"Proud to be a Gujjar"یہ لکھا
تھا ایک دودھ والے ڈالے کے پیچھے ، یعنی مجھے "گجر ہونے پر فخر ہے"جب میری
گاڑی نے اس ڈالے کو کراس کیا اور تھوڑی آگے نکل گئی تو ڈالے والے نے فوراً
ریس بڑھا دی اور میری گاڑی کو کراس کر کے آگے نکل گیا شاید وہ مجھے "Proud
to be a Gujjar" دوبارہ پڑھوانا چاہتا تھا۔ مگر میں نے ڈرائیور سے کہا جو
بھی ہو اس گجر کو پیچھے چھوڑو اور آگے نکلو۔ ڈرائیور نے بڑی کوشش کی کہ وہ
کسی طریقے سے گجر کے ڈالے کو کراس کر کے آگے نکلے پر گجر صاحب نے راستہ نہ
دیا اور پھر مجھے تقریباً 13کلومیٹر تک بار بار پڑھنا پڑا کہ"مجھے گجر ہونے
پر فخر ہے"۔میں نہ چاہتے ہوئے بھی اسے بار بار پڑھتا اور ہنستا ۔ اب بات
گجروں کی چل پڑی ہے تو میں آپ کو گجروں کے حوالے سے کچھ واقعات سنانا چاہوں
گا۔ گجر بڑے سادہ لوگ ہوتے ہیں ۔ میرا ایک گجر سے ملن ہوا تو ہم کئی گھنٹے
باتیں کرتے رہے ، باتوں باتوں میں گجروں کے کاروبار کی بات شروع ہوگئی تو
اس نے بتایا کہ گجروں کا کاروبار دودھ کا ہوتا ہے، وہ صبح سویرے اٹھتے
اوردودھ دھوتے ہیں اس کے بعد پتا نہیں دودھ کے ساتھ کیا کیا کرتے ہیں،کیا
مکس کرتے ہیں؟ کیا نکالتے ہیں؟خدا بہتر جانتا ہے یا ایک گجر۔ بقول اُس گجر
"دودھ کا بڑا کام ہے"اس کام میں بڑی کمائی ہے ایک گجر کے پاس زیادہ سے
زیادہ بھینس ہونا ضروری ہے ۔ اُس گجر نے مزید یہ بتایا کہ وہ دودھ صبح
سویرے لاہور لے جاتے ہیں دریا ئے راوی کے قریب دودھ کا بڑا کام ہے وہاں جا
کے دودھ کے اندر بہت کچھ ملایا جاتا ہے برف اُسے ٹھنڈا رکھنے کےلئے استعمال
ہوتی ہے جبکہ مصالحہ جات کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ اُس گجر نے مجھے یہ بھی
بتا یا کہ وہ دودھ کے بغیر نہیں رہ سکتے ، روٹی ملے نہ ملے دودھ ضروری ہونا
چاہیے۔ اس لئے تو زیادہ تر گجر صحت مند ہوتے ہیں۔ قارئین ہم لوگ میچ لگا ہو
تو شرط لگاتے ہیں کہ اگر میری ٹیم جیتی تو میں حریف سے ایک لیٹرپیپسی پیوں
گایا کڑاہی اور پیزا وغیرہ شرط پہ لگایا جاتا ہے۔ مگر گجر لوگ اگر میچ کے
دوران شرط لگائیں تو دودھ سوڈا یا دودھ ہی شرط پر لگاتے ہیں۔ گجر کم پڑھے
لکھے ہوتے ہیں اور انہیں جلد بیوقوف بنایا جاسکتا ہے۔ مگر کئی پڑھے لکھے
گجر بھی ہیں ۔ ہمارے ایک دوست کی صحت گجروں جیسی ہے ۔فرخ شہباز وڑائچ ، ہیں
تو وڑائچ مگر صحت گجروں جیسی ہے۔ ایک مرتبہ ایک دوست کے ہمراہ مجھے قریبی
گاﺅں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم فصلوں میں سے گزر رہے تھے کہ اچانک ہم نے آگے
سے سانپ کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا میں تو لرز اُٹھامیرا دوست بھی کچھ
ایسی ہی کیفیت میں مبتلا ہوگیا جب ہم پیچھے مڑنے لگے تو پیچھے سے ایک شخص
ہماری طرف آرہا تھا اُس شخص کو میں تو نہیں جانتا تھا مگر میرا دوست اُسے
جانتا تھا۔ اب سانپ کے خوف سے میں نے اپنے دوست کو پیچھے بھاگنے کا مشورہ
دیا ۔ میرے اُس دوست نے فوراً کہا پیچھے بھاگنے سے بہتر ہے کہ ہم آگے
بھاگیں۔ میں نے اُسے کہا کہ پاگل ہو آگے سانپ ہے کاٹ لے گا تو میرے دوست نے
کہا "پیچھے بھی تو گجر ہے"۔مجھے کچھ سمجھ نہ آئی میں نے کہا وہ آدمی ہے اور
یہ سانپ ہے ، آدمی کیا کہے گا وقت ضائع نہ کرو، چلونکلتے ہیں ۔ آگے سے جواب
ملا گجر بھی سانپ ہی ہوتا ہے یہ کہتے ساتھ ہی وہ آگے کو بھاگا اور سانپ کو
کراس کرتے ہوئے کافی دور نکل گیا۔ میں وہی کا وہی ، میں نے بسم اللہ پڑھا
اور آگے جانے کو ترجیح دی اور کافی دور نکل گیا۔ اس طرح ہم نے دو سانپوں سے
اپنی جان بچائی۔ ایک دفعہ گاﺅں میں لڑائی ہورہی تو میں پاس چلاگیا دونوں
حریف ایک دوسرے کو مار رہے تھے اور لوگ کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے میں بھی
تماشا دیکھنے لگا خیر کچھ دیر کے بعد لڑائی ختم ہو گئی اور ایک عمر رسیدہ
بزرگ نے دونوں میں سے ایک نوجوان سے پوچھاکہ بھائی آپ دونوں کیوں لڑے ہو؟
تو موصوف نے جواب دیا اُس نے میری بھینس کو بددعا دی اور کہا خدا کرے اس
دفعہ تیری بھینس کے ہاں نہ کٹی ہو نہ کٹا۔تو مجھ سے رہا نہ گیا میں نے اسے
ایک رسید دی۔ عمر رسیدہ بزرگ نے کہا تو اس میں کونسی بری بات کہہ دی اُس نے۔
گجر فوراً بولا یہ گجر کےلئے بہت بڑی بددعا ہے ہمارا بزنس تباہ ہو جاتا ہے۔
اگر ایک سال میں ایک بیٹا نہ ہوتو اتنا دکھ نہیں ہوتا جتنا دکھ ہمیں ایک
سیزن میں بھینس کے ہاں اولاد نہ ہونے کا ہوتا ہے۔ میں تو ہکا بکا رہ گیا۔
گجروں کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ زیادہ تر گجر کچھ خاص رقم لڑائی جھگڑوں
کےلئے علیحدہ مختص کرلیتے ہیں اور کئی گجر تو اس کےلئے علیحدہ اکاﺅنٹس
بنواتے ہیں۔ گجر جیسے بھی ہوں اگر بڑے شہروں میں ایک دن دودھ نہ لے کر
جائیں تو نظام درہم برہم ہو جائے۔ بچے اونچی اونچی آوازیں لگائیں ماما دودھ
ماما دودھ ، پر گجر ذمہ دار لوگ ہیں فجر کی نماز پڑھیں نہ پڑھیں دودھ صبح
وقت پر پہنچا دیتے ہیں۔ گجروں کی بات ہو اور نرگس کی بات نہ ہو یہ نا ممکن
ہے ۔ میری ایک دن اسٹیج کے مزاحیہ فنکار افتخار ٹھاکر سے ملاقات ہوئی وہاں
میں نے اُن سے یہ سوال کیا کہ کیا نرگس اور گجر لازم و ملزوم ہیں؟ تو ٹھاکر
کا جواب تھا"پاگل قوم ہے گجر بیوقوف لوگ ہوتے ہیں،ہوسکتا ہے کچھ ایسی رائے
نرگس کی بھی ہو۔ ایک جگہ پینٹنگ کا مقابلہ تھا وہاں ایک گجر بھی چلاگیا ،
مقابلے کی یہ شرط تھی کہ ایک چارٹ کے اوپر اپنی پسندیدہ تصویر پانچ منٹ کے
دورانیے میں بنانی ہے اور جلد خوبصورتی کے ساتھ تصویر بنانے والے کو انعام
سے نوازا جائے گا۔ مقابلہ شروع ہونے لگا سب اپنی جگہ پر چارٹ لے کر کھڑے
ہیں گجر صاحب بھی اپنا چارٹ تھامے کھڑے ہیں۔ گھنٹی بجی اور سب شروع ہوگئے
کوئی بادشاہی مسجد کے مینار بنانے لگا تو کوئی مینارِ پاکستان ، کوئی لاہور
کا چوبرجی چوک تو کوئی قائداعظم ؒ کا مقبرہ۔ گجر صاحب نے نہ تو بنائی
بادشاہی مسجد نہ کوئی اور تاریخی عمارت ، بلکہ چارٹ پر ایک بھینس بنائی اور
اس کے گلے میں ایک لائن کھینچی جو زمین پر لکڑی کے بنے ہوئے کلے تک لے گیا۔
یہ کام گجر نے نہایت خوبصورتی سے تین منٹ کے دورانیے میں مکمل کر لیا اور
پہلا انعام وصول کر لیا۔ آپ کو گجروں کی بھینسوں سے عقیدت و احترام کا
اندازہ تو معلوم ہو گیا ہوگا۔
(نوٹ: اگر کسی گجر کو کالم پڑھ کر سب کچھ سچ لگے تو رابطہ ضرور کرے) |