امام جلال الدین رومیؒ حکایاتِ
رومی میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک ؓ حضور اکرم ﷺ کے جلیل القدر
صحابی تھے۔ ایک شخص آپ کا مہمان ہوا اُس نے بیان کیا کہ کھانے کے بعد حضرت
انس ؓ نے دسترخوان کو پیلا رنگ لگا ہوا دیکھا۔ تیل کی تہہ اُس پر جمی ہوئی
تھی۔ آپ ؓ نے لونڈی کو حکم دیا کہ اسے تنور میں ڈال دے۔ اُس نے اُسی وقت
اُسے تنور میں ڈال دیا ۔ سب مہمان حیران تھے اور دھواں اُٹھنے کے منتظر تھے
کہ لونڈی نے تنور سے دسترخوان نکالا وہ بالکل صاف اور سفید تھا۔ میل ختم ہو
چکی تھی۔ سب نے حضرت انس ؓ سے یہ راز دریافت کیا کہ دسترخوان آگ سے محفوظ
کیسے؟آپ ؓ نے فرمایا کہ اس دسترخوان سے حضورِ اکرم ﷺ نے متعدد بار ہاتھ اور
منہ صاف کیا تھا اور اسی وجہ سے اس دستر خوان کو آگ جلانے سے معذور ہے۔
مہمانوں نے لونڈی سے دریافت کیا کہ تو نے بلاتعمل کیوں کر اس دسترخوان کی
نذر کر دیا ۔ تو ڈری نہیں کہ اتنا قیمتی دسترخوان جل جائے گا۔ اُس نے کہا
یہ تو دستر خوان تھا اگر حضرت انس ؓ مجھے حکم دیتے کہ تنور میں کود جا تو
میں اپنے یقین کی بدولت ایسا کرنے سے بھی گریز نہ کرتی۔
حکایت کے سبق میں امام رومی ؒ تحریر کرتے ہیں کہ جب ایک کپڑے کا ٹکرا صرف
اس وجہ سے کہ اُس نے حضرت محمد ﷺ کے ہاتھ اور منہ سے مس کیا ہے آگ سے محفوظ
رہا تو جو شخص آپ ﷺ کے ساتھ اصل وابستگی قائم کر لے گا آپ ﷺ کی اطاعت کرے
گا وہ کیوں کر آگ میں جلے گا۔
قارئین! آج کا موضوع دو شخصیات ہیں جو کشمیر اور پاکستان کی محسن ہیں۔ لارڈ
نذیر احمد نے میرپور کی دھرتی سے اُٹھ کر دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت
برطانیہ میں ہاﺅس آف لارڈز کے پہلے مسلمان رُکن ہونے کا اعزاز حاصل کیا اور
اس پر ہی اُن کی جدوجہد ختم نہ ہوئی بلکہ کشمیر ، فلسطین اور دنیا بھر کی
مظلوم اقوام کے حق میں لارڈ نذیر احمد ایک ایسی آواز بن کر اُبھرے کہ جو حق
اور صداقت کی پیامبر ثابت ہوئی۔آج سے چند روز قبل لارڈ نذیر احمد پاکستان
اور آزادکشمیر کے ایک مختصر دورے پر تشریف لائے۔ ہم نے حسبِ معمول اپنی
عقیدت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُن سے گزارش کی کہ وہ ریڈیو آزادکشمیر FM93پر
کچھ گفتگو کریں۔ اُنہوں نے کمال مہربانی سے یہ درخواست قبول کر لی۔برطانوی
ہاﺅس آف لارڈ زکے پہلے تاحیات مسلمان رکن لارڈنذیر احمد نے گفتگو کرتے ہوئے
کہا کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کی سب سے بڑی دشمن ہماری وہ سیاسی قیادت ہے
جو ذاتی مفادات کی خاطر شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفادار تو ضرور ہے لیکن کشمیر
کے ساتھ اُن کی کمٹمنٹ کچھ بھی نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں آزادکشمیر کے وزراءکا
ایک اعلیٰ سطحی وفد برطانیہ کی سرزمین پر کشمیر آزاد کروانے کے لیے آیا تھا
۔ اس وفد کے معزز ارکان نے برطانیہ میں دعوتیں بھی خوب کھائیں ، شاپنگ بھی
خوب کی لیکن کشمیر کے حوالے سے بریفنگ دینے کے لیے انہوں نے جو اجلاس
بلوایا اُس میں ایک بھی انگریز پارلیمنٹیرین نے شرکت نہیں کی۔ واحد لارڈ
قربان حسین صرف دس منٹ کے لیے اُس اجلاس میں گئے۔ میں برطانوی پارلیمنٹ کی
آل پارلیمنٹری کمیٹی برائے کشمیر کا چیئرمین ہوں اور اس وفد کو اتنی توفیق
بھی نہیں ہوئی کہ وہ مجھ سے رابطہ کر کے مدد کے لیے کہتے تاکہ میں زیادہ سے
زیادہ برطانوی پارلیمنٹیرینز کو کشمیر کے حوالے سے ہونے والی اس بریفنگ میں
شرکت کے لیے کہتا۔ ذاتی انا اور سیاسی اختلافات کو بنیاد بنا کر اس وفد نے
کشمیری قوم کے کروڑوں روپے اللوں تللوں کی نذر کر دیئے۔ان خیالات کا اظہار
انہوںنے ریڈیو آزادکشمیر FM93 کے مقبول ترین پروگرام ”لائیو ٹاک وِد جنید
انصاری“میں خصوصی انٹرویو کے دوران کیا۔ گفتگو میں دیگر شرکاءسردار عبد
الرازق خان ایڈووکیٹ مشیر وزیر اعظم چوہدری عبد المجید ، محترمہ شاہ بانو
صدر جموںوکشمیرویمن پارٹی اور لبریشن فرنٹ یورپ کے صدر پروفیسر عظمت خان نے
بھی گفتگو کی۔ ایکسپرٹ کے فرائض سینئر صحافی راجہ حبیب اللہ خان نے انجام
دیئے۔ لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ یہ عجیب منافقت ہے کہ کشمیری غریب عوام کا
کثیر سرمایہ ذاتی اغراض و مقاصد اور سیر سپاٹوں کے لیے ہمارے لیڈر حضرات
خرچ کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے۔ ان کروڑوں روپے کی رقوم سے آزادکشمیر
میں سکولز بن سکتے ہیں ۔ ہسپتال تعمیر ہو سکتے ہیں اور عوامی خدمت کے لیے
کوئی عملی کام ہو سکتا ہے۔ جہاں تک کشمیر کی بات ہے میری لاہو ر میں ایک
روز قبل میاں محمد نواز شریف صدر مسلم (ن)، میاں شہباز شریف وزیر اعلیٰ
پنجاب اور آل پارٹیز حریت کانفرنس کے وفد سے بھی بات ہوئی ہے۔میر واعظ عمر
فاروق اور اُن کے دیگر ساتھی مقبوضہ کشمیر سے پاکستان اور آزادکشمیر کے
دورے پر آئے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کا
سب سے اہم فریق کشمیری ہے اور کشمیری قوم نے خود یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اُن
کا مستقبل کیا ہونا چاہیے۔ میں نے حریت کانفرنس کے وفد کے سربراہ عمر فاروق
سے بھی یہی بات کہی ہے کہ حریت کانفرنس کو ریاست جموںوکشمیر کے دیگر حصوں
گلگت بلتستان، لداخ، اقصائے چن اور تمام علاقوںمیں جانا چاہیے۔ جموں وکشمیر
ناقابلِ تقسیم وحدت کا نام ہے۔ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے بعد موجودہ حکومت نے بھی
گلگت بلتستان کو آئنی حقوق کے نام پر ریاست جموںوکشمیر سے علیحدہ کرنے کی
غیر دانشمندانہ حرکت کی ہے۔ لارڈنذیر احمدنے کہا کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ
فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے میںنے ہر ممکن کوشش کی ہے۔ میری یاسر عرفات
مرحوم سے درجنوںملاقاتیں رہی اور موجودہ حماس قیادت اسماعیل ہانیہ اور خالد
مشعل سے بھی میں رابطہ میںرہتا ہوں۔ فلسطین پر کئے جانے والے حالیہ
اسرائیلی حملے کا ایک ہی گھٹیا مقصد تھا کہ آنے والے اسرائیلی انتخابات میں
ووٹ حاصل کئے جاسکیں۔ اس پر پوری عالمی برادری کے ساتھ ساتھ برطانوی
پارلیمنٹیرینز بھی چیخ اُٹھے اوراسرائیل کو لعن طعن کرنے کے بعد یہ حملے
رکوائے گئے۔ اسی طرح کشمیر میں سامنے آنے والی حالیہ انسانی حقوق کی
تنظیموں کی رپورٹ بھارت کے خلاف اوپن چارج شیٹ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پانچ
سو بھارتی فوجیوں اور افسران پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہوگئی ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ اس رپورٹ کو بنیاد بنا کر عالمی عدالت برائے انسانی
حقوق ، انٹرنیشنل کریمنل کورٹ فار جسٹس میں بھارت کے خلاف کیس کرے۔کشمیر
میں گمنام قبروں کی دریافت بھارت کے جرائم کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
کوئی ہمارا ساتھ دے یا نہ دے ،کوئی ہماری حمایت کرے یا نہ کرے ہم کشمیری
اپنی آزادی کی جدوجہد نہ تو ترک کریں گے اور نہ ہی ہماری پیدائشی حق خود
ارادیت ہم سے کوئی چھین سکتا ہے۔لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ میں بہت جلد
برطانیہ کی سرزمین پرآل پارٹیز کشمیر کانفرنس بلوا کر پوری دنیا میںموجود
کشمیری قیادت کو اکٹھا کروں گا۔ تاکہ عالمی برادری کے سامنے کشمیر کا مسئلہ
درست طریقے سے اجاگر ہو سکے۔
قارئین! یہ لارڈ نذیر احمد کی وہ گفتگو تھی جو دل کی گہرائیوں سے نکلنے
والے جذبات کی عکاسی کر رہی تھی۔ لارڈ نذیر احمدنے بغیر کسی تصنع یا لگی
لپٹی کے یہ بات ظاہر کر دی کہ آزادکشمیر حکومت اور پاکستانی مفادات پرست
طبقہ چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بنیاد بنا کر بڑے مقاصد کو نظر انداز کر رہا
ہے۔
قارئین! آئیے اب کالم کے دوسرے حصے کی طرف چلتے ہیں۔ ہم نے FM93ریڈیو
آزادکشمیر ہی کے ایک اور مقبو ل پروگرام فورم 93وِد جنید انصاری میں
پاکستان میں علمی انقلاب کی بنیاد رکھنے والے عظیم ماہرِ تعلیم ڈاکٹر
عطاءالرحمان کو گفتگو کرنے کی زحمت دی۔
سابق وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی اور سابق چیئر مین ہائر ایجوکیشن کمیشن
ڈاکٹر عطاءالرحمٰن نے کہا ہے کہ آزادکشمیر کے طلباءوطالبات انتہائی ذہین
اور ٹیلنٹڈ ہیں ۔ آزادکشمیر میں اسوقت دو یونیورسٹیاں کا م کر رہی ہیں ۔
سٹوڈنٹس کو چاہیے کہ روائتی تعلیم حاصل کرنےکی بجائے مستقبل کے مضامین میں
سپشلائز کریں ۔ آنیوالا دور جینز ٹیکنالوجی اور نینو ٹیکنالوجی کا ہے ۔
ہمیں چاروں سطح پر ایجوکیشن کو ایک ساتھ لیکر چلنا ہو گا۔ پرائمری ،
سکینڈری ، ٹیکنیکل اور ہائر ایجوکیشن میں یکساں محنت کئے بغیر ہم ترقی نہیں
کر سکتے ۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی بھی کمی نہیں اور وسائل بھی بے انتہاءہیں ۔
تعلیم ، انٹر پری نور شپ ، زراعت اور صنعتوں پر توجہ ، توانائی کے بحران پر
قابو پا کر اور سب سے اہم بات درست لیڈر شپ کے انتخاب کے ذریعے پاکستان دس
سالوں کے اندر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکتا ہے ۔ ان
خیالات کا اظہار انہوںنے ریڈیو آزادکشمیر FM-93میرپور کے مقبول پروگرام
"Forum 93 with Junaid Ansari"میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ پروگرام میں
بابائے گوجری رانا فضل حسین تمغہ پاکستان اور ایمن شکیل نے بھی شرکت کی ۔
میرپو ریونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلباءنے بھی پروگرام میں حصہ
لیا ۔ ڈاکٹر عطاءالرحمٰن نے کہا کہ 2013کے آغاز میں ہمیں اپنی ترجیحات کا
تعین کر نا ہو گا۔ میں نے پاکستان کے مسائل کے حل کیلئے ایک قابل عمل روڈ
میپ بناکر حکومت پاکستان کو دیا ہے ۔ پاکستان کا سب سے بڑا بحران دیانتدار
حکمرانوں کی کمی ہے ۔ جس سے دیگر مسائل جنم لیتے ہیں ۔ توانائی کے بحران پر
قابو پانے کیلئے میں نے جو تجاویز دی ہیں وہ قابل عمل بھی ہیں اور پاکستان
کا اربوں ڈالرز کا سرمایہ ان پر عمل کرنے سے محفوظ ہو سکتا ہے ۔ گزشتہ
35سال سے ہم غلط راستے پر جا رہے ہیں ۔ تیل کے ذریعے بجلی پیدا کرنا
انتہائی مہنگا عمل ہے اور ایک یونٹ کی قیمت پچاس روپے تک چلی جاتی ہے ۔
جبکہ ہائیڈرو پاور جنریشن کے ذریعے اس کی لاگت صرف ایک روپیہ فی یونٹ آتی
ہے ۔ اسی طرح کوئلے کے وسیع ترین ذخائر پاکستان میں موجود ہیں ہم ان سے
استفادہ نہیں کر رہے ۔ پاکستان میں ہوا کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے انتہائی
وسیع مواقع موجود ہیں حیدرآباد سے لیکر پورے سندھ میں ایسا قدرتی "Air
Corridor"یعنی ہوا کی راہ داری موجود ہے ۔ جس سے بے پناہ بجلی پید اکی جا
سکتی ہے ۔ ہم اس سے فائدہ نہیں اٹھا رہے پاکستانی بچے دنیا کے ذہین ترین
اور لائق ترین بچوں میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ Aلیول اور Oلیول میں پاکستانی
بچے پوری دنیا میں پہلی پوزیشن حاصل کرتے ہیں پاکستان کی کل آبادی کا
56فیصد نوجوانوں اور بچوں پر مشتمل ہے ۔ یہ اتنی بڑی نعمت اور دولت ہے کہ
اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔ ڈاکٹر عطاءالرحمٰن نے کہا کہ مجھے پورا
یقین ہے کہ جلد ہی پاکستان میں حالات درست ہو جائیں گے ۔ عوام کو بھی چاہیے
کہ وہ 2013کے انتخابات میں صالح ، نیک اور اہل ترین قیادت کا انتخاب کرے
تاکہ امتحان اور ابتلاءکی گھڑیاں ختم ہو سکیں ۔پاکستان کو چاہیے کہ امریکی
جنگ سے اپنادامن بچائے کیونکہ امریکہ اور نیٹو نے پہلے عراق میں ظلم وستم
کئے اور اب افغانستان میں وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ انسانیت کے منافی ہے ۔
دہشتگردی کی آگ سے ہم تب ہی نکل سکتے ہیں کہ جب ہم امریکہ کی اس جنگ سے
اپنا دامن چھڑا لیں۔
قارئین! ڈاکٹر عطا ءالرحمان بھی پاکستان اور آزادکشمیر کے وہ محسن ہیں کہ
جنہوںنے بڑے مقاصد کے حصول کے لیے امریکہ ، برطانیہ اور یورپ کے عیش و آرام
کو چھوڑ کر وطن آنا مناسب سمجھا۔ ڈاکٹر عطا ءالرحمن نے 1974ءمیں برطانیہ کی
کیمبرج یونیورسٹی سے آرگینک کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور
امریکہ کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں استاد کی حیثیت سے کام کیا۔ 110سے
زائد کتابیں لکھیں جو اس وقت امریکہ اور یورپ میں یونیورسٹیوں میں پڑھائی
جاتی ہیں۔سات سو سے زائد علمی سائنسی تحقیقاتی مقالہ جات تحریر کئے جو اپنی
نوعیت کا ایک منفرد ریکارڈ ہے۔
قارئین! لارڈ نذیر احمد اور ڈاکٹر عطاءالرحمن جیسے لوگ اگر امریکہ یا کسی
اور ملک کے پیدائشی شہری ہوتے تو آج اُنہیں نوبل ایوارڈز بھی دیئے جارہے
ہوتے اور وہ ممالک اور اقوام اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے۔ لیکن بدقسمتی سے
یہ عظیم لوگ ہمارے وطن میں پیدا ہوئے۔ ہمارے وطن کے لیے جدوجہد کی اور
انہوںنے ہمارے وطن کے لیے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا دیا۔سوچیئے تو سہی کہ ہم
نے اپنے محسنوںکے ساتھ کیا سلوک کیا۔آج کا کالم ہم ادارہ چھوڑ رہے ہیں اس
اُمید پر کہ ہماری قوم اسے خود پورا کرے گی۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے ۔
”جیلر نے قیدی کو رہا کرتے ہوئے کہا کہ معاف کرنا بھائی میں نے تمہیں غلطی
سے ایک سال زیادہ قید رکھا ہے ۔ میں بھول گیا تھا۔“
”قیدی نے اطمینان سے جواب دیا ۔ کوئی بات نہیں صاحب اگلی بار آﺅں تو ایک
سال پہلے رہا کر دینا۔ حساب برابر ہو جائے گا۔“
قارئین! لارڈ نذیر احمداور ڈاکٹر عطا ءالرحمن ضمیر کے وہ قیدی ہیں کہ جو
اپنے ملک ، قوم اور دین کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں
یارانِ وطن اور اربابِ اختیار اب لارڈ نذیر احمد کو مزید کون سا تمغہ دیتے
ہیں اور ڈاکٹر عطاءالرحمن کو کن اعزازات سے نوازتے ہیں۔ |