............12 ربیع الاول
................
مطالعہ قرآن و اسلام اور تاریخ ومذہب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین و زماں ‘
کون و مکاں ‘ جبرئیل و میکائیل ‘ بہشت و برزخ اور ملائکہ سے قبل بھی محمد
مصطفی ﷺ کا وجود تھا اور رب کی تمام تخلیقات کی بنیاد و اساس ذات محمد اور
حبُ محمد تھی یہی وجہ ہے کہ رب نے اپنے حبیب کا ذکر نہ صرف تمام الہامی
مذاہب کی روحانی کتب میں کیا بلکہ کتاب الحکمت قرآن کریم فرقان مجید کو بھی
ذکر مصطفی سے مزین رکھا اور ” لااِلٰہ َ اِلااللہ “کے ساتھ”محمد الرسول
اللہ“ لگاکر اللہ و محمد کے ذکر کو یکجا کرکے زبان سے اقرار کرنے اور دل سے
اس کی تصدیق کو ایمان سے رجوع قرار دیا اور پھراذان و نماز کی کاملیت کو
ذکر مصطفی سے مشروط کرکے اپنے محبوب سے محبت کا جو اظہار کیا ہے وہ اس بات
کا ثبوت ہے کہ محبت مصطفی سے خالی دل کبھی حب الٰہی کی جانب راغب نہیں
ہوسکتا اور عشق مصطفی ہی در اصل عشق الٰہی کی جانب رغبت اور صراط مستقیم کی
جانب سفر کی بنیاد و اسا س ہے اور جب تک راہ کی شناخت نہ ہو ‘ اس پر چلنے
کیلئے درست رہنمائی نہ ہو منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا ۔ اسی لئے رب نے
اہل ایمان کو قرآن کریم کی شکل میں بہشتی منزل تک پہنچے کی جو راہ دکھائی
ہے اس کیلئے نبی ﷺ کی زندگی وسنت رہنمائی کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ منزل تک
پہنچنے کی ضمانت بھی ہے ۔
اسلئے صرف اللہ پر ایمان لانے سے ہی رب کی رضا کا حصول ممکن نہیں ہے بلکہ
اس کے محبوب سے محبت اور اللہ کی ہدایت و عبادت کیلئے محمد کی سیرت سے
رہنمائی کی بھی ضرورت ہے اسلئے جس طرح مسلمان پر نماز ‘زکوٰة اور روزہ فرض
ہے اسی طرح ہر مسلمان کو سیرت نبوی کا بھی مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ ان فرائض
کی دائیگی کیلئے مستند رہنمائی کا حصول ممکن ہو اور ہم ہر اس غلطی و لغزش
سے محفوظ رہ سکیں جو ہمیں رب کی رحمت سے دور کرکے قہر کی دعوت دینے کا باعث
بن جائے ۔
رب ذوالجلا ل نے جہاں عبادات وفرائض کے ذریعے انسان کو رب کی رضا ونجات تک
پہنچنے کی راہ دکھائی وہیں ذکر مصطفی یعنی درود پاک کے ذریعے رب تک براہ
راست رسائی اور رب کی رحمتوں کو اپنی جانب سفر کی دعوت دینے کا وسیلہ بھی
بنادیا اور اہل ایمان کو بتادیا کہ روزہ ‘ نماز ‘ زکوٰة ‘ حج اور دیگر
عبادات انسان پر فرض اور رب کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہیں مگر جب کوئی اہل
ایمان صداقت کے ساتھ درود پاک کا ودر و ذکر کرتا ہے تو ملائکہ اس پر درود
پڑھتے ہیں یعنی سلامتی کی دعا دیتے ہیں اور ملائکہ کا قیاس و شمار انسان کے
بس سے باہر اور بعید از قیاس ہے ۔
رب رحمن کو اپنے حبیب سے اس قدر محبت ہے کہ اس نے محمد سے ان کے ذکر کو
بلند کرنے کا وعدہ فرمایااور پھر اس ذکر کو بلند کرنے کیلئے کائنات تشکیل
دی ‘ انسان ‘ حیوان ‘ چرد ‘ پرند ‘ درند ‘ حشرات ‘ آبی مخلوقات ‘ بادی ‘
آبی ‘ خاکی اور آتشی مخلوقات پیدا فرمائیں ۔ آدم علیہ السلام کو خلق کیا
حوا کا ساتھ عطا کیا گناہ کا پھل بنایا جو آدم کو جنت سے دنیا میں منتقل
کرنے کا سبب بنااور آدم کا احساس تنہائی محبت کی ماہیت کے ادراک کا سبب بنا
جس کے بعد حوا کو آدم کے پسلی سے پیدا فرماکر رب نے آدم ؑ کو اس کی عبادت
وریاضت کا صلہ عطا کیا اور آدم و حو ا کی محبت و ملن افزائش انسانی کا باعث
بنی اور آدم کے بعد دنیا میں ان ہی کی اولادوں میں انسان و انبیاءدونوں
تشریف لاتے رہے مگر جب اللہ رب العزت نے انسان کو خسارے میں پایا تو خالق
مخلوق کا اپنی خلق سے محبت کا جذبہ عود کرآیا اور اس نے اپنے محبوب کی
جدائی و تنہائی کے کرب سے گزرکر انسان پر اپنی رحمت کی اور اپنے حبیب کو
دنیا میں اسلئے مبعوث فرمایا کہ وہ حضرت انسان کو رب کی مرضی و رضا کی جانب
ملتفت فرماکر انہیں رب کی رحمت اور جنت کا حقدار بنائیں ۔
12ربیع الاوّل وہ تاریخ ساز دن ہے جب رب نے انسان کی فلاح کیلئے اپنے حبیب
کو خود سے جدا کیا اور محمد مصطفی ﷺ کو دنیا میں مبعوث کیا اس لئے رہتی
دنیا تک یہ دن سب سے بڑا ‘ سب سے با برکت اور سب سے زیادہ عظمت و الا دن
کہلا یا جاتا رہے گا کیونکہ اس دن وہ ہستی اس جہان فانی میں رب کی جانب سے
مبعوث کی گئی جس کی محبت ‘ اظہار محبت اور ذکر کو بڑھانے کیلئے یہ جہاں
تخلیق کیا گیا ۔
خالق کو اپنے محبوب کے ذکر کو آسمانوں سے باہر پھیلانا بھی مقصود تھا اور
تمام جہانوں کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآالہ وسلم کے ذکر سے معمور کرنا
تھا اور رب کی یہی خواہش تخلیق کائنات کا سبب تھی یہی وجہ ہے کہ رب نے اپنے
ذکرکے ساتھ محمد کے ذکر کو لازم کردیا اور اذان و نماز کو بھی اس ذکر سے
مشروط کرکے اس ذکر کو ہر لمحہ ‘ ہر ساعت کیلئے لازم بنادیا کیونکہ
جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے ہر خطے میںہر لمحہ وقت مختلف ہوتا ہے اور اذان
و نماز سورج کی چال و رفتار کے حساب سے ہوتی ہیں جس کی وجہ سے دنیا کے
مختلف حصوں میں مختلف اوقات میں اذان و نماز ہوتی رہتی ہے اور اگر یہ کہا
جائے کہ وقت کے ہر لمحہ میں دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں اذان و نماز ہمہ
وقت ہوتی رہتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وقت کے ہر لمحہ میں اللہ تبارک و
تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ساتھ اس کے رسول کا ذکر ہوتا ہے اور رسالت محمد
کی گواہی دی جاتی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس بات سے بھی انکا ر نہیں کیا جاسکتا
کہ کائنات میں موجود ہر جاندار و بے جان شے ہر لمحہ ذکر الٰہی میں مصروف ہے
انسان کے علاوہ چرند ‘ پرند‘ درند ‘ حشرات ‘ جنات ‘ آبی مخلوقات سے لیکر
حجر ‘ شجر ‘ بحرو بر ‘ آب و باد‘ خاک و تاب تک ہر شے ہمہ وقت ذکر ربوبیت
میں مشغول و مصروف ہے اور رب نے اپنے ذکر ” لااِلہٰ اِلااللہ “کی تکمیل کو
” محمد رسول اللہ “ سے مشروط کرکے اس ذکر کواس قدر بلند کردیا ہے کہ ہر
لمحہ ہر مخلوق ذکر الٰہی کے ساتھ ذکرِ مصطفی میں بھی مشغول ہے ۔
اسلئے 12ربیع الاوّل اہل ایمان کیلئے رب کی رحمت کے نزول کا وہ دن ہے جس دن
رب نے انسان کوخسارے سے نکال کر فلاح کی جانب لانے کیلئے اپنے محبوب کو
دنیا میں مبعوث فرماکر انسان سے اپنی محبت اور اس کی فلاح اور اس پر اپنی
رحمت کے نزول کیلئے بیتاب و بیقرار ہونے کا ثبوت دیا اسلئے 12ربیع الاوّل
اہل ایمان کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں اور مخلوقات کیلئے اس عظیم نعمت
سے نوازے جانے کا دن ہے جس کے صدقے اور وسیلے سے ہمیں رضائے الٰہی اور بہشت
سمیت ہر نعمت ملنی ہے کیونکہ حضور اکرم کی ذات پاک اللہ کی نعمت عظمیٰ ہے
اور باقی جملہ نعمتیں آپ کے صدقہ سے ہیںاسلئے سرور انبیاءکی تشریف آوری
تمام عالمین کے لئے رحمت ہے اور سرور عالم کی ولادت کا جشن منانا درحقیقت
اللہ کا تشکر ادا کرنا ہے کہ اس رب رحمن و رحیم نے ہمیں ان کی اُمت میں
پیدا فرمایا جن کی نسبت و شفاعت سے آخرت میں جنت و مقام ملے گا۔
حضور پرنور ﷺ کی تشریف آوری سے پوری دنیا ئے انسانیت کومنزل ملی اور جشن
ولاد ت نبوی اُمت مسلمہ کو دعوت فکر دیتا ہے کہ انفرادی و اجتما عی سطح پر
اسلام کے حقیقی تصو ر کو اجاگر کر کے اپنے کر دار و عمل کی اصلاح کی فکر کے
ساتھ اللہ کی بند گی کا حق ادا اور احکاما ت الٰہی پر عمل یقینی بنایا جائے
۔
12ربیع الاول تاریخ انسانیت میں وہ متبرک گھڑی ہے جس میں آفتاب رسالت کی
روشنی نے جہان کو گمراہیوں اور تاریکیوں سے نکالا اور رب ذوالجلال نے سسکتی
ہوئی انسانیت کو رحمت اللعالمین کی نعمت سے نواز ا جن کی ذات تمام بنی نوع
انسانوں کیلئے نعمت ‘ رحمت اور مشعل را ہ ہے اور اگر مسلمان حقیقی معنوں
میں رب کی عبادت کے ساتھ محمد ﷺ کی سنت پر بھی عمل پیرا ہوجائیں تو ہمارا
معاشرہ حقیقی معنوں میں امن کا گہوارہ بن جائے ۔ |