میاں نواز شریف کی سادگی میں بھی
ایسی پُرکاری ہے کہ مر مٹنے کو جی چاہتا ہے۔ ایک ہفتے تک دھماچوکڑی مچی رہی۔
قوم خلجان، تشویش اور وسوسوں میں مبتلا رہی۔ میڈیا کے محاذ پر جنگ کا سماں
رہا۔ ایک رونق میلہ تھا کہ جس سے دِل سیر نہ ہو پاتا تھا یعنی جتنا دیکھیے
اُتنی ہی ہوس بڑھتی تھی! مگر میاں صاحب اپنی سادہ طبیعت کے ہاتھوں میڈیا پر
کہتے رہے ”پَلّے نئی دھیلہ تے کردی میلہ میلہ!“ سب نے دیکھ لیا کہ ڈاکٹر
طاہرالقادری کے پاس کتنے دھیلے تھے اور تھیلے تھے۔ تھیلوں سے وہ طرح طرح کے
الٹی میٹم اور مطالبات نکال کر حکومت کو ڈراتے اور قوم کو ہنساتے رہے! میاں
صاحب چاہیں تو ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا سکتے کہ لانگ مارچ اور دھرنے کے
شاندار رونق میلے پر کتنے غیر ملکی دھیلے خرچ ہوئے!
لوگ کہتے ہیں کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے جسے اب کوئی درست یا سیدھا نہیں
کرسکتا۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ ایسی کوئی کوشش کرے؟ اور پھر یہ بات بھی
بھولنے والی نہیں کہ جنہوں نے منصوبے کے تحت اور خاصی محنت کرکے آوے کو
بگاڑا ہے وہ کب اِسے درست ہونے دیں گے! یقین نہ آئے تو آپ بھی اپنی کوشش کر
دیکھیے۔
بیشتر مردوں کا کیس یہ ہے کہ موقع ملتے ہی دوستوں کے ساتھ ہوٹل پر جا
بیٹھتے ہیں اور پھر زمانے بھر کے موضوعات پر تین چار گھنٹے کی سیر حاصل بحث
کے بعد ہی اُٹھتے ہیں۔ یہی حال خواتین کا ہے جو کسی نہ کسی بہانے سہیلیوں
کے ساتھ مختلف بازاروں کے چکر نہ کاٹیں تو دِل کو سکون نہیں ملتا۔ بس کچھ
ایسی حالت اب پوری قوم کی ہے۔ سب کچھ اچھا چل رہا ہو تو دل کو گھبراہٹ سی
ہونے لگتی ہے۔ کہیں کوئی گڑبڑ نہ ہو تو دِل یہ سوچ کر ڈوبنے لگتا ہے کہ
کہیں کوئی گڑبڑ تو نہیں! قوم اب ”کچھ نہ کچھ“ کی عادی ہوچکی ہے۔ کچھ نہ کچھ
ہوتے رہنا چاہیے۔ شادیانے نہیں تو غم کی شہنائی ہی سہی! بقول غالب
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی، نغمہ شادی نہ سہی!
سیاست کے چولھے پر بیانات اور بڑھکوں کی دیگ چڑھی ہے۔ سب اِس میں حسب توفیق
حصہ ڈالتے جاتے ہیں اور دیگ سے طرح طرح کی ”خوشبوؤں“ کے ”بھپکے“ اُٹھتے
جاتے ہیں! لوگ کچھ خرچ کئے بغیر ہی ناک کے راستے بہت سی لذتیں معدے میں
اتار رہے ہیں!
1975 میں پنجابی فلم ”شوکن میلے دی“ ریلیز ہوئی تھی جس میں میلے کی شوقین
کا یعنی مرکزی کردار آسیہ نے ادا کیا تھا اور ان کے مقابل منور ظریف مرحوم
تھے۔ فلم ایسی ہٹ ہوئی کہ یہ ٹائٹل ہماری قوم پر اب تک چسپاں ہے! آسیہ تو
فلم میں کام کرکے، معاوضہ سمیٹ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ فلم ہٹ ہوکر سنیما ہالز
سے کب کی اُتر چکی۔ اور قوم ہے کہ اب تک پورے ملک کو اوپن ایئر تھیٹر
سمجھتے ہوئے ”شوکن میلے دی“ بن کر اپنے آپ کو ریلیز در ریلیز کے مرحلے سے
گزارنے پر تُلی ہوئی ہے! آسیہ اور منور ظریف کی ”شوکن میلے دی“ تو ماضی کا
قصہ ہوئی، قوم نے شاید قسم کھا رکھی ہے کہ سُپر ہٹ، بلکہ مَہا سُپر ہٹ کی
مسند پر متمکن رہنا ہے!
قوم کو میلے کا شوقین بنائے رکھنے والوں کی بھی تو کمی نہیں۔ ایک سیاسی
مداری جاتا ہے تو دوسرا آجا تا ہے۔ ہر ایک کے پاس ایجنڈے کے عجیب و غریب
جانور ہوتے ہیں۔ اور اُن سے عجیب اُن کے کرتب ہوتے ہیں جو قوم کی آنکھوں سے
کاجل چُرانے کی کوشش سے بھی گریز نہیں کرتے!
انسان جب کام کرتے کرتے تھک جاتا ہے تو کچھ تفریح کی سُوجھتی ہے یا وہ دل
بستگی کا سوچتا ہے۔ خدا جانے ہم کس منزل میں ہیں کہ اب رات دن تفریح سے کام
ہے اور کام سے تو جیسے کچھ کام رہا ہی نہیں! آپ کہیں گے حالات ایسے کہاں
ہیں کہ انسان میلے ٹھیلے میں جانے کا سوچے؟ آپ کی سوچ غلط نہیں ہوسکتی۔ مگر
جناب! اب کسی میلے میں شریک ہونے اور دل کو فرحت بخشنے کے لیے کہیں جانے کی
ضرورت ہی کیا ہے؟ گھر بیٹھے میلے کی سیر کیجیے۔ بس سوئچ آن کرنے ہی کی تو
دیر ہے! ٹی وی سیٹ آن ہوا اور سمجھ لیجیے میلہ سج گیا۔ گھر گھر رونق میلہ
لگا ہوا ہے۔ خانہ ساز اور درآمد شدہ ہر دو طرح کے سیاسی مداری آپ کی سیوا
کے لیے حاضر ہیں۔ اُن سے سیوا کرائیے اور داد و تحسین کا میوہ کھلاکر اُن
کا حوصلہ بڑھائیے! کہیں جانے کی زحمت نہ واپسی کا جھنجھٹ۔ آن کی آن میں
میلہ سج بھی جائے اور دل بہل بھی جائے!
جب کوئی طے کرلے کہ ذہن کو سوچنے کی راہ پر نہیں جانے دینا تو پھر کس میں
ہمت ہے کہ سوچنے پر مائل کرکے دکھائے؟ اہل وطن کا عمومی وطیرہ اب یہی ہے کہ
ایک جھمیلے سے دل بھر جائے تو دوسرے میں دلچسپی لیں اور اگر دوسرا بور کرنے
لگے تو تیسرے کی طرف نکل جائیں! حالیہ دھرنے کے شرکاءکو کیا ملا؟ مگر یقین
کیجیے کہ کسی نئے طاہرالقادری کی آمد پر بھی ایسا ہی ہنگامہ برپا ہوگا،
ایسی ہی بڑھکیں ہوں گی اور یونہی بے وقوف بن کر صورتِ حال سے لطف کشید کیا
جائے گا! جو لوگ طاہرالقادری کے ہاتھ مضبوط کرنے نکلے وہ نئے لانگ مارچ اور
دھرنے میں بھی دکھائی دیں گے۔ میلہ خواہ کسی کا ہو، شوقین وہی رہیں گے!
سنیما ہال میں فلمیں لگتی اُترتی رہتی ہیں، کبھی آپ نے شائقین بھی بدلتے
دیکھے ہیں!
میڈیا تو خیر سے کچھ زیادہ ہی بدنام ہیں۔ اہل وطن کب بہت ایسے تھے کہ
اُنہیں بگاڑنے پر خاص الخاص توجہ دی جاتی! ہاں، یہ ضرور ہوا ہے کہ میڈیا کی
طرف سے کی جانے والی مفت پالش سے ذہنوں کے جوتے چمک اُٹھے ہیں! جب
پریشانیاں حد سے گزر جاتی ہیں تو اُن کے ساتھ جینے کو زندگی کا مقصد اور
طریق کار سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہم نے بھی یہی ”موڈس آپرنڈی“ اپنالی ہے۔
پریشانی کا خوش دِلی سے مقابلہ کیجیے تو وہ پریشانی نہیں رہتی، آپ کے مزاج
کا حصہ بن جاتی ہے۔ ہم نے بھی شاید طے کرلیا ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے
بجائے اُن سے محظوظ ہوا جائے! بقول غالب
غم سے گر خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے غم
مشکلیں مجھ پر پڑیں اِتنی کہ آساں ہوگئیں!
میلوں کے شوقین پریشان تو اُس وقت ہوں جب اُنہیں یہ یاد رہے کہ یہ سارا
رونق میلہ ختم ہوگا تو کام وام بھی کرنا ہے۔ جب طے کرلیا کہ ایک کیفیت ہی
میں جینا اور مرنا ہے تو کیسی خوشی اور کیسا غم؟ متضاد حالتوں اور کیفیتوں
کے اشتراک سے یہ معجزہ رُونما ہوا ہے کہ اب ہماری اجتماعی نفسیات کے گھاٹ
پر شیر اور بکری ساتھ ساتھ پانی پیتے ہیں! محسوس یہ ہوتا ہے کہ اہل سیاست
نے ”مفاہمت“ کا فلسفہ بھی قوم کی نفسیاتی ساخت ہی سے کشید کیا ہے! سیاست سے
چونکانے کا عنصر غائب کرکے بھی ایسا شاندار میلہ سجایا گیا ہے کہ ”شوکن
میلے دی“ مزید کملی تے دیوانی ہوگئی ہے! |