علم ایک ایسی چیز ہے جو انسان کے
آگے فرشتوں کو سر بسجود کر دیتا ہے اور پھر انسان کو دنیا میں اللہ کا
خلیفہ بنا دیتا ہے اللہ علم والا ہے اور علم کو پسند کرتا ہے یہ خالق
کاءنات کی تمام تر صفات میں سے اعلی ترین اور اپنے بندے کے اندر چاہے جانے
والی صفت ہے۔ یہی وہ صفت ہے جس کو تفریق کے بنیاد کہا گیا اور جس کے حصول
کی بار بار تاکید کی گئ بلکہ ایک حد تک فرض کر دیا گیا۔ علم ہی ابتداء اور
علم ہی انتہاء مگر علم اور عمل کو لازم و ملزوم کر دیا گیا ہے
علم صرف حالات، معلومات اور ہنر کا جاننا ہی نہین بلکہ علم کا اصل مقصد
اپنے آپ کو پہچاننا اور جاننا ہے کہ ہم کیا ہین ہماری زندگی کا اصل مقصد
کیا ہے۔ جب انسان یہ سب کچھ سمجھ جاتا ہے تو پھر اس کی زندگی ہی بدل جاتی
ہے اور وہ ہر چیز کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتا ہے۔ انسان کی اصل عظمت و
مرتبہ ہی علم کے ساتھ ہے۔ آج ہماری ذلت و رسوائ کی اصل وجہ ہی علم کی حقیقی
منزلت و منفعت سے دوری ہے۔ جب علم کے حصول میں مقصد جاہ و جلال ، عیش و
عشرت اور دولت کا حصول ہوتا ہے تو سب کچھ آپ کے سامتے ہے اور مجھے امید ہے
کہ آپ بھی میرے ساتھ اتفاق کرینگے کہ آج ہمارے ملک میں ستاون فیصد سے بھی
زیادہ کرپشن یہی نام نہاد پڑھے لکھے ہی تو کر ریے ہیں ۔ تو اس سے ثابت ہوا
کہ ہمارے اداروں میں تعلیم کا معیار اس درجہ کا نہیں ہے کہ ہم تعمیری سوچ
والے شہری پیدا کر سکیں لہذا ہمیں کردار سازی پر تعلیم سے بھی زیادہ توجہ
دینے کی ضرورت ہے۔
یقینا ایسے نظام تعلیم کے لیے ہمیں کوششوں اور تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی تاکہ
ہم اپنی آنے والی تسلوں کے اندر اجتماعی سوچ پیدا کرکے فرض شناس شہری پیدا
کر سکیں جو اپنے زاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں اور اس سے بھی
بڑھ کر ان کا نقطہ نظرودہیان پاکستانی اور مسلمان نہیں بلکہ نوع انسان ہوں
۔ اور اگر ہم واقعی اس معاملے میں مخلص ہیں تو پھر سب شہریوں کو یکساں
تعلیمی مواقع مہیا کرنے ہونگے یہاں میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ دہرا نظام
تعلیم بھی کشمکش کا سبب بنتا ہے۔ ہمارے پاس وساءل کی کمی نہیں لیکن اس
سلسلے میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مثلاً سکول اساتذہ کی سپیشل تربیت کی جاے
تاکہ وہ بچوں کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی کر سکیں۔ سکولوں کے سربراہ
براہ راست تعینات کیے جاءیں جن کی تعلیمی نگرانی کی تعلیم ہو۔ پھر سب کے
لیے ایک جیسی تعلیم کے لیے حکومت کو چاہیے کہ نوٹیفکیشن جاری کرے کہ کسی
بھی سرکاری ملازم یا عہدیدار کا بچہ پراءیویٹ سکول میں تعلیم حاصل نہیں کر
سکتا وغیرہ وغیرہ
اگر ہم علم تکوین کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو ہماری ایک علمی اعتبار سے
شاندار تاریخ ہے۔ آج بھی ہمارے نوجوانوں کے عالمی سطح پر ریکارڈ موجود ہیں۔
ہمیں صرف سوچوں کو صحیح سمت میں بدل کر قوم کی صلاحیتوں کو مثبت سرگرمیوں
پر صرف کرنے کے لیے سازگار ماحول مہیا کرنا ہوگا۔ ہیومن ریسورس کو زیادہ سے
زیادو قابل اور ضروریات سے ہم آہنگ کرنا ہو گا۔ اپنی نسلوں کو علم کے حصول
کے شوق سے لگاو پیدا کرتے ہوے ان کی سافٹ پاور کو بھی بڑھانا ہو گا بلکہ اس
سے بھی آگے بڑھتے ہوے ان کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہو گا۔
تخلیقی صلاحیتیں ہی قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں۔ تخلیقی صلاحیتوں کی حدیں
وہاں سے شروع ہوتی ہیں جہاں علمی حدیں ختم ہو تی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ویسے تو
ہر انسان ہی فلاسفر پیدا ہوتا ہے مگر پھر بھی اب تک دنیا میں زیادہ سے
زیادہ صرف د و سو فلاسفر پیداہوے ہونگے۔ کہتے ہیں کہ البیرونی جب زندگی کے
آخری سانس لے رہا تھا تو اپنے ایک شا گرد کو بلواتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ
مجھے وہ فلاں فارمولا تو بتانا میں بھول گیا ہوں۔ شاگرد عرض کرتا ہے کہ اے
استاد محترم اب آپ کی زندگی کے آخری لمحات ہیں آپ اس کا کیا کریں گے۔
البیرونی جواب دینا ہے “ کیا تم چاہتے ہو میں دنیا سے جاہل چلا جاوں“ ۔
البیرونی کے دنیا کے لیے اس کے آخری پیغام کے ساتھ اجازت چاہوں گا ۔ شکریہ |