دنیا میں سب سے بڑا رشتہ اعتماد
کا ہی ہے۔ اگر اعتماد کا عنصر ہے تو سارے رشتے اور معاملات ٹھیک ہوں گے اور
اگر اعتماد نہیں ہے تو تمام رشتے بے فالدہ ہیں۔ خاندانی معاملات ہوں یا
ریاستوں کے معاملات ہوں، کاروباری معاملات ہوں با سفارتی معاملات ہوں ان کی
خوبصورتی اور کامیابی کی اصل بنیاد اعتماد ہی ہے۔ مجبوری اور مطلب میں رشتے
پائدار اور محبت کے رشتے نہیں ہوتے بلکہ عارضی اور سطحی ہوتے ہیں جوں ہی
مطلب اور مجبوری ختم ہوی رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔
آج اگر ہم اپنے ارد گرد کے یا بین الاقوامی حالات پر نظر دوڑاءیں تو ہم اس
بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کون سے مظبوط رشتے ہیں اور کون سے عارضی۔
یوں تو تمام رشتوں میں کچھ نہ کچھ توقعات ہوتی ہیں مگر محض توقعات ہی کی
خاطر رشتوں میں محبت اور خلوص کم ہی ہوتا ہے۔ اور پھر توقعات کے پورا نہ
ہونے کی صورت میں رشتے خطرے میں پڑ جاتے ہیں
آج ہم اپنے خاندانی یا انفرادی معاملات، قومی معاملات سے لے کر بین
الاقوامی معاملات تک سب کے سب شکوک و شبیات کا شکار ہیں اور یہی ہماری ترقی
میں سب سے بڑی رکارٹ ہے۔ آج ہم اگر خورد و نوش کی چیزوں سے لے کر بڑی بڑی
مصنوعات تک دیکھیں تو ہماری منڈیوں میں باہر سے آتی ہیں تو اس کی اصل وجہ
یہی ہے کہ ہمیں نہ تو اپنی مصنوعات پر اعتماد ہے اور نہ اپنے لوگوں پر۔
ہمیں نہ ایک دوسرے پر اعتماد ہے اور نہ دوسری قوموں کو ہم پر اعتماد ہے۔
اعتماد کی بنیاد سچائ اور خلوص پر ہوتی ہے اور بے ایمانی اور جھوٹ اعتماد
کو ختم کر دیتی ہے۔ آج جتنا کوئی زیادہ قابل اعتماد ہے اتنا ہی کامیاب ہے
کوئ کاروباری ادارہ ہو یا قوم اگر لوگوں یا قوموں کو اس پر اعتماد ہے تو وہ
کامیاب ہے ۔ کوی جتنا زیادہ با اعتماد ہے اتنا ہی ترقی کی صف میں آگے ہے۔
اعتقاد ہماری زاتی چیز اور دوسروں سے مخفی ہیں مگر عمل ظاہری اور دوسروں کے
دیکھنے کی چیز ہے اور ہمارا ایمان اور اعتقاد کتنا ہی عالی شان اور بے مثال
نہ ہو جب تک ہمارے عمل میں نہ بدلے بے فاءدہ ہے نہ صرف ہماری اپنی زات کے
لیے بلکہ اور دوسروں کے لیے بھی۔ دوسرے لوگوں کو ہمارے ایمان یا اعتقاد سے
کوی سروکار نہیں ہے ان کو اگر سروکار ہے تو ہمارے معاملات سے اگر ہمارے
معاملات ٹھیک ہیں تو ہمارا اعتماد قاءم ہو گا اور ہمارے رشتے مظبوط ہونگے
اور ہم ہر شعبہ زندگی میں کامیاب ہونگے۔
آج ہم بحثیت مسلمان کیو ں بدنام ہو رہے ہیں اس کی اصل وجہ ہمارے معاملات ہی
ہیں کہ ہم ابنے معاملات میں قابل اعتما د ںہیں ہیں اور اسی وجہ سے ہم اپنے
مذہب کے نام پر بد نما دھبہ بنے ہوے ہیں اور سب سے بڑی وجہ ہم خود ہی ہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے اور جب تک ہم اپنی زندگیون کو ان
اصولوں کے مطابق نہ بنائیں گے ہماری مذہبی ذمہ داری پوری نہ ہوگی بلکہ میں
کہوں گا کہ ہم مذہبی مجرم ہیں ۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم مسلمانوں کے گھر
پیدا ہوے اور یہ ہمیں شناخت تو مل گئ مگر ہم اپنی شخصیت کو اسلامی نہ بنا
سکے۔
ہم سب کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے اور دوسروں پر تنقید
کرنے کی بجائے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ ہمارے حقوق کے ساتھ ساتھ ذمہ
داریاں بھی ہیں اور ذمداریاں نبھانا ہی حقوق کی عزت و احترام بھی ہے اور
دوسروں کے حقوق کی ادائگی۔ جب ہم تمام اپنی ذمہ داریوں کے طرف توجہ دیں گے
تو ہمارے حقوق خود بخود ہی پورے ہونےشروع ہو جائیں گے اور اگر اس میں
سچائی،خلوص اور ایمانداری کو شامل کر لیں گے تو اعتماد کا رشتہ قائم ہو
جائے گا ۔ اور دنیا میں ہمارا کھویا ہوا وقار دوبارہ سے لوٹ آیے گا اور ہم
ترقی یافتہ قوموں کی صف میں شمار ہونا شروع ہو جائیں گے۔
ہمیں اپنی سوچ اور سوچنے کے انداز کو بدلنا ہوگا اسے حقیقتوں سے ہم آہنگ
کرنا ہو گا اور اپنی اسلامی اقدار کو عملی طور پر اپنانا ہوگا تاکہ ہم اپنے
بڑوں کی طرح معاشرے کے اندر ایک چلتی پھرتی مثال ہوں پھر ہمارے اور اس کے
اثرات نہ صرف ہماری اپنی ذندگیوں پر ہونگے بلکہ دوسرے بھی اثرات لیں گے۔
اور ایسا معاشرہ تشکیل پائے گا جس مین نہ تو کسی کا جاگیردار یا سرمایہ دار
ہونا نقصان دہ ہو گا اور نہ صاحب اختیارات بلکہ یہ سب کچھ بھائی چارہ، محبت
اور مساوات کا ماحول پیدا کرنے میں مددو معاون ہوگا
علم ودانش، صورت و سیرت ہے زر کمال
مگر سکون قلب واسطےاعتماد ہے لازم |