تعظیم اوراتباع دومختلف لفظ ہیں
اور ددنوں کی معنیاتی سرحدیں بھی ایک دوسرے سے بالکل جداگانہ ۔اسلام کے
ماننے والوں کودونوں کاحکم ہے ۔اسلام کی کلیت پراسی وقت بھرپورعمل ہوسکے
گاجب اپنے مقتداورہنماکی تعظیم بھی بجالائی جائے اوران کے ارشادات وفرمودات
کواتباع وعمل کے رشتے سے ہم کناربھی کیا جائے بصورت دیگرکوئی بھی مسلمان
مکمل طورپراسلام کانام لیوانہیں قراردیاجاسکتا۔ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم
عقیدت واحترام اورتعظیم وتوقیرکے جذبے سے سرشارتورہتے ہیں مگراتباع
وتقلیدکی دولتِ گراں مایہ سے فیضیاب ہونے کی توفیق ذراکم ہی لوگوں کونصیب
ہوتی ہے۔حدتویہ ہے کہ اتباع تودرکنار ہم تعظیم واحترام سے بھی ایک سطح نیچے
اترآئے ہیں جسے عقیدت کے نام سے موسوم کیا جاتاہے اوراس عقیدت کے نام
پرشعوری یاغیرشعوری طورپروہ سب کچھ کررہے ہیں جسے اسلام توکیاصحیح فہم
وادراک اورپختہ عقل وشعوررکھنے والافردبھی پسندنہیں کر سکتا۔عصری ماحول کے
جبراوردین کے حوالے سے بے اطمینانی (یہ الگ بحث ہے کہ اس بے اطمینانی کے
ذمے دارعلماومشائخ ہیں یاخودعوام ہیں یا کوئی اور)نے مسلمانوں کے ذہنوں میں
دین و مذہب کے معنی گڈمڈکردیے ہیں اوروہ علاقائی رسوم ورواج کوبھی دین
کاحصہ سمجھنے لگے ہیں۔یہ صورت حال دین کے کسی ایک پہلوسے متعلق نہیں ہے
بلکہ دین کی پوری کلیت ا س کی زدمیں ہے ۔یہ مسلمانوں کی بدنصیبی ہی توہے کہ
انہوں نے دین کے احکامات وہدایات کورسم ورواج کامجموعہ سمجھ لیاہے اوراپنی
غیرشرعی ،غیرقانونی اورغیراخلاقی سرگرمیوں کی بنا پر عید میلادالنبی (صلی
اﷲ علیہ وسلم) جیسا معظم ،مقدس ،متبرک اورتاریخ سازدن بھی مجموعۂ خرابات
بنالیا ہے۔ مسلمانوں کوا س عظیم دن سے نہ کچھ سیکھنے کی توفیق ہوتی ہے
اورنہ سکھانے کی ۔ظاہرہے کہ انسان جب تک خودکوئی چیزنہ سیکھے تووہ دوسروں
کوکیوں کرسکھانے کافریضہ انجام دے سکتاہے؟
ایک بڑی غلط فہمی جوذہنوں میں پرورش پاچکی ہے بلکہ ا س کے مظاہراندرون سے
بیرون تک منتقل بھی ہوچکے ہیں وہ علاقائی رسوم وروایات کادین سے منسوب
ہوناہے ۔ رواج کسی بھی علاقے اور کسی بھی طرح کے ہوں اگروہ دین کے احکام کے
مطابق نہیں ہیں تودین سے ان کاکوئی بھی تعلق نہیں۔ انہیں اپنانے کی کسی بھی
صور ت میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔ہاں اگروہ احکام شرعیہ سے متصادم نہیں ہیں
تواس کی اجازت دی جاسکتی ہے مگروہ دین کاحصہ نہیں کہلاسکتے۔جلوس
عیدمیلادالنبی صلی اﷲ علیہ وسلم میں بعض چیزیں ایسی درآئی ہیں جوعلاقائی
رسم ورواج کاحصہ ہیں۔اصل دین یااصل اسلام نہیں ہیں مگرچوں کہ ہمیں اس مبارک
موقع پرہرطرح کی جائزومباح خوشی منانے اوردوسروں کواس کی ترغیب دینے کاحکم
ہے۔ ا س لیے اس کی صرف اتنی ہی مقدارکی اجازت ہوگی کہ دین کاکوئی بھی حکم ا
س سے متصادم نہ ہوتاہو۔تصادم کی صورت میں تواسے اپنانا کسی بھی حال میں
جائزنہیں ہوگاچہ جائیکہ اسے رسولِ گرامی وقارصلی اﷲ علیہ وسلم کے یومِ
ولادت کے موقع پراپنایاجائے ۔انصاف سے بتائیے کہ ہماراجلوس
کیاواقعتاًایساہے کہ اسے نبی رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کے یوم ولادت کی مسرت و
شادمانی کاجلوس کہاجائے؟آپ ٹھنڈے دل سے سوچتے کیوں نہیں کہ اس مبارک جلوس
میں بدعات وخرافات ،ہلڑبازی،مردوزن کااختلاط اورموسیقی والی نعتوں پررقص
وسروداورڈی جے کااہتمام کیوں کیاجارہاہے ۔؟کیاساری ذمے داری علماومشائخ کی
ہے سماج کے سربرآوردہ اوربااثرلوگ کچھ نہیں کرسکتے؟ یقین کرلیجیے کہ اگراس
مبارک دن پریہ جلوس نہ نکالا جا ئے تو یہ کسی دنیادارقائدکاجلوس معلوم ہوگا
،نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے یوم ولادت کانہیں۔اوراگرآپ سنجیدگی سے
غورکریں تومحسوس ہوگاکہ اس طرح کاجلوس حقیقتاً کسی دنیادارآدمی کاہی
ہوسکتاہے ۔کہیں ایساتونہیں کہ ہم ان سب خرافات کے ساتھ ا س جلوس کواپنے نبی
سے منسوب کرکے واﷲ العظیم ان کی توہین کے مرتکب ہورہے ہوں؟۔ ہمارے نبی توان
مروجہ برائیوں اورخرابیوں کے بائیکاٹ کے لیے تشریف لائے تھے اورپورے مسلم
معاشرے کواس رقص وسرود،گانے وغیرہ کی لعنت سے پک وصاف فرمادیاتھا۔ایسی صورت
میں ہمیں اپنے ضمیرسے سوال کرناہوگااوراپنے رویے پرنظرثانی کرناہوگی کہ
کیاواقعی ہماراجلوس عیدمیلادالنبی کاجلوس ہے؟
مسلمانوں کے انداز سے ایسا ظاہر ہوتاہے کہ گویاوہ جلوس کے دن اپنی قوت
کازیادہ سے زیادہ مظاہرہ کرناچاہتے ہوں ۔آپ لاکھ چیخیں ،تحریریں لکھیں ،تقریریں
کریں کہ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم پیغمبرامن تھے ،سفیرمحبت تھے ، انسانیت
ورواداری کے داعی تھے اورسارے عالم کے لیے رحمت تھے مگرہمارے اورآپ کے عمل
اوراندازسے اس کی تکذیب ہی ہوتی ہے ۔ایسی صورت میں ظاہرہے کہ دنیاوالے
ہمارے نبی کے متعلق غَلط فہمی کیوں نہ رکھیں۔کیاہم نے شعوری طورپراس کے
ازالے کے لیے کوشش کی ہے ؟دشمنوں کوتوغذاہم ہی اپنے کرتوتوں سے فراہم
کردیتے ہیں ۔خوشی کے نام پراس طرح کی حرکتیں کرناکہاں کی دانش مندی ہے ؟مسرتوں
کے دیپ ضرورجلائیے ،ایک دوسرے کویوم ولادت سرکار(صلی اﷲ علیہ وسلم )کی
مبارک بادضروردیجیے اورچراغاں ضرورکیجیے مگرخداراا س کے ساتھ ساتھ اپنے نبی
کی تعلیمات سے اپنے عمل کارشتہ بھی مضبوطی سے جوڑلیجیے۔
ما تم تویہ ہے کہ ہم نے دین کے حوالے سے جوش ،جذبے اورعقیدت کوہی کل دین
سمجھ لیاہے اوراتباع وتقلیدکوکوئی ملکوتی چیزسمجھ بیٹھے ہیں ۔عیدمیلادالنبی
کے جلوس سے اگرہمارے اندرتقدس واحترام اوراتباع وتقلیدکاجذبہ نہ جاگے
توایساجلوس ،جلوس عیدمیلادالنبی کیوں کرہوسکتاہے اورکیوں اسے نبیِ اکرم صلی
اﷲ علیہ وسلم کے یوم ولادت سے منسوب کیاجاسکتاہے؟اگرجلوس میں وہی سب کچھ
روارکھاجائے جوغیروں کے یہاں ہوتاہے یامسلمانوں کے درمیان شادی بیاہ وخوشی
کے مواقع پرہوتاہے تو پھران دونوں کے درمیان فرق کیارہا؟ہم ڈی جے بجاتے ہیں
،موسیقی والی نعتیں سنتے ہیں اورلاؤڈاسپیکرکی آوازاتنی تیزکردیتے ہیں کہ
کان کی پڑی آوازبھی سنائی نہیں دیتی۔ اس سے صوتی آلودگی پھیلتی ہے، مریضوں
اوربوڑھوں کو تکلیف پہنچتی ہے،لوگوں کے آرام میں خلل پڑتاہے اورسکون درہم
برہم ہوتاہے ۔کسی کوچھوٹی سی تکلیف دیناتوہروقت منع ہے مگرعیدمیلادالنبی
صلی اﷲ علیہ وسلم کے مبارک موقع پرخاص طورسے کوشش کی جائے کہ ہمارے حرکت سے
کسی کوہلکی سی بھی تکلیف نہ ہوکیوں کہ یہ جلوس اس عظیم شخصیت کے نام نامی
سے منسوب ہے جس نے دکھیاروں کے دکھ کم کرنے،محتاجوں کی حاجت روائی کرنے
اورپریشان حالوں کی پریشانی ختم کرنے کے لیے زندگی بھرمہم چلائی اوراپنے
ماننے والوں اس کی تلقین بھی فرماگئے ۔
بعض ہمارے نوجوان بھائی اس موقع پراپنی طاقت کامظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ
ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جواسلامی احکام کے بھی خلاف ہیں اور ہمارے ملک
کے قوانین کے بھی خلاف ہیں ۔حالانکہ ہمیں جہاں اسلام کے احکام پرعمل کرنے
کا حکم دیاگیاہے وہیں اپنے وطن اوراپنے ملک کے قوانین کاتحفظ بھی ہماری ذمے
داری ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ جلوس کے دن ٹریفک کابہت بڑامسئلہ پیداہوجاتاہے
جس سڑک سے جلوس گزرتاہے وہاں ٹریفک کی لمبی قطارلگ جاتی ہے اورسڑک پرآنے
جانے والوں کوپریشانی کاسامناکرناپڑتاہے ۔جلوس عیدمیلادالنبی کے یہ شایان
شان نہیں کہ ا س کی وجہ سے آنے جانے والے یااورکسی کوکچھ بھی تکلیف ہو۔ایک
بات یہ دیکھی گئی ہے کہ موسیقی والی نعتیں سن کراورڈی جے کے زورپرہمارے
نوجوان بھائی رقص کرتے ہیں ،بدتمیزیاں کرتے ہیں اورخلافِ شرع امورانجام
دیتے ہیں ۔ جلوس عیدمیلادالنبی میں ان خرافات وبدعات کی اجازت ہرگزنہیں دی
جاسکتی۔ اس ضمن میں شہراورمحلوں کی انجمنوں،تنظیموں اوراداروں کے ذمے دارن
جوجھانکیوں اورمقامات مقدسہ کے ماڈلس وغیرہ کااہتمام کرتے ہیں،اس طرح کی
حرکتیں کرنے والے نوجوانوں کو سمجھائیں اورجلوس کے تقدس واحترام کی نصیحت
کریں بصورت دیگرانہیں جلوس سے الگ کرنے میں بھی کوئی باک محسوس نہ کریں کیو
ں کہ ان کے اس طرزعمل سے اسلام کے متعلق غیروں میں غلط فہمیاں پیداہوتی ہیں
اورغلاظت اسلام کے پاکیزہ چہرے پرآتی ہے۔ اس لیے خداراا س اندازسے
قطعاًپرہیزکیاجائے۔
علماے کرام انہیں سمجھاتے ہیں اورائمہ مساجدجمعے کے خطبوں میں ا س کی تنبیہ
کرتے ہیں مگرچوں کہ ہمارے مسلمان بھائیوں کودین کاہرحکم اپنی نفسانیت کے
آئینے میں دیکھنے کی عادت پڑچکی ہے۔ ا س لیے وہ لوگ وہی کام کرتے ہیں جہاں
ان کے رجحانات ومذاق کی تسکین ہوتی ہو۔اس تناظرمیں سوائے اس کے اورکوئی
چارہ ہی نہیں کہ شہرکے ذمے داران اوربااثرلوگوں کی دوکمیٹیاں تشکیل دی
جائیں ۔ایک کمیٹی ایسے افرادپرنگاہ رکھے جوغیرشرعی امورکاارتکاب کرتے
نظرآئیں اوردوسری کمیٹی ٹریفک کے نظام پر نظررکھے اورکوشش کرے کہ آنے جانے
والوں کوکسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔بڑے سعادت منداورقابل مبارک
بادہیں وہ لوگ جوجلوس عیدمیلادالنبی میں اسلامی احکام کا پوراپوراپاس ولحاظ
رکھتے ہیں اوربڑے تقدس واحترام اورشان وشوکت کے ساتھ یہ مبارک جلوس نکالتے
ہیں۔
مسلمان اس سمت توجہ کیوں نہیں کرتے کہ ایک طرف تواسلام اورنبی رحمت صلی اﷲ
علیہ وسلم کے حوالے سے غلط فہمیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ پورامغرب ہمارے
خلاف سینہ تانے کھڑاہے ۔امریکہ میں بنی توہین آمیزاوردردناک فلم INNOCENESE
OF MUSLIMکوبنے ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے ہیں۔کیامسلمان اسے بھول گئے ؟یہ ہم
ہی ہے جواپنی غلط حرکتوں اورخرافات کی بناپراس تعصب ،عداوت اورغلط فہمی کی
آگ میں مزیدپٹرول ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ہماری ذلتیں اپنی انتہاکی آخری
حدکوپہنچ چکی ہیں ہم پرقیامت پرقیامت ٹوٹ رہی ہے کیااب اوربھی کسی خطرناک
قیامت کا انتظار ہے ؟عیدمیلادالنبی بڑامبارک ومسعوددن ہے۔ یہ بڑااچھاموقع
ہے کہ تعلیمات نبوی کوعام کیاجائے اوراسلام کے متعلق غلط فہمیوں کاازالہ
کیاجائے ۔واقعہ یہ ہے کہ غلط فہمیاں کی دھندچھانٹنے ،اسلام کاپیغام عام
کرنے اورنفرتوں کومحبتوں سے بدلنے کے لیے ا س سے بہتراورکوئی دن ہوہی نہیں
سکتا۔اگرہم اپنی ذمے داری پوری کرنے لگیں توہمیں کبھی بھی کسی سے کوئی شکوہ
نہ ہو۔ہم غیروں کے تئیں ا س لیے ہمیشہ شکوہ سنج رہتے ہیں کہ ہم اپنی ذمے
داریاں اورفرائض فراموش کرکے دوسروں سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں اورجب
وہاں سے امیدکادامن سرکتامحسوس ہوتاہے توواویلہ کرنے لگتے ہیں۔اس لیے ان
غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ہمیں ہی آگے آناہوگا۔ایک بات یہ بھی یادرکھنے
کی ہے کہ غیروں کاکام کانٹے بچھاناہے۔ ان کواگریہ کرناہوتوشوق سے کریں ہم
توصرف ان کی راہ میں پھول ہی بچھائیں گے ۔اگرہم بھی ان کے ا س برے عمل پر
ردعمل کرنے لگیں توپھرہمارے اوران کے درمیان فرق کیارہ جائے گا اورہمارے
پیشوامحمدعربی مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیمات کی اہمیت ومعنویت
کیسے واضح ہوگی ۔ آئیے ہم سب مل کرعیدمیلادالنبی کے جلوس کوبامقصدبنائیں
اورنبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیمات کاجھنڈاگھرگھرلہرائیں ۔ |