یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اس کے

یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمھارا ہے تم ہو تغمہ خواں اس کے

جب ہم تمام اس وطن کے شہری ہیں اور بحثیت شہری ہماری کچھ ذمہ داریا ں اور حقوق بھی ہیں ۔ اور بحثیت شہری ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے زاتی مفادات پس پشت ڈالتے ہوے اپنے اجتماعی مفادات اور اقدار: آزادی، محبت، بھاءی چارہ اور مساوات کو ترجیح دیں۔ ہم سب انسان ہیں اور یہی ہمارا سب سے بڑا رشتہ ہے اور انسان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بھی دوسرے انسانوں کی اصلاح اور خدمت ہے۔

اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام بنیادی حقوق میں برابر حصہ دار ہیں مگر ذمہ داریوں مختلف ہو سکتی ہیں ایک عام شہری کی ذمہ داریاں صدر پاکستان سے مختلف تو ہو سکتی ہیں مگر ذمہ داریوں سے مبراء نیہں ہو سکتا۔ ہم اپنی ذمہ داریو ں کو بھول کر صرف اور صرف تنقید کے در پے رہتے ہیں جو کہ مساءل کا حل نیہں ہے بلکہ مساءل کا حل مل جل کر بیٹھ کر سوچو بچار کرنا ہے ۔ ہر مسءلے کا کوئ نہ کو ئ حل ضرور ہوتا ہے ضرورت اس کو سنجیدگی سے لینے کی ہے ۔ اور انسان کی یہ فطرت ہے کہ یہ سنجیدگی سے صرف اس چیز کو لیتا ہے جہاں اس کو کوئ اہمیت ، قررو قیمت اور تعلق کا عنصر نظر آے تو لہذا ہمیں پہلے اپنے اندر اس ملک کی املاک اور ترقی کے ساتھ وہ تعلق محسوس کرنا ہو گا تاکہ ہم عملی طور پر ترقی کے عمل میں حصہ لینے کی ضرورت محسوس کریں

آج ہمارے تمام مساءل کی سب سے بڑی وجہ ہماری انفرادی سوچ ہےاگر ہم اپنے اندر اجتماعی سوچ پیدا کر لیں تو ہمارے مساءل ختم ہو سکتے ہیں۔ انسان کی دوسری مخلوقات پر برتری کی وجہ اس کا شعور اور سو چنے کی صلاحیت ہے کہ یہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکتا ہے۔ انسان کی سوچ ہی ہے جو اسے عظیم بھی بناتی ہے اور ذلیل بھی کرواتی ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کے انداذ اور زاویے بلنے ہونگے۔ ہمیں تفرقہ بازی، تعصبات، ذات پات اور غلامانہ سوچوں وغیرہ کے حصار سے نکلنا ہو گا اور ہماری بڑاءی اور برتری کا معیار کردار اور تقوہ کو بنانا ہو گا

آج ہماری قوم کی تمام تر صلاحیتیں بے مقصد کاموں میں صرف ہو رہی ہیں ۔ ہم ایسی فضول سماجی براءیوں میں الجھے ہوءے ہیں کہ ہماری ترقی کی طرف سوچ ہی نہیں جاتی۔ سامراجی سوچ کی وجہ سے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے ہر جاءز نا جاءز کام کرنے کے لیے کوئ ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ اس سب کچھہ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں سادگی اور قناءت پسندی کی اقدار کو اپنانا ہو گا ۔

ہمیں مادیت کی سوچ کو بدلنا ہو گا تب ہماری ڈاءریکشنز ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ تعلیم کا مقصد واقعات اور محض تسخیرات کا نام نہیں بلکہ اصل تبدیلی تو دل کی روشنی سے ہوتی ہے اور وہ کردار سازی اور سوچنے کی صلاحیتیں پیدا کرنے والی ترنییت کا نام ہے تاکہ ہم اس قابل ہو سکیں کہ ہم مل جل کر اپنی مشکلات کا حل نکال سکیں اور دوسرے کے درد دو اپنا درد سمجھ سکیں اقبال نے کہا تھا

تسخیر مہر و ماہ مبارک تجھے مگر
دل میں نہیں تو کہیں روشنی نہیں
Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124458 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More