خیالات،احساسات اور افکار کا
اظہار انسانی جبلت کا خاصا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اظہار کا انداز مختلف
ہو۔انداز اظہار، تاثرات کی شکل کے ساتھ ساتھ،الفاظ میں بھی ہو سکتا ہے-
اظہار نثر اور نظم دونوں صورتوں میں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ ایک ازلی
حقیقت ہے کہ اظہار افکار کے لئے الفاظ کا سہارا ضروری ہے- افکار ہر شخص کے
ذہن میں ابھر تے اور جنم لیتے رہتے ہیں- یہ عطیہ خداوندی ہے- انسان جتنا
حساس ہوگا ، اسی قدر وہ نہ صرف ذاتی بلکہ اپنے اطراف میں جنم لینے والے برے
اور اچھے دونوں قسم کے حالات، مسائل اور واقعات سے متاثر ہوگا اور اس کے
برملا اظہار کی کوشش بھی کرے گا- اظہار کے اس جذبے کو زیر کرنا، اس کے بس
میں نہیں جب تک وہ اظہار نہین کر دیتا، عجب نامعلوم سی ذہنی کشمکش میں
مبتلا رہتا ہے- اسے متاثرہ احساسات ، کس طرح بھی سکون کا سانس نہیں لینے
دیتے- اس طرح وہ اپنا کتھا رس کرتا ہے اور خود کو پر سکون اور زندہ رکھنے
کے لئے اپنے افکار کا اظہار کرتا ہے- قرطاس پر پھیلے ہوئے الفاظ اس کی ذہنی
کیفیات کا بہ خوبی اظہار کرتے ہیں کہ اس نے کسی واقعے کو کس قدر گہرائی سے
محسوس کیا ہے-
یہی مسئلہ تھا کہ میں نے لکھنا شروع کیا- در اصل کچھ کیفیات، کچھ مسائل اور
کچھ خیالات مجھے اس قدر جھنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں کہ انگلیاں خود بخود قلم
کا سہارا لے لیتی ہیں-اگر میں قلم نہ پکڑ سکوں تو میں اپنے اندر ایک ہیجانی
کیفیت محسوس کرنے لگتا ہوں-عام حالات میں بھی مین اپنے معمولات کی تکمیل
میں مشینی انداز میں مصروف رہتا ہوں، مگر ایسا لگتا ہے کہ کوئی ذی روح نہیں
بلکہ روبوٹ ہوں، جو بغیر ذہن استعمال کئے اپنی ذمے داریاں اور اپنے فرائض
پورے کئے چلا جا رہا ہے- میرا ذہن، میرے ساتھ نہیں ہوتا، میں اس صورت حال
میں لاشعوری طور پر ایک ایسے کرب میں مبتلا رہتا ہوں، جس میں سانس کے زیر و
بم میںبھی ایک بے کلی سی رہتی ہے، جب میں لکھ لیتا ہوں تو پر سکون ہو جاتا
ہوں-
میں نے لکھنا اس وقت شروع کیا، جب میں آٹھویں جماعت میں تھا-اس سے پہلے ایک
بے چینی تھی، جس کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی-آخر ایک دن خاندان کے ایک
بزرگ نے مجھ سے بچوں کی کہانیاں لکھنے کو کہا، پھر میری یہ کہانیاں بچوں کے
مختلف جرائد میں شائع ہونے لگیں-اس کے بعد ایک اسلامی آرٹیکل “ رشوت “ پر
حکیم محمد سعید مرحوم کے رسالہ میں بھی شائع ہو گیا تھا- یہی نہیں قا ئد
اعظم محمد علی جناح کی صد سالہ تقریب پر ایک آرٹیکل تحریر کرنے پر پہلا
ایوارڈ ١٩٧٦ میں پاکستان نیوی نے عطا کر دیا تھا جس سے مزید میری تحریر کو
تقویت پہنچی-
میں نے اظہار کا ذریعہ نثر کو بنایا لیکن کہیں کہیں شاعرانہ انداز بھی
آجاتا تھا-کہانیوں کے کسی بھی کردار کی زبان سے منظوم اظہار خیال کر دیتا
تھا جسے پسند کیا جاتا اور میری حوصلہ افزائی کی جاتی-جس کے بعد میں نے
اندازہ کیا کہ شاعری ایک مشکل فن اظہار کا ذریہ ہے اور یہ فنکارانہ چابک
دستی کا تقاضا کرتی ہے لہٰذا میں بھی اس فن پر ہورا اترنے کی کوشش کروں-
اپنے جذبوں کی تسکین کے لئے کبھی کبھی فی البدیہہ شاعری بھی کرنی شروع کردی
اس لئے بھی کہ شاعری جذویست از پیغمبری ہے- اس طرح پانچ سو کے قریب میرے
قطعات،رباعیات، نظمیں اور غزلیں اخبارات میں شائع ہوگئے- اسی ویب سائٹ پر
١٢٨ قطعات اور نظمیں، غزلیں قارئین کے لئے موجود ہی-لیکن یہ ضروری نہیں کہ
وہ سب کی سب فنی کسوٹی پر پورے اتریں کیونکہ ہر ادیب و شاعر اپنے اپنے الگ
الگ خیالات رکھتا ہے اور پھر سینئر اور جونیئر اور علاقوں سے تعلقات کا بھی
مسئلہ اپنی جگہ ہے جو کہ تفریق کا باعث بنتا ہے۔
البتہ نثر ، میرا میدان ہے- اس میں اب تک تین کتابیں منظر عام پر لا چکا
ہوں- ١۔ ذوق انقلاب ٢۔اذن انقلاب ٣۔ قہقہے ہی قہقہے-
میں نے مذہبی مضامین بھی لکھے، ملکی حالات پر بھی قلم اٹھایا، طنز و مزاح
پر بھی ہاتھ صاف کیا- ان سب کے باوجود میں آج بھی خود کو طفل ِ مکتب سمجھتا
ہوں-
میں اس لئے لکھتا ہوں کہ لکھنا میری سرشت میں ہے،اس لئے ہر ایک کو پرھتا
ہوں کہ پڑھنا میری عادت ہے اور مزید رٹائرمنٹ کے بعد پرھنے کے لئے ابھی سے
کتابیں بھی جمع کرنے لگا ہوں- میں لکھتے رہنے کا وعدہ اپنے آپ سے کر رہا
ہوں کہ خود میرے ذہن پر قرض ہے کہ بغیر لکھے میں رہ ہی نہیں سکتا- جب لکھتا
ہوں تو بے چینی اور اضطراب میں کمی آجاتی ہے-کیونکہ میں کسی قسم کے نشے کا
بھی عادی نہیں ہوں نہ ہی سگریٹ پیتا ہوں، نہ پان اور گٹکا کھاتا ہوں اور نہ
ہی نسوار لگاتا ہوں صرف اور صرف قوم اور ملک کا غم کھاتا اور پیتا ہوں جبکہ
سیاسی لوگ ملک کے حالات کو خراب کر کے دانشور اور دیدہ بینائے قوم کا خون
ہر وقت پیتے رہتے ہیں ، خود کو ملک و قوم کے لئے ٹھیک کر نے کے بجائے-
اللہ اپنا رحم و کرم فرمائے پوری پاکستانی قوم پر اور انہیں حفظ و امان میں
رکھے-آمین!
الحاج ابوالبرکات، شاعر، ادیب، محقق و مصنف۔ ایوارڈ یافتہ قلم کار حکومت
سندھ- ممبر آرٹس کونسل آف پاکستان و ممبر اکادمی ادبیات پاکستان اسلام
آباد۔ سیل نمبر ٠٣٠٠٢٠٦٨١٠٦
گلستانِ علم و ادب -مڈویک میگزین
روزنامہ جنگ مورخہ ١٧ اکتوبر ٢٠١٢ |