آنحضرت ﷺسراپا رحمت ومودت

ایک وہ بھی دور تھا جب دنیا میں ظلم جور کا دوردورہ تھا ،انسانیت ظلم وزیا دتی کے دہا نے پر سسک رہی تھی ،انسان صرف پیاسا تھا انسانی لہو کا ،ہمدردی و غمگساری ،اخوت و جا نثاری،مواخات و بھائی چارگی ،موانست و دلجوئی کا کیا اتا پتا ،مانو سب انسانےت کے نام سے بھی نا آشنا تھے ۔عورتیں کیا تھیں ، مانو دل لگی ،جسمانی تلذذ اور جنسی جذبات کی تسکین کیلئے ایک شئے تھی۔ناچ گانے ، رقص و سرور ،ساز وموسیقی ،شراب وکباب ،قمار و جوا کے مانو سب رسیاںتھے۔غیر معقول وغیر منصفانہ سلو ک کا بازار گرم تھا ۔عہد وپیمان کا ایک جانبدارانہ ماحول تھا ۔ایسے پر فتن اور نا گفتہ بہ دور اور ظلم کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں ایک آفتاب طلوع ہوا ۔ایسا آفتاب جو نہ صرف اپنی گہر بار روشنی سے عرب ممالک کو بلکہ پوری دنیا کو روشن ومنور کردیا۔وہ کون تھے؟کس ذات نے یہ معرکہ سر کیا ؟وہ تھے امام الانبیاء، محبوب الکبریا ئ،شفیع المذنبین ،سید الکونین آقاءمکی ومدنی ،شہنشاہِ بطحائ،تاجدارِ مدینہ فداہ ا بی وامی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔وہ آئے گویا بہار آئی۔غیر منصفانہ اور غیر معقول رسم و رواج کا خاتمہ ہوا،قرابتداروں سے حسن ِ سلوک ،حقوق کی حفاظت و تائید کا ایک درس ملا۔اس عہد وپیمان کا خاتمہ ہوا جو سماجی و معاشرتی نقطہ نظر سے غیر معقول تھا اورجو انسانی فلاح و بہبود اور بھلائی کا ضامن تھا یہ نہ کہ صرف اسے جائز رکھا بلکہ مزید و مستحکم کیا اور اسے تقویت پہونچائی ۔عورتوں کی عزت ناموس کے تحفظ اور اس کی شان و وقعت کو بحال کرنے کیلئے بہ بانگ دہل اعلان کیا ” ان الرجل یقتل باالمراة“ عو رت کا مقام بھی اسلامی نقطہ نظر سے اسی طرح بلند ہے جس طرح مردوں کا ۔ان کی جان کی بھی وہی قیمت ہے جو ایک مرد کی جان کی کہ مقتول عورت کا قاتل مرد ہی کیوں نہ ہو ،اسے بھی بطور ِقصاص قتل کیا جائے گا ۔الغرض مظلوموں کی داد رسی ،بے بسوں کی فریا د رسی ،عفو و درگزر ،رحمت و مودت ،شفقت و دلداری اور انسانیت نوازی کی آئینہ تھی ان کی زندگی۔کیوںنہ ہویہ؟وہ صرف کسی محدود طبقہ،کسی ایک جماعت،کسی مخصوص گروہ کیلئے نبی بن کر نہیںآئے تھے بلکہ تمام جہانوں کے نبی تھے۔قرآن یو ں گویا ہے ”وماارسلناک الارحمةللعالمین “ اے محمد ہم نے آپ کو تمام جہاںوالو ں کیلئے رحمت بناکر بھیجا۔

عرب کا معاشرہ کچھ ایسا تھا کہ بچیوں کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ قرآن نے ان کے اس غلط طریقے کی نشاندہی بڑے اچھے انداز میں کی ہے ۔ ایسے معاشرہ میں حضور ﷺ نے بچیوں یعنی عورتوں کو وہ مقام دیا کہ جس مثال دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملتی ہے ۔ صرف ایک مثال سے عورتوں یعنی بچیوں کی حفاظت کا نمونہ دیکھیں کہ چند برسوں میں کیسی کایا پلٹ ہوئی اور بچیوں کی محبت لوگوں کے دلوں سے کیسے جاگزیں ہوتی چلی گئی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ کی صاحبزادی یعنی بچی تھی ، ان کی وفات کے بعد اس بچی کی کفالت کا مسئلہ سامنے تھا ، اس کی کفالت کرے تو آخر کون؟ اپنی اپنی قرابت کی دہائی دیتے ہوئے چند ایک صحابہ سامنے آگئے ،حضرت جعفر ؓ کہتے ہیں کہ میں اس کی پرورش کا زیادہ حقدار ہو ، حضرت حارثہ ؓ کہتے ہیں اس کی پرداخت میرے ذمہ ہو، ادھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کہتے ہیں کہ میرے ذمہ اس کی پرورش کی ذمہ داری ہونی چاہئے ۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے قریبی رشتہ داری ہونے کی وجہ سے اس بچی امامہ کو حضرت اسماءؓ کی گود میں دے دیا ۔ کہنے کا دراصل مقصدیہ ہے کہ چند برسوں قبل اس معاشرہ میں بچیوں کے تئیں کیا خیالات تھے اور چند برسوں بعد کیا ہوگئے ؟ یہی تو ہے آپ ﷺ کی برکت ورحمت کی نشانی ۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو مختصراً سپرد قلم وقرطاس کرنا بھی بڑا محال ہے۔ان کے شعبہ ہائے حیات کا احاطہ چند صفحات پردشوار گزارہی نہیں بلکہ امر محال ہے۔بوجہ ایں ان کی تمام خصوصیا ت سے قطع نظر ان کے اخلاق سے مرتب ہونے والے اثرات اوران کی اخلاقی تعلیمات پر ہی فی الوقت خامہ فرسائی کرنا مناسب معلوم پڑتا ہے۔کیونکہ رسول اکرم کی زندگی اخلاق کا جامع ترین نمونہ ہے ۔وہ قرآنی اخلاق کے پیکر و پرتوتھے اور انہوں نے اپنی بعثت کے ساتھ ہی اس فرض کو انجا م دینے میں سرگرم نظر آئے۔اسلام کے ابتدائی ایام ہیں ،آپ مکہ میںتشریف فرما ہیں ،حضرت ابوذر ؓ نے اپنے بھا ئی کو اس نئے نبی کے حالات اور تعلیمات کی تحقیق کیلئے مکہ بھیجا ،انھوںنے واپس آکر ان کی نسبت اپنے بھائی کو جن الفاظ میں اطلاع دی ۔وہ یہ تھے:”رایتہ یا مر بمکارم الاخلاق“ ان کے اخلاق کریمانہ کے سامنے شقاوت قلب انسان بھی بہ مانند موم ہو ہو جا تا تھا ۔

مذہب اسلام کے شہرہ آفاق اور عالمگیر ہونے اور تو اور بذات خود رسول اکرمﷺکے ہر دلعزیز ہونے میں ان کے اخلاق حسنہ کا اہم کردا ر ہے ۔یہی وجہ ہے تو کہ بیشما ر ایسے مستشرق جنہوں نے انصاف پسندی کا دامن تھا ما اور رسول ﷺ کے اخلاق لطیفانہ سے مرتب ہونے والے اثرات کا ادراک کیا تو نغمہ سنج ہو کر یو ں رقمطراز ہوئے۔

مشہورمستشرق سرٹوماس آر نلڈ T.W.ARNOLDاپنی کتاب ”دعوت اسلام “THE PREACH OF ISLAMمیں یوں رقمطراز ہیں:
”اسلام کے عہد اقتدار اور حکمرانی میں غیر مسلموں کے ساتھ عدل ومساوات ،عفوو در گزر ،تسامح اور کشادہ قلبی و فراخ دلی کا جو معاملہ کیا گیا ،یورپ کی پوری تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ “
مشہورجرمن مستشرقہ مسز ہونکہ جو”مغرب پر اسلام کا سورج طلوع ہورہا ہے اور ارحم الفاتحین “کی مصنفہ ہے ۔کہتی ہے:
”مسلم فاتحین نے کبھی بھی اسلام قبول کرنے پر کسی کو مجبور نہیں کیا ،اس کے برعکس عیسا ئیوں نے نصرانیت قبول کرنے پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا خصوصاً اندلس میں مسلما نوں پر ظلم و بر بریت کے پہاڑ توڑے گئے “۔
ایک دوسرے پوپ میخائل سریا نی کہتے ہیں :
”بیزنطینی شہنشاہوں نے ہمارے مقدس کلیساؤں اور گرجا گھروں کو انتہائی بے دردی ،سفاکی و ظلم اور بربریت و دہشت گردی سے لوٹ لیا ،لیکن مسلمانوں کا عہد اقتدار آیا تومسلم حکمرانوں نے ہم رومیوں کو ظلم سے نجات دلائی اور ہم کومکمل آزادی دی کہ ہم عیسائی جس طرح چاہیں اپنے مذہب پر عمل کریں۔مسلمانوں کے عہد حکومت میںہم کو امن وسکون نصیب ہو ا “( تاریخ مصر فی العصر البیزنطی ،ص؛62طبع قاہرہ)

ان حکمرانوں نے رسول ﷺکے اخلاقی اقوال وفرامین کو سر آنکھوں پر رکھا ۔ جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ وہ رسول ﷺکے اخلاقی پیکر وپرتوبن گئے ۔اس لئے اسلام کے سر یہ مقدس سہرہ رسولﷺ کے جامع ترین اخلاق کی وجہ سے ہی بندھا۔

حضور ﷺ مکا رم اخلاق ،نوازش ،کرم گستری اور تواضع میںساری انسانیت کے امام و مقتدا ءتھے۔حضو ر صلی اللہ علیہ و سلم نے خود ارشاد فرما یا ” ادبنی ربی فاحسن تادیبی “ میری تربیت میرے رب نے فرمائی اور بہترین فرمائی ہے ۔حضرت جابرؓفرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ” ان اللہ بعثنی مکا رم الاخلاق وکمال محاسن الافعال “اللہ نے مجھے مکا رم اخلاق اورمحاسن اعمال کی تکمیل کیلئے مبعوث فرمایا ہے۔حضرت عائشہ ؓسے آپ کے اخلاق کے حوالہ سے دریا فت کیا گیا تو آپ ؓنے فرمایا ” کان خلقہ القران “یعنی آپ اخلاق میں قرآن کے مجسم نمونہ تھے۔یہی وہ سید الکونین ہیں جن کے بلند اخلاق کے تئیں ضابطہ حیا ت قرآن یوں نغمہ سنج ہے” وانک لعلٰی خلق ٍعظیمٍ“الغرض آپ ﷺ کی زندگی میں اس آب وگل میں سکونت پذیر ہر متنفس کیلئے ایک درس ہے۔
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100875 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More