اب حق کی پہچان کے چند اصول لکھے
جاتے ہیں تاکہ پتہ چل جائے کہ حق کو کیسے پہچاناجاتا ہے؟پہلا اصول یہ ہے کہ
’’ حق و ہ ہے جو سینے میں ٹھنڈک پیدا کردے‘‘مقصد یہ کہ حق پر عمل کرنے سے
سکون و اطمینان نصیب ہوتا ہے اور سینے میں ٹھنڈک و تازگی کا احساس پیدا
ہوتا ہے۔ فرمان الہٰی ہے ’’ جان لو!اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب
ہوتا ہے ‘‘(القرآن)اور ذکر کی کئی صورتیں ہیں مثلاً نماز روزہ تلاوت قرآن
نوافل تسبیح، تحمید ، تہلیل اور تکبیر وغیرہم ۔اب اسکی آزمائش ہے کہ کیا
واقعی ذکر سے دل کو اطمینان و سکون نصیب ہوتا ہے؟ آپ کسی مسلمان سے پوچھ کر
دیکھیں کہ بھئی آپکو نماز، قرآن اور ذکر اذکار سے سکون ملتا ہے یانہیں ؟ تو
اسکا جواب اثبات میں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ تلواروں کے سائے اور برستی
گولیوں میں بھی نماز کی طرف دوڑتے ہیں اور وہ مریض جو بستر مرگ پر پڑا
ہواہے وہ کہتا ہے کہ مجھے نماز ادا کرنی ہے اور اگر بول نہیں سکتا تو لکھ
کریا اشارے سے کہتا ہے کہ مجھے نماز پڑھاؤ! سوال یہ ہے کہ اسے کس نے مجبور
کیا اور وہ کونسی قوت ہے جو اسے نماز کی طرف بلاتی ہے؟ اسلئے کہ وہ اچھی
طرح جانتا ہے کہ اسکی ہستی کی بقاء شفاء اور سکون و اطمینان نماز اور ذکر
ہی میں ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ الاسلام دین الفطرہ ۔ اسلام دین فطرت ہے یعنی فطرت
سلیمہ جس بات کا تقاضا کرتی ہے اسلام وہی چاہتا ہے۔ اسلام میں حقوق و فرائض
کا بیان ہے۔ اور حقوق دو قسم کے ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ اب جو شخص
خالق و مخلوق دونوں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے اور اپنے فرائض بطریق احسن
نباہتا ہے تو اسے سکون واطمینان کی لازوال دولت نصیب ہوتی ہے۔ اورٹھنڈک کا
احساس ہوتا ہے مثلاً اگر کوئی جج اور قاضی حق و انصاف سے فیصلے کرتا ہے تو
خود اسے اور فریقین دونوں کو سکون و اطمینان اور ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے
اور اس کے برعکس اگر وہ لالچ میں آکر یا کسی اور وجہ سے غلط فیصلے کرے تو
دونوں کو سکون کی بجائے ایک طرح کی بے چینی اور جلن محسوس ہوتی ہے ۔ اسی
طرح اگر کوئی شخص والدین کی خدمت کرتا ہے تو اسے سینے میں ٹھنڈک محسوس ہوتی
ہے ۔ او ر والدین کی دعائیں لیتا ہے اور اسکے برعکس اگر وہ والدین سے
گستاخی سے پیش آئے تو پھر انکے دلوں سے بدعا نکلتی ہے اور غم و غصہ کی تپش
پیدا ہوتی ہے اسی طرح دیگر حقوق کی مثال ہے۔ اور جو لوگ کفر و شرک میں
مبتلا ہیں اور اللہ تعالی کی یاد سے غافل ہیں انہیں کبھی سکون نصیب نہیں
ہوتا اور وہ بے چین ہی رہتے ہیں اور غم و تفکرات کی تپش میں جلتے ہی رہتے
ہیں ۔
حق کی پہچان کا دوسرا اصول یہ ہے کہ ’’ حق بے نیاز ہے جو بے نیاز نہ ہو وہ
حق نہیں ہوسکتا‘‘ فرمان الہٰی ہے (ترجمہ) ’’آپؐ کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے
اللہ بے نیاز ہے نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ کسی سے جنا گیا اور نہ کوئی
اسکی برابری کرنے والا ہے ‘‘ (الاخلاص پ ۳۰) اس سورت سے اللہ تبارک و تعالی
کی شان بے نیازی ظا ہر ہوتی ہے اس حیثیت سے کہ اسے مخلوقات کی حاجت نہیں
اگر تمام دنیا کے لوگ انتہائی نیک، پاکباز اور اعلی کردار کے مالک بن جائیں
تو اللہ تبارک و تعالی کی شہنشاہیتت اور عزت و جلال میں ذرہ بھر بھی زیادتی
نہیں ہوسکتی اس کے برعکس اگر تمام دنیا کے لوگ اعلی درجہ کے فاسق و فاجر
اور نافرمان بن جائیں تو اسکی شہنشاہیت اور عزت و جلال میں ذرہ بھر بھی کمی
نہیں ہو سکتی، عبادت و عجز و نیاز انسان کے اپنے فائدے اور بقاء کیلئے ہے
ذات باری تعالیٰ کو اس سے کوئ غرض نہیں اسکی عبادت کیلئے تو فرشتے ہی کافی
ہیں اوراللہ تبارک و تعالی نے انسانوں کو بھی ایک درجہ میں اس صفت سے متصف
کیا ہے یعنی ایک مومن قانت جو حق پر چلنے والا ہے وہ بے نیاز ہی رہتا ہے ۔
جو شخص نماز پنجگانہ ادا کرتا ہے، رزق حلال کماتا ہے اپنے حقوق و فرائض کی
ادائیگی میں کمی کوتاہی نہیں کرتا اور اپنے کام سے کام رکھتا ہے اس میں یہ
صفت ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ خوشامد ، چاپلوسی اور کسی سے کوئی غرض یا مطلب
رکھنے والا شخص بے نیاز نہیں رہ سکتا اسے لازماً دوسروں کے آگے جھکنا اور
انکی خوشامد کرنا پڑتی ہے اور اسکی مزید تشریح اس طرح ہے کہ بزرگان دین اور
مشائخ طریقت نے راہ سلوک کے مسافر کو چار کام کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی
تقلیل طعام (کم کھانا )تقلیل منام (کم سونا)تقلیل کلام (کم بولنا)اور تقلیل
اختلاط مع الانام یعنی لوگوں سے کم ملنا جلنا۔یہاں چوتھے کام کے بارہ میں
بحث کی جائے گی۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ نے اپنی کتاب شریعت و
طریقت میں اس بارہ میں لکھا ہے انہوں نے پہلے ایک حدیث درج کی ہے:۔
’’ کسی نے سوال کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سب سے افضل شخص کون
ہے آپ ﷺنے فرمایا جو مومن اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے
والا ہو سوال کیا گیا پھر کون افضل ہے فرمایا وہ شخص جو (پہاڑ ) کی گھاٹیوں
میں سے کسی گھاٹی میں رہتا ہو، اللہ سے ڈرتا ہو اور خلق کو اپنے شر سے فارغ
رکھتا ہو(بخاری ، مسلم ، ترمذی و نسائی نے روایت کیا)تشریح میں لکھتے ہیں
کہ ’’ اکثر اہل اللہ کی عادت رہی ہے کہ خلق سے اختلاط کم رکھا اور گوشہ
نشین رہے اس حدیث سے اسکی اجازت اور ایک درجہ فضیلت ثابت ہو تی ہے اور اس
حدیث میں اس کے محل کی طرف اشارہ بھی ہے ۔کہ جب اختلاط میں شرالی الخلق کا
ہو اور اسی پر قیاس کیا جاوے گا وصول شرمن الخلق کو اور نیز حدیث مذکور ہی
میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جس شخص سے خیرو نفع عام ہو اور زیادہ متوقع ہو اس
کیلئے اختلاط (یعنی لوگوں سے ملنا جلنا ) افضل ہے اور تحقیق مسئلہ کا خلاصہ
یہی ہے کہ جس شخص سے مسلمانوں کو نفع پہنچتا ہو اس کیلئے جلوت بہتر ہے اور
جس سے نفع متعلق نہ ہو اور جلوت میں احتمال اضرار و ضرر پہچانے یا تضرر (ضرر
پہنچنے )کا ہو اس کیلئے خلوت بہتر ہے‘‘۔ (شریعت و طریقت ص ۲۵۴)
ابھی آپ نے تقلیل الاختلاط مع الانام‘‘ کے بارہ میں حضرت تھانویؒ کے
ارشادات ملاحظہ کئے کہ اللہ والوں کیلئے حسب حال خلوت و جلوت دونوں کی
اجازت ہے مگر غالب رجحان جس طرف ہے اس کا اظہار انہوں نے کر دیا ہے کہ ’’
اکثر اللہ والوں کی عادت یہی رہی ہے کہ خلق سے اختلاط کم رکھا اور گوشہ
نشین رہے‘‘۔ ان میں ایسے بزرگ بھی ہیں جو اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ
کسی کو انکی حقیقت کا پتہ چلے کہ وہ کون ہیں ؟ اور نہ ہی وہ یہ چاہتے تھے
کہ کوئی انکا مرید بنے ، وہ بجائے مخدوم ہونے کے خادم بننا پسند کرتے تھے
اگر کسی کو مریدبناتے بھی تھے تو نہایت کڑی شرائط کے ساتھ عام طور پر پردہ
اخفاء میں رہنا پسند کرتے تھے۔ مندرجہ بالا سطور میں مشائخ طریقت کے
مخلوقات سے بے نیاز رہنے کے احوال کو بیان کیا گیا ہے یہ چار کام یعنی کم
کھانا ، کم سونا، کم بات چیت کرنا اور لوگوں سے کم ملنا جلنا اصل میں ’’
’’مجاہدات حکمیہ‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں اور راہ طریقت پر چلنے والوں کیلئے
یہ کام کرنے بہت ضروری ہیں اس لئے وہ مخلوقات سے بے نیاز رہتے ہیں ۔
تیسرا اصول یہ ہے کہ ’’ حق کا کام چھپنا نہیں بلکہ ظاہر ہونا ہے‘‘۔ مقصد یہ
ہے کہ انسان اگر کسی حقیقت کو چھپانا چاہے تو وہ چھپ نہیں سکتی بلکہ ظاہر
ہو جاتی ہے بقول شاعر ۔۔۔۔۔۔
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خوشبو آنہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
انسان اگر باطن میں کچھ اور ہے اور ظاہر میں کچھ اور تو باطن میں وہ جو کچھ
چھپا رہا ہے وہ ظاہر ہو کر رہتا ہے چاہے اسے چھپانے کی لاکھ کوشش ہی کیوں
نہ کی جائے ۔ اسکی حرکات و سکنات ، چال ڈھال، بولنے کا انداز اس کے باطن کی
چغلی کھاتا ہے اور دیکھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ کوئی بات ہے جو چھپائی جا
رہی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں ، اگرکسی شخص
کے کسی سے خفیہ تعلقات ہیں تو جب وہ ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں تو بات چیت
اور باہم دیکھنے کا انداز فوراً بتاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان کچھ ہے کہ
۔۔۔۔۔۔
عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے
اور خون کبھی نہیں چھپ نہیں سکتا قاتل کا ایک نہ ایک روز ضرورپتہ چل جاتا
ہے ایسا شاذ ہی ہوتا ہے کہ قاتل کا پتہ نہ چل سکے بقول شخصے ۔۔۔۔۔۔ جو چپ
رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا ۔اور چہرہ بہت کچھ بتاتا ہے انسان
کی اندرونی کیفیت کو اسکے چہر ے پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کیونکہ آنکھیں روح
کا دریچہ ہیں جہاں سے سب کچھ نظر آتا ہے ۔
بات یہاں سے چلی تھی کہ انسان کی ذات کے متعلق جو جملہ حقائق ہیں وہ کبھی
چھپ نہیں سکتے بلکہ ظاہر ہو کر رہتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جو باتیں یا
حقیقتیں اس دنیامیں ظاہر نہیں ہو سکیں کیا انکے ظہور کا کوئی او ر موقعہ
بھی ہے ؟ مثلاً انسان کے کئی روپ اور رنگ ہیں وہ بادشاہ بھی ہے فقیر بھی ہے۔
موَحِّدبھی ہے مشرک بھی ہے ۔ ظالم و جابر بھی ہے منصف بھی ہے ۔ عابد و زاھد
بھی ہے گنہگار بھی ہے مخلص بھی ہے ریاکار بھی ہے غرض اپنی ذات میں ایک
انجمن ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس نے کسی پر ظلم کیا یا تکلیف دی ، اس کا حق
دبایا یا کسی کے ساتھ بھلائی کی، اسکی داد رسی اور غمخواری کی یا عبادت و
ریاضت کی اور نفس کو مشقت میں ڈالا تو کیا انکاردعمل ایک نہ ایک روز سامنے
آئے گا یا نہیں؟
اسی طرح وہ لوگ جن پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں مگر انکی فریاد سننے والا
کوئی نہیں ، اور وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں اور شہید ہوجاتے ہیں
اور وہ لوگ جو اپنے نفس کو مشقت میں ڈالتے ہیں اور طرح طرح کے مجاہدات میں
مشغول رہتے ہیں تو کیا ان لوگوں کو اپنے اعمال کا بدلہ ملے گا یا نہیں ؟
توازروے شرع ضرور ملے گا! کیوں کہ روز جزا(قیامت) اسی لئے ہے جس دن نیکو
کاروں اور بدکاروں کو انکے کئے کا پورا اجر ملے گا اور رتی رتی کا حساب
ہوگا اور احکم الحاکمین کے دربار سے تمام لوگوں کو انصاف ملے گا اور کسی پر
ظلم نہیں کیا جائے گا فرما ن الٰہی ہے۔ ’’ سو جس نے کی ذرہ بھر بھلائی وہ
دیکھ لے گا اسے اور جس نے کی ذرہ بھر برائی وہ دیکھ لے گا اسے ‘‘(الزلزال:
۸) تفسیر میں لکھا ہے کہ ہر ایک کا ذرہ ذرہ عمل بھلا ہو یا برا اس کے سامنے
ہوگا اور حق تعالی جو کچھ معاملہ ہر ایک عمل کے متعلق فرمائیں گے وہ بھی
آنکھوں سے نظر آئے گا۔
لہذا جو لوگ اس خیال میں ہیں کہ کسی پر ظلم کرنے کے باوجود مواخذہ سے بچ
جائیں گے۔ یا کسی کا حق دبا لینے سے انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں یا جو کچھ
وہ کر رہے ہیں اس پر کوئی حساب لینے والا نہیں تو وہ خوش فہمی و خود فریبی
میں مبتلا ہیں کیونکہ وقت آیا ہی چاہتا ہے جس دن حق داروں کو انکا حق ملے
گا ۔ |