فصاحتِ عرب اُور بلاغت عرب نے
اگر چہ دُنیا کو گوُنگا (عجمی) بنا کر حیران و پریشان کر رکھا تھا۔ اُور
سُخنِ عرب کے آگے دُنیا بھرکے شاعر و ادیب اپنی اپنی گردنوں کو جُھکا لیا
کرتے تھے۔ حالانکہ شام و فلسطین میں اُس وقت دُنیا کے سب سے بڑے دانشور ،منجم
اُور راہب موجود تھے۔ جو دُنیا بھر کے علمی تشگان کی نِگاہوں کا مِحور بھی
تھے۔لیکن بات جب بھی علم کی بُلندیوں کی آتی۔ یا شجاعت کے تذکرے بیان
ہُوتے۔۔۔تو ۔۔۔ مجبوراً یہ عِلم کے علمبردار یک زُباں ہُوکر ،، مردانِ عرب
،، کے گُن گاتے نظر آتے تھے۔
لیکن تخیل کی معراج اُور فکری بُلندی و نُدرتِ خیال کے باوجود یہی ،،مردانِ
عرب،، شقاوتِ قلبی اُور بے حِسی کی دُوڑ میں بھی برتری کے سبب اقوام عالم
میں اپنی انفرادیت کی وجہ سے ذلیل و خُوار بھی تھے۔ اقوامِ عالم میں جہاں
اِنکی فصاحت و بلاغت کے نغمے بُلند تھے۔ وہیں۔ اِنہیں وِحشی۔ حیوان، اُور
جلاد کے القاب سے بھی پُکارا جاتا تھا۔
اگرچہ تمام دُنیا میں ہی اُس وقت ،،نسوانیت ،،عزت نفس کیلئے بِلک بِلک کر
تڑپتے ہُوئے کسی مسیحا کی منتظر تھی۔ لیکن اہل عرب نے تو ایک قدم آگے بڑھ
کر اِنکی اَفزائش کو بھی کنٹرول کرنا شروع کردیا تھا۔ بچیوں کی پیدائش کو
اپنے لئے رُسوائی کا سبب سمجھنے والی یہ قُوم ۔ اب دُنیا کو ایک نیا رستہ
دِکھانے لگی تھی۔ چُنانچہ لڑکیوں کی پیدائش پر اُنہیں زِندہ درگور کیا جانے
لگا تھا ۔ عورت کو صرف بستر کی زینت سمجھا جانے لگا تھا۔ باپ کے مرنے کے
بعد وراثت کے حقدار صرف مرد تھے۔ اُور مرد بھی وُہ ۔جو۔طاقتور ہو۔ ورنہ
کمزور کو اپنا حصہ وصول کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔
صاف پانی کے ایک جوہڑ کیلئے قتل و غارت گری کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع
ہُوجاتا۔ غریب کو امیر کے پہلو میں بیٹھنے کا حق نہیں تھا۔ معمولی جھگڑوں
کی وجہ سے خاندان کے خاندان صفحہ ہستی سے مِٹ جاتے۔ اشرافیہ کیلئے گُناہ
عیب کی بات نہیں تھی۔ جبکہ قانون کا اِطلاق صرف نادار پر ہُوتا۔ علاقائی
معملات میں مشاورت بھی صرف اُمرا سے لی جاتی۔ مَزدُورں اُور غُربا کی عزت
نفس کا خُوب مَذاق اُڑایا جاتا۔ جِس پر احتجاج کرنے والوں کو بے ادب و
گُستاخ گردانا جاتا تھا۔ جسکے عوض بسا اُوقات اُنہیں اپنی عزت و آبرو یا
جان سے بھی ہاتھ دُھونا پڑ جاتا۔
ایسے حالات میں جب کہ،، انسانیت تڑپ تڑپ کر زَلالت کی عمیق گھاٹی میں جاں
بلب ہُوئی جارہی تھی۔۔۔۔ خُدا کی برتری کا تصور اگرچہ اِن مردانِ عرب میں
موجود تھا۔ لیکن ایک خُدا کی پرستش انہیں گوارا نہیں تھا۔ شائد اِسی لئے
اپنی ضرورت کیلئے اُنہوں نے بے شُمار خُداوٗں کے تصور کو ایجاد کرلیا تھا۔
اب ہر ایک ضرورت کیلئے ایک الگ خُدا کو پُکارا جانے لگا تھا۔
شرک کا بازار صبح وشام گُمراہی کے گُماشتوں میں اِضافہ کا سبب تھا۔ لُوگ
توہم پرستی اُور بد عقیدگی کی دَلدل میں سر تا پاوٗں ڈُوب چکے تھے۔وُہ
ظُلمت کی شب طاری تھی۔ کہ جس میں اُجالا کوئی نہ تھا۔۔۔۔ تیرگی نے نا صرف
فلک کی روشنی کو زمین پر اُترنے سے رُوک رَکھا تھا۔ بلکہ اِس تیرگی کے راج
سےقلوبِ انسانی بھی بیمار وُ مُردہ ہُوچُکےتھے۔
پھر خالقِ کائنات نے انسانوں پر رحم فرمایا اُور احسانِ عظیم فرماتے ہُوئے۔
اُنہیں اِس تیرگی سے نِکالنے کیلئے نور کا اہتمام فرمایا:
اُور بلاآخر اتنی ظُلمت و گمراہی کے بعد ۱۲ ربیع الاول کی ایک سحر نے زمانے
کی تیرگی کا سینہ چاک کرتے ہُوئے تمام کائنات میں رنگ و نور کی بارش کردی۔
آج سردار مکہ کے بیٹے عبداللہ (رضی اللہُ عنہ) اُور آمنہ بی بی( سلامُ اللہ
علیہا )کے گھر کائنات کے تاجدار کی ولادت ہُوگئی ہے۔ جِس کے سبب شیطان اپنے
سر پر مٹی ڈالتا پھر رَہا ہے۔۔۔۔اُور آج اُسکے شیطانی وفود جو کل تک جوق در
جوق آسمانِ فلک تک آسمانی خبریں سُننے کیلئے بے دھڑک چلے جایا کرتے تھے۔ آج
شہابِ ثاقب کے سبب اپنے جلے ہُوئے جسموں کیساتھ حیران و پریشان یہاں سے
وہاں سراسیمگی کی حالت میں دوڑتے نظر آرہے ہیں۔ اُور اُنکی زُبان پر ایک ہی
سوال ہے۔۔۔ کہ یہ کس کی آمد ہُوئی ہے۔۔۔؟؟؟ جسکی وجہ سے اُنکی آنکھوں کی
بصارت زائل ہُونے لگی ہے۔ قُوتِ پرواز مدہم پڑگئی ہے۔۔۔ اُور فرشتے اُنہیں
اپنے نورانی کُوڑوں کی مدد سے آسمان فلک تک آنے سے رُوک رہے ہیں۔۔۔؟؟؟
محبوب خُدا (صلی اللہ علیہ وسلم )کی آمد نے صرف قبائل عرب کی زندگیوں پر ہی
اثرات مرتب نہیں فرمائے تھے۔ بلکہ آپکی آمد کی برکت کا فیض رفتہ رفتہ تمام
اقوام عالم کو مستفید فرمانے لگا۔ آپکی صداقت ،امانت، حُسنِ اِخلاق، ایثار،
اُور آپکی خُوبصورت گفتگو نے اِن جہلائے عرب کی زِندگیوں میں عجیب اِنقلاب
برپا کردیا تھا۔وُہ اب ضرورت کیلئے خُدا تراشنے کے بجائے ایک واحد معبود کی
رضا کی جستجو میں مستغرِق تھے۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی دعوت کو قبول کرنے والے مردانِ عرب کی زندگیاں
یکسر تبدئل ہُوچُکی تھیں۔ جِنہیں دیکھ دیکھ کر اقوامِ عالم بھی تجسس کے
عَالم میں اسلامی تعلیمات سے آگاہی کی خُواہشمند تھی۔ کیوں کہ تفرقوں میں
بٹے ہُوئے عرب قبائل نا صرف ایک جسم کی مانند ہُوچُکے تھے۔ بلکہ اب وُہ ایک
دوسرے کی تکلیف کو بھی محسوس کرنے لگے تھے۔ عورت کو پاوٗں کی جُوتی اُور
صرف بستر کی زینت سمجھنے والے اب بنتِ حَوا کی عظمت تسلیم کرنے لگے تھے۔
بلکہ جنت کا رستہ(ماں کی صورت) اُسی عورت کے تلوئے سے تلاش کیا جانے لگا
تھا۔ اُور بیٹی کو زِحمت کے بجائے رحمت کا لقب مِل چُکا تھا۔۔۔ بیوی کو دین
میں مددگار سمجھا جانے لگا۔ اب جھگڑوں کے بجائے ایثار سے کام لیا جانے لگا
تھا۔
غربا کی بات تو چھوڑیئے زرخرید غلاموں کو بھی نسب کے بجائے نسبت کی وجہ سے
یا سیدی کہہ کر پُکارا جانے لگا تھا۔۔۔ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی
تعلیمات نے امیر و غریب کا فرق مِٹا دیا تھا۔ اب کسی عربی کو کسی عجمی پر
فوقیت نہیں تھی۔ کِسی امیر کو کِسی غریب کی عزت اُچھالنے کی اِجازت نہیں
تھی۔ کوئی سردار ہُونے کے باعث عزت دار نہیں تھا۔ اُور نہ ہی کوئی غریب
ہُونے کی وجہ سے کمتر تھا۔ لوگوں میں بڑائی کا معیار عِلم ،تقویٰ اُور
پرہیزگاری کی وجہ سے تھا۔ کریم آقا علیہ السلام کی تعلیمات کے سبب باشندگان
عرب کی زندگی میں جو انقلاب برپا ہُوا۔ اِس سے تمام عَالم ناصرف مُتاثر
ہُورہا تھا۔بلکہ وُہ سب بھی اِس کے اثرات سے اپنا کھویا ہُوا وقار حاصل
کرنے کے متمنی تھے۔ بس خطرہ تھا اِس نظام سے تو صرف اُن لوگوں کو تھا۔
جِنہوں نے بادشاہ بن کر اپنے وجودکو از خود خُدا کے منصب پر فائز کررکھا
تھا۔ اُور مخلوقِ خدا سے اپنی نیاز مندی اُور پرستش کے خواہاں تھے۔
اُور یہ بھی میرے کریم آقا صلی اللہُ علیہ وسلم کی تعلیمات کا اعجاز ہے۔ کہ
انبیائے سابقہ کی تعلیمات کو اُنکی اُمتیں بعد میں فراموش کردیا کرتی تھیں۔
جبکہ رسول کریم صلی اللہُ علیہ وسلم کے ظاہری وِصال کے بعد بھی خلفائے
راشدین نے آپ صلی اللہُ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بڑی سے بڑی ترغیب پر بھی
ایک لمحے کیلئے نظر انداز نہیں کیا۔ چُنانچہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ
کے زمانہ خلافت میں جِس وقت فتوح شام کیلئے مجاھدین کی اشد ضرورت تھی۔ اُور
حبلہ بن ایہم غسانی قبیلے کے چالیس ہزار افراد کیساتھ دائرہ اسلام میں داخل
ہُوتا ہے۔ اُور طوافِ کعبہ کے دُوران ایک غریب شخص کا پاؤں اسکے احرام کی
چادر پر پڑ جاتا ہے۔ جسکے سبب حبلہ بن ایہم کے کاندھے سے چادر کھسک جاتی
ہے۔ اُور وُہ غصہ میں آکر اُس غریب کے چہرے پر تھپڑ مار کر اُسکے دانت تُوڑ
دیتا ہے۔ اُور جب فریادی سیدنا عُمر رضی اللہُ عنہ سے فریاد کرتا ہے۔
تب آپ حکم صادر فرماتے ہیں کہ،، حبلہ یا تو اِس غریب سے معافی طلب کرو۔
اُور اسے راضی کرو۔ ورنہ قصاص میں خُود بھی تھپڑ کھانے کیلئے تیار ہُوجاوٗ۔
جسکے جواب میں حبلہ بن ایہم اپنی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہُوئے کہتا ہے کہ،،
میری وجہ سے چالیس ہزار لوگ مسلمان ہُوئے ہیں۔ لِہذا مجھے رعایت دی جائے۔
کیوں کہ میں غُسانی قبیلے کا سردار بھی ہُوں۔۔۔ لیکن قربان جایئے سیدنا
عُمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے ۔آپ جواب میں کہتے ہیں کہ،، میرے آقا علیہ
السلام کی یہی تعلیمات ہیں۔ کہ امیر و غریب میں کوئی فرق نہیں۔ اسلام میں
سب برابر ہیں۔ لہذا ہر دُو میں سے ایک سزا تو برداشت کرنی ہی پڑے گی۔۔۔
جسکی وجہ سے حبلہ بن ایہم رَاتوں رات بھاگ کر مُرتد ہُوجاتا ہے۔ لیکن سیدنا
عُمر فاروق قولِ مصطفٰی صلی اللہُ علیہ وسلم پر کوئی سمجھوتا کرنے کیلئے
تیار نہیں ہُوتے ۔ اُور قیامت تک کے ملما نوں کیلئے ایک مِثال قائم
فرمادیتے ہیں۔ اُور بلاآخر یہ حبلہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے
ہاتھوں واصلِ جہنم ہُوجاتا ہے۔
محترم قارئین کرام دِل پر ہاتھ رکھ کر کہیئے کہ،، پیارے مصطفٰے (صلی اللہُ
علیہ وسلم) اُور خلفائے راشدین کی تعلیمات کی روشنی میں۔ کیایہی سبق موجود
نہیں ہے۔ کہ،، ہر ایک مسلمان کی عزت دوسرے مسلمان پر فرض ہے۔۔۔؟ لیکن کیا
ہم دوسرے مسلمانوں کی تکریم کرتے ہیں۔۔۔؟ اُور کریم آقا علیہ السلام نے تو
ہمیں ٹولیوں اُور گروہوں سے نِکال کر ایک قُوم بنا دیا تھا۔ لیکن کیا ہم
پھر سے بکھر بِکھر کر ٹولیوں کی صورت اختیار نہیں کرتے جارہے۔۔۔؟ کیا عید
میلاد النبی کا دِن ہمیں یہ سبق نہیں دے رَہا۔ کہ خُدا عزوجل اُور میٹھے
مُصطفٰے صلی اللہُ علیہ وسلم کے نام پر پھر سے ایک ہُوجاؤ۔اُور رَسُولِ
محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیارات مانپنے کے بجائے اُنکے نام پر نِثار
ہُوجاؤ۔ تاکہ کل حشر میں شرمندہ نہ ہُونا پڑے۔ |