۔"جانتے ہوں ناصر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، غریب آدمی
کیسے خوشیوں کی تلاش کرتا ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، ایسے ہی جیسے کسی بھرے میلے
میں کُھو جانے والا چھوٹا سا بچہ اپنی ماں کو تلاش کررہا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
!!!"۔
۔"آزر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !آزر۔ ۔ ۔ ۔ ۔!آزر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!، بالکل مزا نہیں آرہا،
تم اپنی ڈائیلاگ ڈیلیوری میں کچھ اور جان ڈالو، فلمبینوں کو تمھاری آواز
میں محرومی سنائی دینی چاہیئے، انہیں تمھاری آواز میں وہ شکوہ سنائی دینا
چاہیئے جو وہ خود اُس دنیا، اُس زمانے سے کرنا چاہتے ہیں لیکن چاہتے ہوئے
بھی کر نہیں پاتے۔ آزر تمھارا یہ ڈائیلاگ اسطرح سے سنیما ہال میں گونجنا
چاہیئے کے اسکی گونج انہیں اپنے بے آواز شکوے کا مداوا محسوس ہونے لگے"۔
میں نے آزر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انتہائی جھنجھلائے ہوئے لہجے میں
کہا۔
آزر نے اپنی گھڑی میں وقت دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا:۔
۔"ادیب الحسن صاحب، ویسے بھی پانچ بج چکے ہیں، اگر اجارت ہو تو اب چلوں گا،
ریہرسل کا سلسلہ کل یہی سے دوبارہ شروع کرینگے"۔
یہ ستر کی دھائی کے اواخر کے اُن دنوں کی بات ہے جب پاکستانی فلمی صعنت
اپنے دورِزریں کی طرح تو نا سہی البتہ اب بھی گاہے بہ گاہے اپنے ذندہ ہونے
کے ثبوت فراہم کرتی رہتی تھی۔
ایسے میں ایک روز فلمی صعنت کے ایک بہت ہی بلند پایہ اور نامور ہدایتکار
پرویزالسلام فاضل نے مجھ سے کراچی میں فون پر رابطہ کرکے اپنی نئی فلم کا
اسکرپٹ لکھنے کی استدعا کی۔
پہلے تو میں نے دو ٹوک لہجے میں یہ کہہ کر صاف انکار ہی کردیا کہ:۔
۔"میں ٹہرا خالص ادبی نوعیت کا ادیب۔ یہ سچ ہے کے میرے لکھے افسانے اور
ناول اس وقت شہرت کی بلندیوں کو چُھو رہے ہیں لیکن میں نے آج تک فلم تو کیا
کبھی ٹی وی ڈرامے کا اسکرپٹ بھی نہیں لکھا اور نا ہی لکھنے کی کوئی خواہش
ہی ہے"۔
اتنا کہہ کر میں نے فون پٹخ دیا۔
اُس وقت تک مجھے ادبی دنیا میں وارد ہوئے کچھ دس بارہ برس کا عرصہ ہی گزرا
تھا اور خوش نصیبی سے میرے متعدد افسانوں کے مجموعے اور ناول شائع ہوکر
فروخت کے ریکارڈ قائم کرچکے تھے۔ اب اسکا کچھ نا کچھ تو اثرہونا ہی تھا
لہٰذا میں کسی کو بھی خاطر میں نا لاتا تھا۔
لیکن صاحب، پرویز السلام فاضل بھی اپنی دھن کا پکا آدمی نکلا۔ مسلسل فون پر
فون کرتا رہا اور جب میں نے ہار نا مانی تو ایک روز لاہور سے پہلی فلائٹ
پکڑ کر کراچی پہنچا اور سیدھا میرے گھر آن دھمکا۔
اب گھر آئے دشمن کی بھی عزت و تکریم لازم ہے اور وہ تو پرویزالسلام فاضل
تھا۔ اُس وقت کی پاکستانی فلمی صعنت کا سب سے کامیاب اور سنیئر ترین
ہدایتکار۔ جہاں اسکے کریڈٹ پر بےشمار کامیاب ترین فلمیں تھیں وہیں لوگ اسے
اپنے فن میں یکتا و پختہ مانتے تھے۔ اسکا شمار فلمی صعنت کے ان معدودے چند
ہدایتکاروں میں ہوتا تھا جو کے تعیلم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تکنیکی شبعے
کی بھی کماحقہ سُوج بُوجھ رکھتے تھے۔
بعد میں مجھے اسکی ہی زبانی پتہ چلا کے وہ قیام ِپاکستان سے دو تین سال قبل
ہی کلکتہ کی فلمی صعنت کے ایک کہنہ مشق فلم ایڈیڑ سے فلم ایڈٹنگ، بعدازاں
ایک پرانے اور نامور سنیماٹوگرافر سے فلمی فوٹوگرافی کے اسرار ورمُوز سیکھ
کر بنگالی فلموں کے ایک بڑے ہدایتکار روبن پارتو کو اسسٹ بھی کرنے لگا تھا
لیکن اپنے خاندان کے بڑوں کے اصرار پر وہ پاکستان آ گیا اور 1960ء میں اسنے
اپنی پہلی فلم "پیاس" کی خود مختارانہ طور پر ہدایت دیں۔ اُس دن کے بعد سے
کامیانی مسلسل اسکے قدم چُوم رہی تھی۔
اب وہی پرویزالسلام فاضل میرے سامنے بیٹھا تھا۔
چھوٹے چھوٹے نیلے خانوں والی انتہائی نفیس سی سفید بوشرٹ جسکا دامن اعلیٰ
تراش کی گہری نیلی پتلون سے باہر، گلے میں گہرا سرخ مفلر او پیروں میں سیاہ
چمکدار جوتے۔ دبلے پتلے سے جسم پر اُسی مناست کا سر اور ہلکے سے تیل لگے
بالوں میں بائیں ہاتھ کی جانب سے نکالی گئی مانگ، نفاست سے قدرے چھوٹے کٹے
انتہائی سلیقے سے سنوارے گئے سیاہ بال جن میں کہیں کہیں سے جھلکتے ہوئے
سفید تار۔ تنگ پیشانی، صاف رنگت والے کلین شیو چہرے پر سنجیدگی اور متانت
اور آنکھوں پر لگے چوکور چشموں سے جھانکتی ہوئی بڑی بڑی مگر گہریں اور زہین
آنکھیں، ستواں ناک۔ ان کے عین نیچے پتلے پتلے ہونٹ جو شاید کثرتِ سگریٹ
نوشی کے سبب گہرے سانولے ہورہے تھے اور چھوٹی سی گول ٹھوری جسمیں باتیں
کرتے ہوئے ہلکا سا گڑھا پڑتا تھا۔
۔"دیکھیں ادیب الحسن صاحب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، آپ جیسے دانشور لوگ ہی پھر شور
مچاتے ہیں کے پاکستانی فلموں میں شامل کہانیوں کا کوئی ادبی معیار نہیں
ہوتا۔ میں نے اِس بارعزم ِمصمم کیا ہے کے میں اپنی اگلی فلم کے لیئے ایک
ایسی اچھوتی کہانی لکھواوں گا جو نا صرف ادب کے معیار پر بھی پوری اترے اور
اسے دیکھ کر فلمبینوں کی شعوری و لاشعوری دونوں طرح سے اصلاح بھی ہو"۔
اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگیا اور اپنی انگلیوں میں دبے ہوئے سگریٹ کو اسنے
انگوٹھے اور شہادت کے عین بعد والی انگلیوں سے پکڑ لیا اور اس کے جلتے ہوئے
سِرے پر جمع ہوئی ہلکی باریک سی راکھ کو انگلی سے دھیرے دھیرے کریدنے لگا۔
شاید یہ اسکی مستقل عادت تھی کیونکہ اُس انگلی کے سرے کی رنگت بقیہ حصے کی
نسبت قدرے سیاہ ہورہی تھی۔
پہلے تو میں کافی دیر تک اپنے سرد و تلخ لہجے سے کوشیش کرتا رہا کے کسی طرح
سے اسے ٹال دوں۔ اسے آئے ہوئے اب کچھ آدھا گھنٹہ ہوچلا تھا لیکن میں نے
مروتاً بھی اُسے چائے یا پانی کو نہیں پُوچھا تھا۔
۔"اچھا ایسا کرتے ہیں کے میرے کئی ادیب دوست ایسے بھی ہیں جو بڑے اچھے
قلمکار ہیں اور میرے کہنے پر وہ خوشی خوشی آپکی فلم کا اسکرپٹ لکھنے پر
راضی ہوجائیں گے"۔
میں نے تنگ آ کر بلا اپنے سر سے اتارنا چاہی۔
میری بات سن کر پرویزالسلام فاضل بولا تو کچھ بھی نہیں البتہ ایک بڑی ہی
معنی خیز سی مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر مچلی اورساتھ ساتھ اسکی انکھیں بھی چمک
اٹھیں۔
گو کہ میں اچھی طرح سے سمجھ رہا تھا کے اُس گہری مسکراہٹ کا مطلب کیا ہے،
پھر بھی میں نے انجان بنتے ہوئے اندھیرے میں تیر چلایا:۔
۔"تو اسکا مطلب ہے کے آپکو میری تجویز پسند آئی ہے"۔
پرویزالسلام فاضل نے بڑے ہی اطمینان کے ساتھ دھیرے مگر انہتائی پختہ لہجے
میں وہی جواب دیا جسکی میں توقع کررہا تھا۔
۔"ادیب الحسن صاحب، اگر کسی اور سے ہی کہانی لکھوانا ہوتی تو میں لاہور سے
چلکر یہاں کراچی آتا ہی کیوں؟، وہیں لاہورہی میں یہ کام کرسکتا تھا، انگنت
ادبی پائے کے مصنفین ایک اشارہِ ابرو کے منتظر ہیں کے میں ان سے کب کہوں
اور وہ کب میرے لیئے اسکرپٹ لکھیں"۔
اتنا کہہ کر اسنے اپنی انگلیوں میں دبا سگریٹ ایش ٹرے میں مسلسل دیا اور
پھر بڑی ہی آہستگی اور نفاست کے ساتھ دونوں ہاتھوں کو دھیرے دھیرے جھاڑتا
ہوا میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا:۔
۔"اگر میری فلم کی کہانی کسی نے لکھنی ہے تو وہ آپ ہی لکھیں گے ورنہ میں
فلم ہی نہیں بناوں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!"۔
۔"لیکن کیا آپ جانتے بھی ہیں کے میرے تمامتر افسانوں، کہانیوں اور ناولوں
کے مضوعات عموماً انسانی نفسیات، شعور و لاشعور کی الجھی گھتیوں کو سلجھاتے
اور ماضی میں پیوستہ انکی جڑوں کی تلاش کے اردگرد گھومتے ہیں۔ آپ کے لیئے
انہین فلمانا کچھ نا ممکن سا ہی ہوگا"۔
میں نے اپنے چہرے پر ایک گہری طنزیہ مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا۔
۔"جی ہاں مجھے بخوبی اندازہ ہے، میں نے ان گذشتہ دس سالوں کے دوران شائع
ہونے والے آپکے سارے ناول اور افسانوں کے مجموعے پڑھ رکھے ہیں"۔
پرویز السلام فاضل کا یہ جواب میرے لیئے ایک اور نیاء دھچکا تھا۔
۔"اور پھر میں آپکی انڈسٹری میں بنے والیں دیگر فلموں کی طرح سے رواتی پیار
و محبت اور مار ڈھاڑ و گنڈٰاسوں والی کہانیاں نہیں لکھ سکتا"۔
میں نے مذید جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
۔"آپ بے فکر رہیں میرا آپ سے اس قسم کی کہانی لکھوانے کا قطعاْ کوئی ارادہ
بھی نہیں"۔
میں نے ایک نیاء پینترا بدلا:۔
۔"دیکھیں، میں ازخود اور فری لانس کام کرنے کا عادی ہوں، میں نے کبھی کسی
کے لیئے اور کسی کے کہنے پر آج تک کوئی تحریر نہیں لکھی۔ اپنی اسٹڈی میں
دنوں اور مہینوں بند ہوکر جو کچھ لکھتا ہوں اسکا مسودہ پبلیشرخود میرے گھر
سے پیشگی معاوضہ دیکر لے جاتا ہے اور ہر چھے ماہ میں میری سابقہ کتب کی
رائیلٹی کا چیک مجھے بذریعہ ڈاک مل جاتا ہے، اللہ اللہ خیر صلہ اورتو اور
میں شہر میں منعقدہ سو کالڈ ادبی محافل اور نشستوں میں بھی شرکت نہیں کرتا۔
ویسے بھی میرے بارے میں ادبی حلقوں میں کچھ اچھی رائے نہیں پائی جاتی، ادبی
لوگ مجھے جھکی، بد مزاج اور شارٹ ٹیمپرڈ کہہ کر پکارتے ہیں۔ مجھے چھوٹی
چھوٹی باتوں پر شدید غصہ آ جاتا ہے اور میں اپنے آپے سے باہر ہوجاتا ہوں،
معمولی معمولی سی باتوں پر ہتھے سے اکھڑ جاتا ہوں۔ میں نہیں سمجھتا کے آپ
میرے ساتھ کام کرسکیں گے۔ اب میں مذید اور کچھ نہیں کہنا چاہتا، بہتر ہوگا
کے اب آپ تشریف لے جائیں"۔
میں نے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ثبت کرکے اپنے ہاتھ جھٹک کر اُسے جانے کا
اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
۔"اور آپ میرے بارے میں نہیں جانتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!"۔
پرویز السلام فاضل ایک مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ بڑے ہی پرُسکون لہجے میں
بولا:۔
۔"میرے بارے میں ساری فلمی صعنت میں یہ مشہور ہے کے مجھے اپنے تیس سالہ
کیریئر میں کبھی ایک بار بھی غصہ نہیں آیا اور میرے خیال میں فلمی صعنت کا
وہ واحد ہدایتکار ہوں جسکے ساتھ آپ باآسانی کام کرسکتے ہیں"۔
میری جنجھلاہٹ بڑھتی جارہی تھی، میں تھا کے اُس سے جان چُھڑانے کی کوشیشیں
کررہا تھا اور وہ تھا کے ہار مان کے نہیں دے رہا تھا۔
ویسے میں نے اپنے بارے میں کچھ ایسا غلط بھی تو نہیں کہا تھا۔
میرا گذشتہ دس بارہ سالوں پر محیط ادبی سفر کوئی بہت ذیادہ پُرپیچ نہیں
تھا۔ دورانِ تعلیم ہی میں نے ملک کے بہت ہی بڑے اور نامور ادبی جریدے میں
افسانہ نگاری کا آغاز کردیا تھا اور میرے اولین افسانے کے ساتھ ہی مجھے
ہاتھوں ہاتھ لیا جانے لگا اورجریدے کے ہر ماہ شائع ہونے والے شمارے میں
میرے افسانے کی شمولیت ایک لازمی امر ٹھری۔ یہ سلسلہ یونہی دو تین سالوں تک
چلتا رہا۔
پھر ایک روز جریدے کے مدیر ریاض جیپوری صاحب نے مجھ سے گذشتہ دو تین برسوں
کے دوران شائع شدہ افسانوں میں سے منتخب افسانوں کا مجموعہ اپنے ادارے کے
تحت شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ بھلا مجھے کیا
اعتراض ہوسکتا تھا اور جب کتاب کی اشاعت کے ساتھ ساتھ بہت ذیادہ نا سہی کچھ
تھوڑا بہت معاوضہ بھی ہاتھ آرہا ہو تو پھرانکار کی گنجائش ہی کہا رہتی تھی۔
میری خوش نصیبی رہی کے جہاں میرا پہلا ہی مجموعہ اچھی تعدار میں فروخت ہوا
وہیں اسے ناقدین کی جانب سے بھی کافی سراہا گیا۔ اس بات کو مدِنظر رکھتے
ہوئے جیپوری صاحب نے میرے بقیہ افسانوں کو بھی ایک اور مجموعے کی صُورت میں
شائع کرنے کا فیصلہ کرلیا اور یہ مجموعہ تو انکے ادارے سے شائع شدہ دیگر
تمام کتب کی فروخت کے سابقہ ریکارڈ توڑ گیا۔
ان دو کامیاب مجموعوں نے ادبی دنیا میں میرے قدم جما دیئے اور ملک کے نامور
ترین اشاعتی ادارے مجھ سے رابطہ کرنے لگے اور پھر اگلے چھ ماہ میں ہی میرا
اولین ناول "پیاس کا سمندر" کامیابی کی نئی داستان رقم کررہا تھا اور پھر
یکے بعد دیگرے ایسی متعدد داستانیں رقم ہوتیں چلی گئیں۔
میری شہرت میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا جارہا تھا۔ میرے افسانوں اور ناولوں
کی خاض بات اس کے مرکزی کردار ہوا کرتے تھے جو کے عموماً بے حد ذندہ دل،
ذندگی کی جانب مثبت سوچ و عمل کے حامل اور سب سے بڑھکر گفتار و کردار کے
غازی۔ ان کرداروں نے میرے قارئین پر میری تصانیف کے ساتھ ساتھ میرے اپنے
زاتی کردار کے حوالے سے بھی ایک مثبت تاثر قائم کرنے میں ایک اہم کردار ادا
کیا۔
خُود سر تو میں پہلے ہی سے تھا۔ ان کامیابیوں نے مجھے خُود پسند بھی بنا
دیا۔
میرا اپنے بارے میں یہ خیال پختہ ہوچلا تھا کے بھلا مجھ سے بہتر انسانی
نفسیات و فطرت، کشمکشِ قلب و خرد، شعور و لاشعور کی پیچیدہ گتھیوں، اسرار و
رموزِ حیات و موت اور کون جان اور سمجھ سکتا ہے۔ میرے زہن نے اپنے سواء
دیگر تمام لوگوں کو حقیر، سوچ و سمجھ اور عقل و خرد سے عاری ایک مخلوق قرار
دے دیا تھا۔
ویسے بھی شروع ہی سے میں کچھ گوشہ نشین طبیعت کا حامل تو تھا ہی، اب اُن پے
در پے کامیابیوں کے بعد حاصل ہونے والے گرانقدر ادبی منصوبوں کی تکیمل کی
کے لیئے کل وقتی ادیب کی حیثت سے اپنی اسٹڈی میں قلم اور کاغذ سے اپنا ایک
اٹوٹ رشتہ استوار کرلیا۔ باالفاظِ دیگر یوں کہ لیں کے میری اسٹڈی میرے لیئے
ایک "کمفرٹ زون" یا "گوشہِ عافیت" بن گئی تھی۔
تو یہ تھی اُس دور میں میری شخصیت کی کچھ جھلکیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔ اُس
وقت تک میں نے جو کچھ بھی کیا تھا اپنی زات کی قید میں مقید ہوکر ہی کیا
تھا۔ ٹیم ورک کیا ہوتا ہے میں اس سے قطعاً نا آشنا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔
۔" اچھا چلیں آپ ایسا کریں کے میرے کسی بھی افسانے یا ناول کو فلما لیں"۔
میں نے یہ سوچ کر کہا کے اس ہٹ دھرم سے بھی جان چھوٹے گی اور اسکے لیئے
بطورِخاض کچھ لکھنا بھی نا پڑیگا۔
۔"نہیں بالکل نہیں، ادیب الحسن صاحب، میں آپ سے اپنے ایک برسوں پرانے
آئیڈیا پر کہانی لکھوانا چاہتا ہوں، جسیے میں نے اُس وقت سوچا تھا جب میں
کلکتے میں ہدایتکار روبن پارتو کو اسسٹ کررہا تھا۔ لیکن مجھے فلمی صعنت میں
کوئی ایک بھی ایسا ادیب نظر نہیں آتا جو اس کہانی کے ساتھ آپ سے بڑھکر
انصاف کرسکے گا"۔
پرویز السلام فاضل کی آنکھوں کی چمک پہلے سے کہیں ذیادہ گہری ہوتی چلی گئی
اور اسکی اندرونی قلبی کیفیات و جذبات اسکے چہرے پر موحزن تھے۔
۔"ادیب صاحب، آپکے افسانوں اور ناولوں میں پائے جانے والا مخصوص رومانچک
ماحول، اسکے کرداراور انکی خاص نفسیات جو کے ذندگی سے انتہائی قریب تر ہوتے
ہوئے بھی پراسراریت کی ایک دبیز چادر میں لپٹے رہتے ہیں اور انکی دلوں کو
چھو لینے والی کہانیاں جو کے پڑھنے والوں کے دل سے لیکر احساس تک کو گرما
اور آنکھوں سے لیکر روح تک کو بھگو دیا کرتیں ہیں۔ مجھے بھی اپنی فلم کے
لیئے ایک ایسی ہی حساس کہانی اور ایسے ہی ذندہ و جاوید کرداروں کی تلاش
ہے"۔
پرویزالسلام فاضل ایسے بول رہا تھا جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہوں، اسکی
نظریں میرے چہرے پر نہیں دوُر خلاوں میں کہیں گھور رہیں تھیں۔
اب میں نے اپنا سب سے مہلک و کاری ہتھیار آزمانے کا فیصلہ کرلیا:۔
۔"اسلام صاحب، لگتا ہے آپ ہار ماننے والوں میں سے ہرگز نہیں، چلیئے میں
آپکی کہانی لکھ دونگا لیکن میرا معاوضہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ روپے ہوگا۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!!"۔
میں نے ابتک کی اپنی آخری شائع شدہ کتاب جو کے مارکیٹ میں بیسٹ سیلر ثابت
ہوئی تھی سے بھی کوئی چار گنا ذیادہ معاوضہ بتا دیا اور پھر طنزیہ انداز
میں اسکی طرف دیکھنے لگا۔
لیکن پرویز السلام فاضل کا چہرہ ویسا ہی کسی خاموش سی جھیل کی طرح پُرسکون
اور اس پر وہی دھمیی دھمیی سی مسکراہٹ موجود تھی جو اس ساری گفتگو کے دروان
موجور رہی۔
محض چند ہی لمحات کے توقف کے بعد میری بات کے جواب میں اسکے منہ سے صرف
انتا ہی نکلا:۔
۔"مجھے منظور ہے"۔
اتنا کہہ کر اسنے اپنے بریف کیس میں سے چیک بک نکالی اور اپنی بوشرٹ کی جیب
میں لگا پین نکل کر جلدی جلدی ایک چیک لکھا، اسپر اپنے دستخط کیئے اورمیری
طرف بڑھتے ہوئے بولا:۔
۔"یہ آپکا نصف معاوضہ ہے اور بقیہ کا چیک میں آپکی خدمت میں اس وقت پیش
کرونگا جب آپ مجھے اسکرپٹ مکمل کرکے دینگے"۔
شاید اسے ہی تو کہتے ہیں کے خود آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔
چیک میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے وہ مذید بولا:۔
۔"اس ساری گفتگو کے دوران قسم لے لیں جو اگر آپ ایک بار بھی مسکرائیں ہوں،
چلیں اب میری درخواست پر ایک بار مسکرا دیں، آپکا مسکرانا ہماری فلم کے
لیئے مبارک ثابت ہوگا"۔
پہلے تو میرا جی چاہا کے اُسے خوب کھری کھری سناوں لیکن پھر یہ سوچ کر رہ
گیا وہ میرے گھر میں بیٹھا ہوا تھا، میں نے بادل نخواستہ مسکراتے ہوئے اس
سے چیک وصول کرلیا۔
مجھے آج تک یاد ہے کے اُس روز میں نے اسے چائے حتیٰ کے پانی تک پوچھے بغیر
ہی اپنے گھر سے چلتا کردیا تھا حالانکہ دورانِ گفتگو دو ایک بار بیگم نے
چھوٹے صاحبزادے کو چائے پانی کا دریافت کرنے بھیجا بھی تھا لیکن میں نے بد
تہذیبی کی انتہا کرتے ہوئے اسے پرویز اسلام فاضل کے سامنے ہی دانٹ ڈپٹ
کربھگا دیا۔
اسکے بعد شروع ہوا دوسرا مرحلہ اور وہ تھا اسکرپٹ مکمل کرنے کا۔
پرویز السلام فاضل نے مجھے اُسی روز فلم کی کہانی کا مرکزی خیال جسے فلمی
زبان مین ون لائن اسٹوری کہا جاتا ہے سنایا۔
یہ ایک ایسے نوجوان شاعر و ادیب کی کہانی تھی جو اپنی تحریروں میں معاشرتی
ناہمواری اور ناانصافی کو اجاگر کرنے کی کوشیش کرتا اور معاشرے کے رستے
ناسوروں اور تلخ حقائق کو منظرِعام پر لانے کی تگ ودو میں لگا رہتا۔ لیکن
اس کوشیش کی پاداش میں اس سے اسکا روزگار اس کی محبت اور حتٰی کے اس سے
جینے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔
پرویزالسلام فاضل جہاں ایک زہین ہدایتکار تھا وہیں اُسے کہانی اوراُس سے
مربوط واقعات کی بُنت کا بھی بڑی حد تک اندازہ تھا۔ گو کے اس نے مجھے کہانی
کا مرکزی خیال تو بڑا مختصر سا ہی سنایا تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ اُس کہانی
کے حوالے سے متعدد واقعات اور مناظرڈسکس کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کے اُنہیں
کس طرح سے پردہِ سیمیں پر پیش کیا جائیگا۔ دراصل اس کہانی کا تانا بانا وہ
اپنے زہن میں گذشتہ تیس سالوں سے بن رہا تھا اور اب مجھے اس مرکزی خیال،
واقعات اور مناظر کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک مکمل کہانی کو پروان چڑھانا
تھا۔
چونکہ میں کہانی لکھنے کی حامی تو بھر ہی چکا تھا اورپھر اسے لکھنے کے
سلسلے میں پرویزالسلام فاضل کے ساتھ ہونے والی نشستیں کافی بارآور ثابت
ہوئیں اور نا چاہتے ہوئے بھی میری اسمیں ایک خاص دلچسپی پیدا ہوتی چلی گئی
جسکے نتیجہ میں ایک بڑا ہی بھرپور اور مربوط اسکرپٹ معرضِ وجود میں آیا۔
چونکے یہ ایک نیم کمرشل، رومانوی اور سماجی نوعیت کی فلم تھی لہٰذا اسمیں
گانوں کی بھرپور گنجائش تھی اور مجھے پرویزالسلام فاضل کی یہ بات بھی بہت
ہی بھائی کے اسنے دیگر فلموں کی طرح محض فلم کی لمبائی بڑھانے اور فلموں کی
روایت کو قائم رکھنے کی خاظر بھرتی کے گیتوں کی شمولیت کی بجائے مجھ سے فلم
میں گیتوں کے لیئے ایک سے بڑھکر ایک سچویشنز لکھوائیں جس سے تمامتر نغمات
فلم میں اسطرح سے فٹ ہوتے چلے گئے جیسے انگوٹھی میں متعدد نگینے فنکارانہ
مہارت کے جڑ دیئے گئے ہوں اور مزے کی بات تو یہ تھی کے یہ سارے کے سارے
نغمات فلم کی کہانی کو آگے بڑھاتے چلے جاتے تھے۔
ایک روز وہ میرے پاس پھر آن دھمکا وہ اپنے ساتھ ایک کیسٹ لایا تھا۔اس نے وہ
کیسٹ ڈرائینگ روم میں رکھے کسیٹ پلیئر میں اسے لگا کر چلا دیا۔ اسپیکرز سے
ابھرنے والی آواز کو سنکر میں حیرت میں پڑگیا۔ فریدہ خانم اپنی ہی گائی
ہوئی اطہر نفیس کی غزل گا رہی تھیں:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اُسکا حال سنائیں کیا
کوئی مہر نہیں کوئی قہر نہیں اب سچا شعر سنائیں کیا
دراصل مجھے حیرت اس بات پر تھی کے فریدہ خانم وہ غزل گا تو اُسی روایتی دھن
میں رہیں تھیں لیکن اسے ایک مکمل اور بھرپور آرکسٹرا کے ساتھ ریریکارڈ کرکے
اسکی خُوبصورتی کو دوچند کردیا گیا تھا۔
غزل مکمل ہوتے ہی پرویزالسلام فاضل میری طرف داد طلب نظروں سے دیکھنے لگا۔
میں نے اُس کی اُن داد طلب نظروں کی قطعاً پروانہ نا کرتے ہوئے بڑے ہی درشت
لہجے میں سوال داغ دیا:۔
۔"یہ کیا ہے؟"۔
یہ ہماری فلم کا تھیم سانگ یا یوں کہہ لیں کے تھیم غزل ہے، جو وقتاً وفوتاً
فلم کے متعدد مناظر کے تاثر کو دوچند کرنے کے لیئے پسِ منظر میں چلائی
جائیگی کیونکہ ہماری فلم کا مرکزی کردار ایک ناکام ادیب و شاعر ہے اس لحاظ
سے اطہر نفیس کی یہ غزل ہماری فلم کے مزاج کو بہت سوٹ کریگی۔ اسکی دھن وہی
رکھی گئی ہے جسمیں یہ پہلے ہی سے شہرت پا چکی ہے البتہ اس بار اسے چالیس
سازندوں پر مشتمل آرکسڑا کے ساتھ ریکارڈ کر کے مذید سنوار کر پیش کیا گیا
ہے جسے نے اس شاہکار غزل کے امپیکٹ کو دوآتشہ کردیا ہے"۔
ایک مرحلہ پر آکر میرا پرویز السلام فاضل سے کسی حد تک اختلاف ہوگیا۔
کہانی کا مرکزی خیال تو یقیناً اُسی کا تھا لیکن اسے بحرحال صفحہِ قرطاس پر
میرے قلم ہی نے حقیقت کا روپ دیا تھا اور اُس اسکرپٹ کو لکھتے لکھتے یہ
مرکزی کردار میرے دل و دماغ میں رچ بس سا گیا اور میں نے اپنے دل ہی دل میں
اس کردار کے لیئے موزوں ترین اداکار کی تلاش شروع کردی اور میرے زہن میں اس
کردار، اسکی نفسیات، اسکی نشست و برخاست اور اسکی شخضیت کو مدِنظر رکھتے
ہوئے پاکستانی فلمی صعنت کے ایک ہی اداکارکا نام بار بار ابھر کر آرہا تھا۔
جب میں نے پرویزالسلام فاضل کو اس کردار کے لیئے اپنے تجویز کردہ اداکار کا
انتخاب کرنے کا مشورہ دیا توحسبِ سابق اسکے چہرے پراسکی ٹریڈ مارکہ دھیمی
دھیمی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ اپنے مخضوص پرُسکون لہجے میں گویا ہوا:۔
۔"یہ درست ہے کے ندیم ہمارے ملک کا بہت بڑا اور باصلاحیت اداکار ہے اور
میری بیشتر سابقہ فلموں میں اُسی نے مرکزی کردار ادا کئے ہیں اور مجھے اس
امر سے بھی انکار نہیں کے وہ اس کردارکو اپنی بھرپور کردارنگاری سے ذندہ و
جاوید بنا سکتا ہے لیکن میں اپنی اس فلم کے زریعہ پاکستانی فلمی صعنت کو
ایک نیاء اداکار دینا چاہتا ہوں اور میرے زہن میں اس کردار کے لیئے ایک
بالکل نیاء چہرہ ہے۔ نیاء چہرہ فلم کے لحاظ سے لیکن وہ پاکستان ٹیلی وژن کے
متعدد ڈراموں میں بے پناہ عمدہ اداکاری کا مظاہرہ کرچکا ہے۔ میں نے گذشتہ
دنوں اس کردار کے مکمل گیٹ اپ میں اسکا اسکرین ٹیسٹ اورفوٹو شوٹ بھی کروایا
ہے، جسکا میری توقع کے عین مطابق بے حد متاثرکن رزلٹ آیا ہے"۔
اتنا کہہ کر اسنے اپنا بریف کیس کھول کرایک لفافہ نکلا اور اسمیں سے ڈھیر
ساری تصاویر نکال کر میری طرف بڑھادیں۔
وہ نیا چہرہ آزر تھا۔ آزر ٹی وی ڈراموں کا ایک ابھرتا ہوا اداکار تھا اور
مذکورہ فوٹو شوٹ میں فلم کے کردار سے مطابقت رکھتے ہوئے گیٹ اپ میں بلاشبہ
ہوبہو میری کہانی کا کردار ہی معلوم ہورہا تھا۔
اس وقت مجھے وہ کہاوت یاد آئی: جسکا کام اسی کو ساجھے۔
اسکرپٹ کے تمامتر پہلووں سے مکمل ہوجانے کے بعد پرویز السلام فاضل نے فلم
کے دیگر پری پروڈکشن شبعوں پر اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کردی۔ اعلیٰ ادبی
پائے کے شعراء سے فلم کے گیت لکھوائے گئے اور پھر فلمی صعنت کے ایک بڑے ہی
کامیاب اور زبانِ ذدعام نغمات کے تخلیقکار ماسڑ اسد اللہ کو موسیقی کا شبعہ
تضویض کردیا گیا۔
فلم کی شوٹنگ کے لیئے پرویزالسلام فاضل نے کراچی کا انتخاب کیا اور اپنے دو
معاون ہدایتکاران کے ہمراہ وہ مسلسل لوکیشنز مارک کرنے کے لیئے ریکی کرنے
لگا اور مجھ سے اس نے بطورِخاص فلم کے مکالموں کے درست تلفظ کے ادائیگی کے
لیئے فلم کے مرکزی اداکار آزر کو ریہرسل کروانے کی درخواست کی اور اس کام
کے لیئے علحیدہ سے معاوضے کی پیشکش کی جسے میں نے کسی قدر پس وپیش کے بعد
اس شرط کے ساتھ منظور کرلیا کے تمامتر ریہرسلز کے لیئے آزر روز میرے گھر
آیا کرے گا۔
اور پھر ایک روز وہی ہوا جسکا مجھے ڈر تھا۔ اُس روز پرویز السلام فاضل
اسکرپٹ لے کر میرے پاس آیا اور فلم کے چند ڈائیلاگز تبدیل کرنے کو کہا اور
بس صاحب میں یہ سنتے ہی اپنے آپے سے ہاہر ہوگیا:۔
۔"چند کامیاب فلمیں بنا کر کیا تم نے یہ سمجھ لیا کے تم مجھ جیسے کامیاب
اور سمجھ بوجھ رکھنے والے ادیب کے لکھے ہوئے مکالموں میں کیڑے نکلنا شروع
کردو۔ اسی لیئے میں فلم والوں کے لیئے لکھنے کے خلاف تھا، میرا لکھا پتھر
پر لکیر ہے اور میں اسے تبدیل نہیں کرونگا"۔
اتنا کچھ سننے کے بعد بھی اسکا چہرے ویسا ہی پر سکون تھا جیسا کے عموماً
ہوا کرتا تھا۔ وہ بناء کچھ کہے بس خاموش بیٹھا رہا۔ غصے کے سبب میرا بلڈ
پریشر ہائی ہوجانے کے باعث میں بھی کچھ دیر کے لیئے خاموش اپنی کرسی پر
ڈھیر ہوگیا۔ کچھ پندرہ بیس منٹ ماحول یونہی خاموش اور ٹہرا ٹہرا سا ہی رہا۔
ماحول کو قدرے ٹھنڈا پا کر پرویز السلام فاضل بولا:۔
۔"ادیب صاحب، میں اس وقت یہاں اپنی فلم جو کے محض میری ہی نہیں ہم سب ہی کی
فلم ہے کی بہتری کے لیئے حاضر ہوا ہوں۔ میرے خیال میں اگر اس کے چند مناظر
میں شامل مکالموں کو زرا سا تبدیل کرلیا جائے تو اس سے نا ضرف ان مناظر کا
تاثر ابھر کر سامنے آئیگا بلکے بحیثیتِ مجموعی فلم پر بھی بہت ہی اچھا اثر
پڑیگا"
لیکن میں بھی اپنی بات پر اڑا رہا۔ کافی دیر مجھے سمجھنے کی سعی ِلاحاصل کے
بعد وہ اُس دن تو چلا گیا۔
اگلے روز جب میرا غصہ قدرے ٹھنڈا ہوا تو میں نے اسکرپٹ کو پرویز السلام
فاضل کے آئیڈیا اور ان مناظر جن کے مکالمے وہ تبدیل کرنا چاہتا تھا کو زہن
میں رکھ کردوبارہ پڑہنا شروع کیا تو مجھے اُس کی بات ٹھیک لگی اور اُسی
مناسبت سے مکالموں کی میرے زہن میں آمد ہوتی چلی گئی جو خود مجھے بھی پہلے
سے کہیں بہتر محسوس ہوئے۔
اُسی شام پرویز السلام فاضل پھر میرے گھر آن دھمکا۔ حالانکہ میں سمجھ رہا
تھا کے میرے گذستہ روز کے برتاو کے بعد وہ مجھ سے ناراض ہوگا۔
وہ ڈرائنگ روم میں میرا انتظار کررہا تھا، جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا
اسکا وہی پُرسکون چہرہ اور مدھم سی مسکراہٹ دیکھ کر مجھے تعجب ہوا۔ میں نے
کچھ اور کہے بناء اسکرپٹ اسکے ہاتھ پر دھر دیا۔
کچھ دیر سر جھکائے اسکرپٹ دیکھتا رہا اور پھر جب اسنے سر اٹھایا تو اسکی
مدھم سی مسکراہٹ ایک گہرے معنیٰ خیز تبسم میں ڈھل چکی تھی۔
۔"میں جانتا تھا، ایسے پُراثر اور جکڑلینے والے مکالمے صرف آپ ہی تخلیق
کرسکتے ہیں"۔
پرویز السلام السلام تو اسکرپٹ لے کر چل دیا لیکن جاتے جاتے وہ مجھے سوچ کے
ایک گہرے بھنور میں دھکیل گیا۔
اُس روز میں نے سوچا کے ایک تخلیق کار میں ہوں جو اسٹڈی کے دروازے کے پیچھے
اپنے "کمفرٹ زون" میں بند اپنی ذات کے ویرانوں میں گم ہو کر ایک فن پارہ
تخلیق کرتا ہے۔ اُس زیرِتخلیق افسانے یا ناول کی کہانی، پلاٹ، واقعات،
کردار، ان کے رویے، نفسیات، انکی گفتگو، انکی نشست و برخاست، انکی سوچ اور
جذبات سب ہی کچھ تو میرے قلم کے تابع ہوتے ہیں۔ میں جب اور جیسے چاہوں انکو
استعمال کروں اور ان میں سے کوئی بھی میرے سامنے چوں و چراں کرنے کی ہمت تک
نہیں کرسکتا۔
اور پرویز السلام فاضل بھی تو ایک تخلیقکار ہی ہے لیکن اُسے اپنی تخلیق کو
پایہ ِتکمیل تک پہنچانے کے لیئے تخلیقکاروں کی ایک مکمل ٹیم مرتب کرنا پڑتی
ہے اور اس ٹیم کا ہر رکن جو کے میرے افسانوں اور ناولوں کے کرداروں کے
برعکس گوشت پوشت سے بنا، جذبات و احساسات رکھتا جیتا جاگتا انسان اور اپنی
ذات میں خود ایک مکمل تخلیقکار ہوتا ہے سے اپنی تخلیق کے ایک مخصوص گوشے کو
سنوارنے کا کام اپنی مرضی کےعین مطابق ایسے لینا ہوتا ہے کے ان تمام
تخلیقکاروں کے کام میں ایک مکمل ہم آھنگی پیدا ہوجائے اور وجود میں آنے
والی تخلیق ایک ایسی کثیر جہتی پینٹنگ کی شکل اختیار کرلے جسکا ہر زوایہ نا
صرف ایک دوسرے کی شان بڑھائے بلکے بحیثتِ مجموعی ایک مکمل و اعلیٰ فن پارے
کا بھرپور تاثر بھی فراہم کرے۔
پرویز السلام فاضل کے ساتھ اپنے رویہ کی بدصُورتی کا درست اندازہ مجھے فلم
"آئینہِ ذندگی" کے پریمئیر شو والے دن ہوا۔ جی ہاں یہ ہی نام تھا اُس فلم
کا۔
کسی حد تک فلم کے معیاری ہونے کی امید تو میں نے شروع دن سے ہی لگا رکھی
تھی لیکن اُس روز سنیما کے اندھیرے ہال میں مسلسل تین گھنٹے میں نے پرویز
السلام فاضل کے فن کا مظاہرہ دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کے جیسے میں
کوئی فلم نہیں بلکے پردہِ سیمیں پر اپنا ہی کوئی بھولا بسرا سُہانا سپنا
دیکھ رہا ہوں جو میں کبھی پہلے دیکھ کر بھُول گیا تھا لیکن اُسکے چند
دھندلے دھندلے حسین مناظر اب بھی اکثر میرے زہن کے نہاں خانوں سے ابھر ابھر
کر مجھے دنیا و مافیہا سے بے خبر کرتے ہوں اور پرویز السلام فاضل نے کمال
فنکارانہ مہارت کے ساتھ اس حسین و دلربا سپنے کو سیلولائیڈ کے فیتے پر
منتقل کردیا تھا۔
ٹیم ورک کے معجزے پر میرا ایمان اس روز کامل ہوا جب فلم "آئینہِ ذندگی" کو
کل سات نیشنل فلم ایوارڈز جمسیں بہترین فلم، بہترین ہدایتکار، بہترین
اداکار، بہترین موسیقار، بہترین سنیماٹوگرافر کے علاوہ مجھے بہترین مصنف
اور مکالمہ نگار کے دو ایوارڈزسے نوازا گیا۔
اس فلم کی فقید المثال کامیانی کے بعد میں اور پرویزالسلام فاضل ایک ٹیم کی
شکل اخیتار کرگئےاور پھر یہ رفاقت انہتائی گہرے دوستانے پر منتج ہوئی اور
انکی اگلی تمام فلموں جنکی کُل تعداد چار بنتیں ہیں کی کہانیاں اور مکالمے
میں نے ہی لکھے۔
بلاآخر یہ ٹیم اور دوستی ٹھیک گیارہ سال بعد ہدایتکار پرویز السلام فاضل کے
اچانک ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کر جانے سے ٹوٹ گئی۔
آج پرویز السلام فاضل کو ہمارا ساتھ چھوڑے ہوئے بائیس سال کا عرصہ گز چکا
ہے لیکن مجھے یہ کہنے میں قطعاً کوئی عار نہیں ہے کے اسلام صاحب کے جانے کے
بعد اُس جیسا کوئی اور خوابوں کا صُورت گر ہماری فلمی صعنت کو میسر ہی نا
آسکا۔
انکے اور میرے گیارہ برس کے ساتھ اور اس حقیقت کے باوجود کے وہ مجھ سے عمر
میں بڑے بھی تھے انہوں نے کبھی میرے طرز ِعمل کے بارے میں مجھ سے کوئی بات
تک نا کی اور محض اپنے عمل اور کردار سے میرے رول ماڈل بنے۔
میری دعا ہے کے اللہ پرویز السلام فاضل مرحوم کی معغفرت کرے اور انکے درجات
بلند کرے آمین۔
یہ آخری کلمات ادا کرکے میں نے ڈائس پر بکھرے کاغذات سمیٹے اور اسٹیج سے
اتر کر سست قدم اٹھاتا ہوا اپنی نشست کی جانب چل دیا۔ آرٹس کونسل کے کھچا
کھچ بھرے ہوئے آڈیٹوریم میں محض چند ساعتوں کی مکمل خاموشی کے بعد اچانک
چھت شگاف تالیوں کا ایک نا رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا
تو تمام حاضرین اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوکر والہانہ انداز میں تالیاں
پیٹ رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کے یہ تالیاں پرویز السلام فاضل کی برسی
پر لکھے گئے میرے مقالے کی پسندیدگی کے لیئے تھیں یا خود پرویزالسلام فاضل
مرحوم کے لیئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔ |