جنت سے جنت تک

نوٹ: (آج کا مضمون میں نے اس نیت اور ارادے سے لکھا ہے کہ کہ یہ ہر مؤمن کی دل کی آواز ہے)۔

خالقِ ارض و سما نے ہر ہر شئے کو ایک حکمت کے تحت تخلیق فرمایا ہے اور اس کے کارخانے میں کوئی چیز بے سبب نہیں ہے۔ پیدائش کے بعد فطری تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں اور انسان کے اندر یہ تبدیلیاں عموماً و اکثر ہوتی ہیں۔ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو وہ پاکدامن و منزہ ہوتا ہے۔ جب وہ شعوری و عقلی میدان میں اترتا ہے تو اس کے امتحانات شروع ہو جاتے ہیں۔ خالقِ کریم نے اسے پیدا کر دیا، اب یہ صراطِ مستقیم پر رہے یا صراط الجحیم اختیار کرے یہ اس کا اپنا اختیار و قسمت ہے۔ اپنے مالک و مولا کا خوف، رسول ﷺ کی محبت دل میں موجود ہو تو ایمان کبھی بھی برباد نہیں ہوتا۔ سلطان مدینہ ﷺ کی محبت جس دل میں موجود ہو وہاں شیطان کا حملہ ناکام ہی ہوتا ہے۔

مجھے اپنے بچپن کے وہ دن یاد ہیں جب کوئی حاجی مکہ یا مدینہ جاتا تو میں چھپ چھپ کر روتا اور اپنی حالتِ زار دیکھ کر خیال کرتا کہ میں تو شائد عمر بھر مکہ و مدینہ نا دیکھ سکوں گا۔ یہ وہ مقدس تڑپ تھی جو ہر مؤمن کی دل میں موجود ہے۔ یہ اولیاء کرام کا فیضان بھی تھا اور میرے خانہ بدوش خاندان پر اللہ تعالٰی کی خاص رحمت بھی کہ ہمارے آباء نے نامساعد حالات کے باوجود ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف ترغیب دلائی۔ مگر اس سے بڑھ کر یہ خاصہِ خاصانِ رسل ﷺ کا خصوصی کرم تھا کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالا طیبہ نگری میری دعاؤں کا مرکز رہی، کبھی تو یوں بھی ہوتا کہ دعا ئیہ الفاظ کی ادائیگی کے لئیے زبان ساتھ چھوڑ دیتی اور میں لمحوں تک بند آنکھوں کےساتھ دل ہی دل میں یتیواں کے والی کو اپنی باتیں سناتا۔
سر گزشت غم کہوں کس سے ترے ہوتے ہوئے
کس کے د ر پہ جاؤں تیرا آستانہ چھوڑ کر

تحفیظ القرآن کے دوران تہجد کے وقت اٹھنے کا موقع ملتا تو آنکھ کھلتے ہی یہ خیال آتا کہ وہ صبح کب آئے گی جب مدینہ کی بھینی سہانی صبح کا لطف اٹھا سکوں گا۔ وقت کی چنگیزیاں اور حالات کے ستم ظریفیاں جب بھی نشانہ بناتیں تو میں نبی جی ﷺ کے اور بھی قریب ہو جاتا۔ اپنی جنت کو یاد کر کے نیر بہنا شروع ہوتے تو آہستہ آہستہ مکینِ گنبدِخضریٰ ﷺ کی تصواراتی بارگاہ میں جا کر خشک ہوتے۔ مدینہ کا ذکر سنتے ہیں ایک ٹھنڈک محسوس ہوتی اور حقیقی محبتوں سے مزیؔن آنسو بہتے۔
نام ِ مدینہ لے دیا چلنے لگی نسیمِ خلد
سوزشِ غم کو ہم نے بھی ایسی ہوا بتائی کیوں

اللہ تعالٰی کسی انسان کو اچھائی سے دور نہیں کرا مگر یہ بھی جزوِ ایمان ہے کہ خیر اور شر کی تقدیر اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ کبھی کبھی وہ نعمت عطا کر کے آزماتا ہے اور کبھی نعمت چھین کر۔ مجھ پر پھر ایسا وقت آیا جب روحانی و معاشرتی مفلسی نے مجھے گھیر لیا اور بارگاہ مصطفیﷺ سے حاصل ہونے والی وہ لذت نصیب نا رہی۔ متاعِ دنیا کا حصول، نفسانیت و مادیت کی پرستش، مقصدتخلیقِ انسان سے نظراندازی، بقا کو چھوڑ کر فنا کے پیچھے دوڑنا اور دنیاوی مقاصد کے حصول میں ہر کوئی مشغول ، ان تمام اعمال نے مجھے بھی متاثر کیا۔

قرآن و اہلِ قرآن فرماتے ہیں کہ جب گناہ حد سے بڑھنے لگیں تو بظاہر ناراضگی کے ساتھ ساتھ اللہ کی رحمت اس بندے کے اور بھی نزدیک ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ قرآن حکیم نے گناہ گاروں کو یہ حکم دیا ہے کہ جب تم اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھو یعنی گناہوں، بد اعمالیوں اور نافرمانیوں سے اپنا دامن گندہ کر لو تو میرے حبیب ﷺ کی بارگاہ میں آجاؤ۔

اب میری زندگی کے وہ دن آچکے تھے جب میری سن بلوغت سے قبل اور طفولیؔت کے دنوں کی لاشعوری دعائیں رنگ لانے لگیں، میں نے ہر نماز کے بعد کعبۃ اللہ کا در مانگا تھا اور ہر نورِصبح میں سحرِ مدینہ طلب کی تھی، ہر شب آسمان پر جگمگاتے تاروں کو اور سوئے طیبہ جاتی ہواؤں کو سلامِ عقیدت دے کر بھیجا تھا، حجاجِ کرام کے ہاتھوں خط بھی بھیجے تھے بالآخر اللہ کی رحمت نے کروٹ لی اور بارگاہ طیبہ سے حاضری کا پروانہ ملا، بے کسوں کے سہارے نے ایسا کرم کیا کہ اب اپنے ہی دیس میں بلا لیا، اب تو اس بارگاہ میں آنا جانا لگا رہتا ہے، مدینے کی راتیں بھی دیکھ لیں، صبح و شام بھی دیکھ لئیے، آمنہ کے لاڈلےﷺ کا گھر دیکھ لیا، ان کے پیاروں کو دیکھ لیا، آقا ﷺ کی اولاد، سیدہِ کائنات، یارِ غار، مرادِ رسولِ، عمِؔ رسول جنابِ امیر حمزہ، اولادِاطہار رضوان اللہ علہیم اجمعین کی بارگاہوں کی حاضری اب معمول بن چکی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے میرے گناہ حد سے بڑھ چکے تھے، میرے خود پر ظلم بہت زیادہ ہو گئے تھے، میں کسی کے لئیے پریشانی و بوجھ کا سبب بن گیا تھا، مجھے اب دنیا کی نظروں میں کوئی مقام حاصل نہیں رہا تھا، میرے لئیے اب کسی کے پاس پناہ نہیں تھی، میری کم مائیگی اور تہی دامنی کسی کو قبول نا تھی، طعن و تشنیع اور دنیا کی فکر نے مجھے بہت کمزور کر دیا تھا مگر۔۔۔ سلطانِ سلطاناں، شہنشاہِ کل جہاں، رحمتِ عالمیاں، بحرِ بیکراںِ، سہارہِ غریباں، دکھیوں کے والی کی رحمت جوش میں آ گئی اور یہ کہہ کر اپنی نگری میں بلا لیا کہ آ تجھے اپنی آغوشِ رحمت میں لے لوں، تجھے کوئی نا سہے مگر میں تو غیروں کو بھی اپنے سینے لگانے والا ہوں، تیرے گناہ بہت بڑھ گئے ہیں مگر میری رحمت سے کم ہی ہیں، تو مجھے چھوڑ کر دنیا کمانے بھاگا تھا مگر میں نے تجھے نہیں چھوڑا، تو مجھ پر درود نہیں پڑھتا تھا مگر میں اللہ تعالٰی سے ہمیشہ تیرے مغفرت کی دعا کرتا رہا ہوں، میں نے تو اپنی اماں آمنہ کی گود میں آتے ہی تیری مغفرت مانگی تھی، آجا میری رحمت کی چادر تلے، میرا سبز گنبد و سنہری جالیاں منبع و مرکزِ انوار ہیں آ تو بھی بحرِ کرم میں غوطہ زن ہو جا، میں نے تم سب کے لئیے طائف کی گلیوں میں پتھر کھائے، میرے جسمِ نبوت سے لہو بہتا رہا مگر میری رحمت تمہیں نہیں بھولی، میری زینب سر راہ شہید کر دی گئی مگر میں نے تم سب کے لئیے رشد و ہدایت کے راستے کھول دئیے، میرا پورا کنبہ تمہاری آسانیوں کے لئیے مشکلات سے گذرا۔ تم بدکار ہو یا خطاکار مجھے قبول ہو، دنیا سے چھپ چھپ کر گناہ کرتے ہو، میرے نام پر جھوٹ بولتے ہو، میرا صدقہ کھا کر مجھے اور میرے پیاروں کو برا کہتے ہو مجھے پھر بھی قبول ہو۔

میرے آقاﷺ کے دامانِ کرم کے کیا کہنے، کر م بالائے کرم کہ اس سال اپنے ولادت کے دن بھی بلا لیا، یہ میری زندگی کی پہلی حاضری تھی جب میں نے میلادالنبیﷺ کی صبح مدینہ پاک میں گزاری، اس سے بڑھ کر یہ کرم کہ ریاض الجنہ میں نوافل کی ادائیگی کا شرف بھی مل گیا۔
میرے کرم سے گر قطرہ کسی نے مانگا
دریا بہا دئیے ہیں، در بے بہا دئیے ہیں

ایسے آقاﷺ کا غلام ہونے پر بھلا کیوں نا رشک کیا جائے۔۔۔ اللہ مدینہ منورہ کی رونقوں کو مزید بہاریں عطا کرے ہم بھکاری اس در سے کھا کر یہی دعا دے سکتے ہیں۔ یہ وہ در ہے جس سے پکا رابطہ قائم ہو جائے تو پھر غموں اور بلاؤں سے نجات مل جاتی ہے۔ اللہ کرے میرے تمام عزیز و دوست ایمان کی سلامتی کے ساتھ بار بار مدینہ آئیں اور اہل و عیال کے ساتھ آئیں۔

میرا یہ سفر جنت یعنی ماں کی گود سے شروع ہوا تھا، پھر اس راستے میں ہزار ہا رکاوٹیں اور پریشانیاں آئیں اور بالآخر میں جنتِ مدینہ تک پہنچا۔ اللہ اس سر زمین پر ایمان کے ساتھ خاتمہ عطا کرے اور تاجدارِ مدینہﷺ کی شفاعت و قربت کا انتظام فرمائے۔ آمین
سیر گلشن کون دیکھے دشت طیبہ چھوڑ کر
سوئے جنت کون جائے در تمھارا چھوڑ کر
مر ہی جاؤں میں اگر اس در سے جاؤں دو قدم
کیا بچے بیمار غم قرب مسیحا چھوڑ کر
بخشوانا مجھ سے عاصی کا روا ہو گا کسے
کس کے دامن میں چھپوں دامن تمہارا چھوڑ کر
ایسے جلوئے پر کروں میں لاکھ حوروں کو نثار
کیا غرض کیوں جاؤں جنت کو مدینہ چھوڑ کر
مر کے جیتے ہیں جو ان کے در پہ جاتے ہیں حسن
جی کہ مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر
Iftikhar Ul Hassan Rizvi
About the Author: Iftikhar Ul Hassan Rizvi Read More Articles by Iftikhar Ul Hassan Rizvi: 62 Articles with 246404 views Writer and Spiritual Guide Iftikhar Ul Hassan Rizvi (افتخار الحسن الرضوی), He is an entrepreneurship consultant and Teacher by profession. Shaykh Ift.. View More