصلہ لیا ہے ، جسے ہر ایک نے سراہا ہے ، ان کی اردو دوستی کو سلام کیا ہے ، چند ایک ڈپارٹمنٹ کو مستثنیٰ قراردیتے ہوئے ہر ایک شعبہ کے لئے اردو کو لازمی قراردیا ہے ، ظاہر ہے اتنے بڑے ادارہ کا یہ قدم قابل دادوتحسین ہے ، مگر حیرتناک افسوس اس وقت ہوا جب اردو آرٹی آئی درخواست کاجواب انگریزی میں موصو ل ہوا ۔ اوریہ سوچ کر شاید اردو میں تیار آرٹی آئی جواب دیکھ کر وی سی محترم خوش ہوں گے ، ان کے دستخط کی بھی التجا کی گئی تھی ، مگر ایک تو انگلش میں جواب موصول ہوا ، وہ بھی دستخط کے بغیر ۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر چراغ تلے اندھیرا کیوں ؟ اردو کے تعلق سے قول وعمل میںتضاد کیوں ؟ کیا وی سی کی اہمیت نہیں لائبریرین کے سامنے؟وی سی فروغ اردو کا نعرہ بلندکرتے ہیں ، مگر لائبریرین اردو کا جنازہ نکالنے میں مصروف ! آخر کیا وجہ ہے اردو سے بے اعتنائی کی ؟ اس بابت لائبریرین اور ڈپٹی لائبریرین سے بات کی گئی ، ان کا قول بھی بہت بھاتا ہے۔ لائبریرین کہتے ہیں:”آرٹی آئی کے جوابات تیار کرنے میں وقت بہت لگتا ہے، اس لئے جلد بازی میں وی سی سے دستخط کروانہ سکا “۔ وہیں ڈپٹی لائبریرین کہتے ہیں :”ہماری اردو کمزور ہے ، آخر ہم کیسے اردو میں تیار کرسکتے ہیں آرٹی آئی “۔وی سی کے تاریخ ساز فیصلہ اور لائبریرین و ڈپٹی لائبرین کے اقوال کے مدنظر بہت کچھ کیا جاسکتاہے اور لکھابھی ۔،9891233492۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100831 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More