پنجاب اور دیگر صوبوں کے عوام کا سیاسی مزاج

شہبازشریف کے بارے میں طرح طرح کی باتیں مشہور ہیں، دوست ہوں یا دشمن، یہ سب مانتے ہیں کہ ان سے زیادہ فعال کوئی دوسرا وزیراعلیٰ نہیں ہے۔ شہبازشریف 18، 18 گھنٹے کام کرتے ہیں، ان کے دن کا آغاز اجلاس سے ہوتا ہے، کہا جاتا ہے یہ بعض اوقات فجر سے بھی پہلے افسران کو بلاکر بٹھالیتے ہیں۔ یہ دن بھر دوروں پر رہتے ہیں، کبھی کسی ترقیاتی منصوبے کا جائزہ لیتے نظر آئیں گے تو کبھی دادرسی کے لیے کسی کے گھر پہنچے ہوئے ہوں گے۔ انہوں نے ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے لاہور کا تو نقشہ ہی بدل دیا ہے، صوبے کے عوام کے لیے بھی انہوںنے کئی اسکیمیں شروع کی ہیں، ہزاروں طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کیے، کسانوں کو آسان اقساط پر ٹریکٹر دیے گئے، سستی روٹی کے لیے صوبہ بھر میں تندور لگوائے، اعلیٰ معیار کے دانش اسکول قائم کیے، آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو چھت فراہم کی، ٹرانسپورٹ کے حوالے سے انقلابی اقدامات کیے، شہبازشریف بیرون ملک خاص طور پر ترکی سے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاروں کو پنجاب لائے۔ انہوں نے چند روز قبل سولر انرجی کے حوالے سے بھی ایک بڑے عوامی منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ چند برس قبل سیلاب آیا تو شہبازشریف نے متاثرہ علاقوں میں ڈیرے ڈال لیے، وہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سیلاب زدگان کے ساتھ رہے، متاثرین کی بحالی کے لیے رات دن ایک کردیا، بے گھر ہونے والوں کے لیے ماڈل بستیاں قائم کیں، لوگوں میں لاکھوں نہیں کروڑ روپے تقسیم کیے، جس کی وجہ سے متاثرین کو سنبھلنے میں کافی مدد ملی۔

اب ذرا دوسرے صوبوں کا رخ کرتے ہیں، 2008ءکے انتخابات کے نتےجے میں سندھ اور بلوچستان میں پےپلزپارٹی جبکہ خیبرپختونخوا میں اس کی اتحادی جماعت اے این پی کی حکومت قائم ہوئی۔ سچی بات یہ ہے گزشتہ پانچ برسوں میں ایسا محسوس ہوا جیسے یہ صوبے وزیراعلیٰ کے بغیر کام کررہے ہوں۔ اسلم رئیسانی تو محمد شاہ رنگیلا کا جدید ماڈل نکلے، ملکی تاریخ میں شاید ہی کسی نے ایسا مسخرہ وزیراعلیٰ دیکھا ہو۔ سندھ کے عوام کو بھی اپنے وزیراعلیٰ کی ہفتوں بعد ٹی وی پر زیارت ہوجاتی ہے۔ یہی حال خیبرپختونخوا کا ہے، کہنے کو تو وہاں وزیراعلیٰ ”ہوتی“ ہیں مگر وہ کہاں ہوتے ہیں کچھ پتا نہیں۔ ان تینوں وزرائے اعلیٰ کو وفاقی حکومت کی مکمل سپورٹ حاصل رہی، خزانے کے منہ ان کے لیے کھلے ہوئے تھے، اس کے باوجود ان تینوں صوبوں میں عوامی فلاح وبہبود کی کوئی اسکیم شروع نہیں کی گئی۔ معمول کے ترقیاتی منصوبوں کے علاوہ کوئی ایک بھی میگاپروجیکٹ ان وزرائے اعلیٰ کے کریڈٹ پر نہیں ہے۔

پنجاب میں ڈینگی کی وبا پھیلی تو شہبازشریف مچھروں کو ڈھونڈتے پھرتے تھے، سندھ کئی ماہ سے خسرے کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے، 3ہزار بچے ہسپتالوں میں داخل ہیں، درجنوں جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں مگر وزیراعلیٰ نے آج تک کسی ہسپتال کا دورہ تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ سیلاب متاثرین دو سال گزرنے کے باوجود کھلے آسمان تلے پڑے ہیں، وہ مظاہرے کرکرکے تھک گئے لیکن ان کی چیخ وپکار مدہوش وزیراعلیٰ کو ہوش میں نہیں لاسکی۔ یہ تینوں وزرائے اعلیٰ صوبائی دارالحکومتوں سے نکل کر صوبے کے دیگر علاقوں میں جانے کو غالباً اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اسلم رئیسانی نے تو اپنا دوراقتدار اسلام آباد کی سڑکوں پر موٹرسائیکل دوڑاتے ہوئے گزارا، قائم علی شاہ اور حیدر ہوتی بھی محض پارٹی جلسوں میں شرکت کے لیے ہی دارالحکومت سے نکلتے ہیں، قارئین میں سے کوئی ایسا ہے جس نے ان تینوں وزرائے اعلیٰ کو پارٹی اجلاسوں کے علاوہ صوبے میں کہیں دیکھا ہو یا سنا ہو؟

5برس قبل چودھری پرویزالٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، انہوںنے بھی اپنے دور میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے تھے۔ ”پڑھا لکھا پنجاب“ جیسے کئی منصوبے ان کے دور کی یادگار ہیں، ان دنوں دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا حال کم وبیش آج جیسا تھا، پنجاب کے ارکان پارلیمان اور وزراءکا دیگر صوبوں کے سیاست دانوں کی بہ نسبت حلقے کے عوام سے زیادہ مضبوط تعلق ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے آخر پنجاب کے سیاست دان عوام سے رابطہ رکھنے پر کیوں مجبور ہیں؟ آخر پنجاب کے وزرائے اعلیٰ مارے مارے کیوں پھرتے ہیں اور دیگر صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھے رہتے ہیں؟ دراصل یہ عوامی مزاج کا فرق ہے، پنجاب کے لوگ کام مانگتے ہیں، اگر کوئی ان کی توقعات پر پورا نہ اترے تو پھر ایسے امیدوار کو انتخابات میں منہ کی کھانا پڑتی ہے، لوگ اسے ووٹ نہیں دیتے، یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ انتخابی اپ سیٹ پنجاب میں ہوتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پنجاب کے ہر انتخابی حلقے کی یہ صورت حال ہے، وہاں بھی روایتی سیاست دانوں کا قبضہ ہے مگر انہیں بھی بہرحال ووٹ لینے کے لیے لوگوں کے کام ضرور کرنا پڑتے ہیں۔

دوسرے صوبوں کے عوام کا مزاج اس کے بالکل الٹ ہے۔ بلوچستان تو قبائلی سیاست کے رحم وکرم پر ہے۔ آئیے سندھ کو دیکھتے ہیں، یہاں کی سیاست پر بھی وڈیروں اور جاگیرداروں کا قبضہ ہے، یہ عوام کے کام بھی نہیں کرتے اور لوگوں سے ووٹ بھی لیتے ہیں۔ ہمارے حلقے سے ایک صاحب 1985ءسے مسلسل ایم پی اے منتخب ہوتے آرہے ہیں مگر انتخابی مہم کے بعد شاید ہی کسی نے ان کو حلقے میں دیکھا ہو۔ اگر کوئی کسی کام سے ان کی اوطاق پر چلا بھی جائے تو اسے وہاں اتنی ”عزت“ ملتی ہے جس کے بعد وہ دوبارہ ادھر کا رخ کرنے کی ہمت نہیں کرتا، لیکن جوں ہی الیکشن کا زمانہ آتا ہے میرصاحب عوام سے ”معافی“ مانگنا شروع کردیتے ہیں اور لوگ انہیں معاف کرکے دوبارہ ایوان میں پہنچا دیتے ہیں، کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا میاں! جیتنے کے بعد کہاں غائب ہوگئے تھے۔ یہی صورت حال سندھ کے دیگر حلقوں کی ہے، آپ صوبے کے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں میں چلے جائیں، ہر طرف بھوک اور افلاس نظر آئے گا، جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی سڑکیں آپ کا استقبال کریں گی، مگر اس بدحالی کے خلاف جو احتجاج اور غم وغصہ ہونا چاہیے وہ ناپید ہے، لوگ اپنے حال میں مست ہیں، ےہ لوگ اصلاح احوال سے مایوس ہوچکے ہیں یا پھر انہیں اپنی بدحالی کا احساس ہی نہیں ہے۔

خیبربختونخوا کے عوام کا سےاسی مزاج بھی سندھیوں جیسا ہے۔ جلد ناراض اور جلد خوش ہوجاتے ہیں۔ سیاست دان ان کے کام نہ آئے تو یہ لٹھ لے کر ا س کے پیچھے پڑجاتے ہیں لیکن اگر وہ سیاسی رہنما ان کے گاؤں آجائے تو یہ سب کچھ بھلاکر اسی کے حق میں نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں۔ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کا سےاست دان عوام کے اس بھولے پن سے بھرپور فائدہ اٹھارہا ہے۔ وہ عوام کو رگڑا بھی لگاتا ہے اور پھر ان ہی کے کندھوں پر سوار ہوکر پارلیمان میں بھی پہنچ جاتا ہے۔ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ پنجاب کے عوام کا سیاسی شعور دیگر صوبوں کے لوگوں سے قدرے بہتر ہے، اس لیے پنجاب کے سیاست دان کو ووٹوں کے لیے کچھ نہ کچھ عوامی فلاح وبہبود کے کام ضرور کرنے پڑتے ہیں۔

اپنے علم میں اضافے کے لیے آپ سے اےک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، امید ہے ضرور جواب دیں گے، جس ملک کے عوام کی غالب اکثریت ووٹ کے ذریعے احتساب کی صلاحیت نہ رکھتی ہو، وہاں انتخابات کے ذریعے کیسے تبدیلی آسکتی ہے؟
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 111007 views i am a working journalist ,.. View More