دنیا میں جتنی بھی تبدیلیاں
رونما ہوتی ہیں ان میں نظریہ قوت و طاقت کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔اس سلسلے
کے چند نظریات پربہت ہی اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جا رہی ہے ۔ساتھ ہی
اسلام کس نہج پر تبدیلی کا خواہاں ہے اس سلسلے میں بھی چند باتیں رکھی گئی
ہیں۔اور یہ کوشش اس لیے ہے کہ ماہ ربیع اول میں جہاں بے شمار جلسے جلوس اور
تقاریر کے ذریعہ نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے مختلف
پہلو نمایاں کیے جاتے ہیں وہاں آج کے ماحول میں یہ بھی لازم آتا ہے کہ
تبدیلی کا خواہاں اسلامی نظریہ عیاں کیا جائے۔تاکہ مسائل جن سے ہم آج دوچار
ہیںوہ صرف مسائل ہی بن کر نہ رہ جائیںبلکہ اس کے کچھ ٹھوس اقدامات بھی
سامنے آئیں۔
تبدیلی کب کہاں اور کیسے آتی ہے یہ مسلئہ صرف تھامس ہابس اور جان لاک ہی کا
نہیںتھا۔ بلکہ ہیگل نے تو پوری انسانی تاریخ کو ”نظریات کی جنگ“ کا سفر
قرار دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ایک نظریہ پیدا ہوتا ہے اور دنیا میں اپنے
اثرات پھیلاتا رہتا ہے جسے اس نے thesis کہا۔ ہیگل کہتا ہے کہ یہ اثرات
مرتب ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس نظریے کی ”ضد“ پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہی،
جسے اس نے anti-thesis کہا۔ ہیگل کے مطابق تھیسس اور اینٹی تھیسس میں تصادم
ہوتا ہے اور اس تصادم سے ایک تیسری چیز synthesis نمودار ہوتا ہے۔ یہ
synthesis صالح یا بہترین اجزاءپر مشتمل ہوتا ہے۔ ہیگل کے اس نظریے کا کارل
مارکس پر گہرا اثر پڑا، البتہ مارکس نے یہ کیا کہ ہیگل نے جس معرکہ آرائی
کو ”نظریات“ میں دکھایا تھا، مارکس نے اس آویزش کو طبقات میں دکھایا۔ مارکس
نے اس تبدیلی کو معنی خیز انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہیگل سر کے بل
کھڑا تھا میں نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔
اسی طرح چین میں ماؤزے تنگ کے نظریات میں بھی طاقت کو مرکزیت حاصل ہوئی۔
ماؤ کا یہ قول مشہور زمانہ ہے کہ طاقت بندوق کی نال سے برآمد ہوتی ہے۔
اگرچہ کمیونسٹ انقلابات نے خود کو ”نظریاتی“ کہا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی
نظریاتی طاقت ثانوی چیز تھی۔ ان کا اوّل و آخر طاقت تھی۔ چوں کہ ان کا آغاز
طاقت تھی اس لیے ان کا انجام بھی طاقت ہی کے حوالے سے سامنے آیا۔ روس میں
کمیونزم کے پاس طاقت کی قلت ہوئی تو کمیونزم معاشرے پر اپنی گرفت قائم نہ
رکھ سکا اور معمولی قوت سے سامنے آنے والے جوابی انقلاب یا Counter
Revolution کی نذر ہوگیا۔ بیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے طاقت کا ایک نیا
مظہر ”مارشل لا“ کی صورت میں سامنے آیا۔ نوآبادیاتی طاقتوں سے آزادی حاصل
کرنے والے تیسری دنیا کے اکثر ملکوں میں فوج سب سے منظم، باخبر، تعلیم
یافتہ اور طاقتور ادارہ تھا۔ اس ادارے نے اپنی اس حیثیت کو ملک و قوم کے حق
میں استعمال کرنے کے بجائے ان کے خلاف استعمال کیا۔ ایشیا اور افریقہ کے
متعدد ممالک میں مارشل لا نمودار ہوئے اور ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا
فلسفہ جگہ جگہ حقیقت بنتا نظر آیا۔
تھامس ہابس اور جان لاک کے نظریات کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ یہ
نظریات محض قیاس آرائی ہیں، لیکن مارشل لا کو دیکھ کر اور برت کر بہت سے
لوگ یہ گمان کرنے لگے کہ ممکن ہے تھامس ہابس اور جان لاک کے قیاسات صحیح
ہوں۔ اہم بات یہ ہے کہ مارشل لا نے ہر جگہ معاشرے کی تشکیلِ نو کی۔ پاکستان
میں مارشل لا لگانے والے جنرل ایوب اور جنرل پرویزمشرف سیکولرتھے، چنانچہ
ان کے دور میں معاشرے میں سیکولرازم کو قوت حاصل ہوئی۔ جنرل ضیاءالحق کا
ذہن مذہبی تھا، ان کے دور میں معاشرے میں مذہبی رجحانات کو فروغ حاصل ہوا۔
جمہوریت اگرچہ کمیونزم اور مارشل لا کی ضد ہے، لیکن طاقت کا تصور تینوں
نظاموں میں مشترک ہے۔ فرق یہ ہے کہ کمیونزم میں طاقت کا سرچشمہ کمیونسٹ
پارٹی، مارشل لا میں طاقت کا سرچشمہ فوج ہوتی ہی، اور جمہوریت میں طاقت کا
سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ افراد اور معاشروں کو نسلی، قومی، لسانی اور مذہبی
تعصبات بھی متاثر اور تبدیل کرتے رہے ہیں۔ یہودیت ایک آسمانی مذہب تھا مگر
اس کے ماننے والوں نے اسے ایک نسلی مذہب بنادیا۔ ہندوازم کے بارے میں بھی
غالب گمان یہی ہے کہ وہ بھی کبھی ایک الہامی مذہب رہا ہوگا مگر ہندوازم چار
ذاتوں کا مذہب بن گیا۔ ہندوستان کی تاریخ، سماجیات، یہاں تک کہ معاشیات پر
بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ گزشتہ چار صدیوں میں یورپ کی قوم پرستی نے
ایرک فرام کے مطابق 2600 جنگیں ایجاد کیں۔ ان میں 20 ویں صدی میں لڑی جانے
والی دو عالمی جنگیں بھی شامل ہیں جن میں مجموعی طور پر تقریباً 7کروڑ
افراد ہلاک ہوئے، اور جنہوں نے مغرب کے فلسفہ، ادب اور سماج پر گہرے اثرات
مرتب کیے۔ اس قوم پرستی نے تیسری دنیا کے ملکوں میں بھی قوم پرستی کی
تحریکیں پیدا کیں۔ ان تحریکوں نے معاشروں کی سماجی، نفسیاتی اور جذباتی
ساخت کو متاثر کیا۔ جرمن ادیب ٹامس مان نے کہا تھا کہ 20 ویں صدی میں
انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ ٹامس مان کی یہ پیشگوئی بڑی
حد تک درست ثابت ہوئی ہے۔ لیکن 21 ویں صدی کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں
انسانی تقدیر معاشی اصطلاحوں میں لکھی جارہی ہے اور معاشیات ایک"عالمگیر
مذہب" بن کر ابھر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج "عالمگیر مذہب"کی لپیٹ میں پوری
دنیاآچکی ہے ۔
ایسے موقع پر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ نیکی کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلی،
تقوے کے ابلاغ سے ہونے والی قلب ِماہیت کئی کئی نسلوں تک باقی رہتی ہے۔ اس
کا مفہوم یہ ہے کہ نیکی ایسا نعرہ، ایسا نظریہ اور ایسا فلسفہ ہے جوکئی
نسلوں کو اپنا اسیر کرسکتا ہے۔ مسلئہ کا حل جب پیش کیا جاتا ہے یا جن لوگوں
کے پاس حل موجود ہے اور وہ اس کو لے کر آگے بڑھنے کا عزم کرتے ہیں تو ایسے
لوگوں کو مختلف پابندیوں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ پھر ان کے تعلق کو امن کی
بجائے دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اسی درمیان مذہب اسلام جو امن کا
داعی ہے اس کو فرقہ وارانہ منافرت میں پیش کرنے کی سعی وجہد شروع ہو جاتی
ہے۔یہی نہیں جہاد کا ذکرکرکے اسلام دشمن طاقتیں کہتی ہیںکہ اسلام تلوار اور
طاقت کے زور پر پھیلاہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے حق و باطل کا پہلا معرکہ غزوہ بدر کی صورت میں اس وقت لڑاجب باطل
کی قوت حق سے بہت زیادہ تھی۔ چنانچہ مسلمان کافروں کے مقابلے کبھی بھی اپنے
زورِ بازو پر بھروسا نہیں کرتے۔ ان کا بھروسا تھا تو اللہ پر اور ہے تو بھی
اُس ہی کی امداد اور نصرت پر.... اور یہ صرف غزوہ بدر کا معاملہ نہیں،
مسلمان حق و باطل کے کسی بھی معرکے میں شریک ہوں انہیں ہمیشہ اصل امید اللہ
کی ذات ہی سے ہوتی ہے۔ پھر جس کا انحصار ہر صورت میں اللہ پر ہو وہ نہ طاقت
پرست ہوسکتا ہے اورنہ طاقت کے ذریعے اپنے نظریے کو پھیلا سکتا ہے۔اس پس
منظر میں اسلامی معاشرہ اپنی روح میں ایک جہادی اور مزاحمتی معاشرہ ہوتا ہے
اور اس کی مزاحمت اپنے نفس سے لے کر بین الاقوامی زندگی تک پھیلی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام کے علمبردار ایک مضبوط،واضح اور مکمل نظام حیات کے
فروغ و استحکام کے لیے ہر دم کوشاں رہتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اسلام
مکمل نظام حیات ہے جس میں معیشیت سے لے کر معاشرت اور تہذیب و تمدن کے تمام
معرکے حل کیے جا سکتے ہیں۔لہذا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی
معاشرے کے تحفظ و فروغ، اس کی بقاو استحکام اور اس کے قیام کے لیے سعی و
جہد کرے ۔اور ایک متبادل نظام حکومت فراہم کرے جس میں عوام الناس کے لیے
امن و امان ہو اور ان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہو سکیں۔ مختلف مذاہب کے لوگ
اپنے مذہب پر بہ آسانی عمل پیرا رہ سکیں اور ان کا خاندان تعمیر و ترقی کی
منزلیں طے کرے۔آج کے موجودہ نظام حکومت میں جہاں افلاس و غربت کی
آندھیاںتھپیڑے مار رہی ہیں، جہاں لوگوں کو اپنی بنیادیں ضرورتیں پوری کرنا
مشکل تر ہوا جا رہا ہے، جہاں صحت و تعلیم میںدشواریاں لاحق ہیں۔ وہاں یہ
مسلئہ نہ ربیع اول کے جلسے جلسوں میں فصاحت و بلاغت کے کارنامے دکھا کر حل
ہوگا، نہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر حالاتِ حاضرہ پر گفت و شنید سے حل ہوگا
،نہ نبی کی شان میں نعت خوانی کی محفلوں سے حل ہوگااور نہ ہی متبادل نظام
خود بہ خود وجود میں آکر مسائل حل کر دے گا۔ اگر یہ ممکن ہے تو اس کا آغاز
تبدیلی ِ قیادت کے اس نعرے سے ہونا چاہیے جو نہ صرف عملی ہو بلکہ اس کے
حصول کے لیے بھی راہیں ہموار کی جاچکی ہوں۔اوریہ جب تک ممکن نہیں جب تک کہ
رائے عامہ کو اس کے لیے ہموار نہ کر لیا جائے ۔لہذا اس اہم کام کا آغاز
کرتے ہوئے ہمیں میدانِ عمل میں آنا چاہیے۔ یہی وقت کی آواز ہے اور یہی
انسانیت کی فلاح و بہبو د کا ذریعہ بھی۔پھر یہی وہ سعی وجہد ہوگی جو کسی
کونے میںبیٹھ کر عبادت کرنے کے بالمقابل عظیم کہلائے گی۔
تبدیلیِ قیادت:
تبدیلی ِقیادت سے ہماری مراد وہ قیادت ہے جو خوف خدا سے سے عاری نہ ہو۔ایسے
قیادت جو خوف خدا سے عاری ہو وہ نہ تو خود اپنی ذات کو کوئی فائدہ پہنچا
سکتی ہے اور نہ انسانیت کو۔ لہذا اس پہلو پر بھی توجہ دی جائے کہ قیادت ان
لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل کی جائے جو انسانی قوانین کے پاس و لحاظ رکھنے
کے علاوہ اُس ہستی کو بھی مانتے ہوں جو خود انسانوں کا موجد اعلیٰ ہے۔لہذا
اس مرحلے میں قیادت کی تبدیلی ناگزیر عمل بن جائے گا۔اور یہ تبدیلی ِ قیادت
کا عمل اسی طرح لایا جائے گا جو موجودہ دور میں انسانو ں کے لیے قابل ِ
قبول ہو یعنی شورائیت جس کے لیے موجودہ نظام انتخابی عمل کا نام تجویز کرتا
ہے۔ہمیں یہ بات بھی واضح کر دینی چاہیے کہ ہماری جدو جہد ہمارے "اپنوں" کے
خلاف نہیں ہے بلکہ دنیا کی ان طاقتوں کے خلاف ہے جو اپنے قومی و ذاتی
مفادات کی وجہ سے عالم ِ انسانیت کو تباہ و برباد کرنے پر آمادہ ہیں اور اس
کے لیے مختلف خوبصورت ناموں کی ٹرمس استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی پیش
نظر رہنی چاہیے کہ جو چیز آپ دنیا کو دینا چاہتے ہیں اس کے لیے سب سے پہلے
آپ خود اٹھ کھڑے ہوں۔اُٹھ کھڑے ہونے سے ہماری مراد علمی و عملی پہلوﺅں کا
جائزہ، تجزیہ اور صورتحال سے آگاہی ہے جس کو حاصل کرنا کسی بھی جانب قدم
اٹھانے سے قبل ہونی چاہیے ۔ہم جانتے ہیںکہ سوچے سمجھے قدم صحیح راہ کو جلد
پالیتے ہیں۔اس کے لیے ہمارے پاس باصلاحیت،جرات مند، بلند حوصلہ اشخاص کی
کثیر تعداد ہونی چاہیے ۔جو غورو فکر کرنے اور تدبر و دانائی کو اپنا شعار
بنانے والے ہوں۔ جو علم و عمل میں یکسانیت رکھتے ہوں یا پھر اس کے لیے سعی
و جہد کرنے والے ہوں۔ہمیں ان ناکارہ، بے مقصد، اور نفس پرست انسانوں کی
بھیڑ کی ضرورت نہیں ہے کہ جو اعلیٰ تعلیمی اداروں کی اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں
تو رکھتے ہیں لیکن اخلاق و کردار کے پیمانے پر جب ان کو تولا جاتا ہے تو ان
کا وزن اس جھاگ سے ذرہ برابر بھی زیادہ نہیں ہوتا جسے سمندر جہاں چاہتا ہے
پھینک دیتا ہے۔
ہمیں یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ خرابی کی اصل جڑ موجودہ نظام اور
اس کی پروردہ مفاد پرست، ملت فروش اور دنیا پرست قیادت ہے کہ جس پر نوٹس نہ
لیا گیا تو اصلاح و فلاح کے پہلو مدھم پڑتے جائیں گے۔ ان طاقتوں کے خلاف
اقدام سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ موجودہ فلسفہ زندگی پر تفکر کیا جائے، اس
میں اصلاح کے پہلوﺅں کو ابھارا جائے، اور سب سے بہترتو یہ ہوگا کہ اسلامی
فلسفہ زندگی کو نافذ العمل بنانے میں سعی و جہد کی جائے۔ آج ہر طرف ظلم و
بربیت کا دور دورہ ہے اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں صرف اپنے طرز معاشرت کو
بہتر بنانے کی فکر نے ،مسائل کو سمجھنے، ان پر غور و فکر کرنے اور ان کے
خاتمہ کی سعی و جہدکرنے سے دور کر رکھا ہے۔لیکن اسلام کی رو سے یہ بھی ظلم
ہی کی کٹہرے میں آتا ہے جو ہم آج خود پر کر رہے ہیں۔بنی کریم کا ارشاد ہے
برائی کو ہاتھ سے روکا جائے، اس کو زبان سے برا کہا جائے اور اگر اتنی بھی
طاقت نہ ہو تو کم از کم دل میں برا سمجھاجائے۔ لیکن ایک لمحہ کے لیے ٹھہریں
اور اپنے دل پر ہاتھ کر دیکھیں اور خو د سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کریںکہ
کیا کبھی ہم نے اس جانب توجہ کی ہے؟اللہ تعالی فرماتا ہے :اور اگر خدا
لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب پکڑنے لگے تو ایک جاندار کو زمین پر نہ چھوڑے
لیکن ان کو ایک وقت مقرر تک مہلت دیئے جاتا ہے ۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک
گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں (النحل:61)۔فرصت کے لمحات
کو گنوانا نادانی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ لہذاجو لمحات بھی مہلت کے
باتی ہیں ان کا استعمال کرتے ہوئے ہمیں اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔یہی تقاضہ وقت
بھی ہے اور یہی ہمارا اولین فرض منصبی بھی۔لیکن ظلم و بربیت سے نجات دلانے
والوں کا طرز عمل بھی امن پسند ہونا چاہیے تب ہی یہ ہمارے لیے اور دوسروں
کے لیے نفع بخش سودہ ثابت ہو گا!
قرآنِ حکیم میں مختلف مقامات پر فرمایا گیا ہے کہ کیا تم غور و فکر نہیں
کرتے‘ کیا تم تدبر نہیں کرتے‘ کیا تم جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ انداز
قرآن حکیم کا مخصوص انداز ہے جس میں لوگوں کو متوجہ کیا کہ وہ غور و فکر
کریں۔ کہا کہ کسی بھی چیزکے اقرار یا انکار سے سے سوچنا سمجھنا اور جاننا
اور غور و فکر کرنا ہی در اصل تدبرہے۔ یہی تدبرقرآن میں ایک ایسے نظریے ،
تفکر و فلسفہ کی تخلیق کرتا ہے،جو ملت اسلامیہ کی ذہنی‘ علمی‘ فکری‘
نفسیاتی‘ قومی‘ سماجی‘ معاشرتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ دینی اور بین الاقوامی حیثیت
کو مکمل طور پر جداگانہ حیثیت میں ممیز کرتا ہے۔ یہی قرآنی نظریہ اور فلسفہ
حیات ہے ، یہی ملت اسلامیہ کی قرآنی تعلیم و تربیت ہے اور یہی کیفیت دینی
اور ملی اساس کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ قرآن حکیم نے مزید فرمایا: ہم نے
تمہیں واضح طور پر ان امور و معاملات سے آگاہ کر دیا ہے، اگر تم عقل و فکر
سے کام لو گے ۔یعنی زندگی کے صحیح راستے پر گامزن رہو گے۔اسلام اور قرآن کے
نزول کے ساتھ ہی بنی نوع انسان دو مختلف نظریات اور دو حتمی مختلف طبقات
میں تقسیم ہو گئے تھے ایک نظریہ ایمان لانے والوں کا دوسرا ایمان نہ لانے
والوں کا۔ چنانچہ اولاد آدم دو کیمپوں میں تقسیم ہو گئی شرارِ بولہبی ایک
جانب اور چراغ مصطفوی دوسری جانب‘ اس نظریے نے خون اور حسب و نسب کی نفی
بھی کر دی۔ برادری‘ قبیلے اور ذات پات کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ اس کی
بہترین مثال جنگ بدر اور جنگ احد ہے جس میں نبی آخرالزماں حضور اکرم اور
دوسرے صحابہ کرام کے قریبی رشتہ دار دشمن کی صف میں تھے اور ایمان لانے
والے غیر رشتہ دار حضور اکرم کی صف میں موجودتھے۔ چنانچہ قرآن نے کافروں
اور منافقین کے ضمن میں ملت اسلامیہ کو بڑی سختی سے متنبہ کیا ہے۔ ان کی
بغض‘ عداوت اور دشمنی کی بعض باتیں تو ان کے منہ پر آ جاتی ہیں لیکن جو کچھ
ان کے دلوں میں چھپا رہتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ صورتحال
کے پس منظر میں ضرورت ہے کہ ہر شخص بہت چوکنّا رہےساتھ ہی ہر لمحہ اپنے
اعمال کا جائزہ بھی لے، اپنے نفس کو ٹٹولے اور چیک کرے اور دیکھے کہ اسکا
ہر چھوٹا یا بڑاعمل اس کوکہاں لے جا رہا ہے؟یہی وہ پیغام ہے جو موجودہ
حالات کے پس منظر میںماہ ربیع اول اور نبی اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی
حیات مبارکہ سے ہمیں اور آپ کو حاصل کرمیدان عمل میں اتر آناہے! |